ام الجہاد یا ام الفساد ۔ محمد اشفاق

ایک بار کہیں افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف جنگ کو “ام الجہاد” کا نام دیا گیا تھا- کیونکہ اس جنگ نے دنیا بھر میں مختلف ممالک میں جہاد کی راہ ہموار کی- یہ الگ بات ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں جہنم بن کر رہ گئیں- ہم اپنی ایک انچ زمین بھی کفار کے قبضے سے نہ چھڑوا پائے البتہ اپنے کئی ہنستے بستے ممالک کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا- جہاد کا مقدس فریضہ اس قدر بدنام ہوا کہ آج جہادی کا لقب دنیا بھر میں دہشتگرد کا مترادف بن کے رہ گیا ہے- افغان جنگ درحقیقت کیا تھی اور اس نے کس طرح دنیا کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا, کس طرح اس نے مسلم نوجوانوں کے ذہنوں کو منفی طور پہ متاثر کیا اور مفادات کی اس جنگ کو جہاد قرار دینے کے چکر میں ہم سے ایسی کون سی پہاڑ ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جن کا خمیازہ ابھی تک مسلم امہ بھگت رہی ہے- اس مضمون میں مختصرا” ان سب باتوں پہ اپنا موقف پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے-

ظاہر شاہ کے چالیس سالہ اقتدار کا خاتمہ داؤد کے ہاتھوں ہوا, داؤد کی حکومت کا کوئی خاص کارنامہ تو نہیں مگر شاہ سے تنگ آئے افغان عوام نے بہرحال اس کا خیرمقدم کیا- داؤد کا رویہ پاکستان کے ساتھ بھی نسبتا” بہتر تھا, مگر ملک کے اندر اس کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان یعنی پی ڈی پی اے کی جانب سے شدید مخالفت پائی جاتی تھی- پی ڈی پی اے کے ایک مرکزی راہنما کے قتل کے بعد افغان فوج کے تعاون اور حمایت اور روسی آشیرباد سے وہ برسراقتدار آئی- نور محمد ترکئی سربراہ حکومت بنے اور حفیظ اللہ امین جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے دست راست- دونوں کا تعلق خلق دھڑے سے تھا, پرچم دھڑے کے سربراہ ببرک کارمل روس میں پناہ لینے پہ مجبور ہوئے- یہاں یہ ذہن میں رہے کہ افغانستان کے امور میں روسی مداخلت پی ڈی پی اے حکومت سے بہت پہلے سے جاری تھی, شاہ کے دور ہی سے افغان اور روس حکومت کے آپس میں قریبی تعلقات تھے اور روس کا افغان سیاست پہ گہرا اثر تھا- یہ اثر البتہ اب کئی گنا بڑھ چکا تھا-

کمیونسٹ حکومت نے افغانستان میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں- زرعی اصلاحات, مشترکہ ملکیت کا تصور, عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دیے جانا اور سود پہ قرض دینے کی ممانعت چند اہم اقدامات تھے- سود خور افغان معیشت کا اہم حصہ تھے, آج بھی پاکستان میں بہت سے افغان سود پہ قرض دینے کا کاروبار کرتے ہیں- اس وقت بھی ایسا ہی تھا- جب پی ڈی پی اے نے غریب کاشتکاروں کے قرضے معاف کر ڈالے تو ان کے مفادات کو گہری زد پہنچی- چونکہ بیشتر سود کے بیوپاری آج کی طرح اس وقت بھی لمبی داڑھیاں اور ہاتھ میں تسبیح تھامے ہوا کرتے تھے، اور مساجد اور مولویوں کو چندہ دینے میں پیش پیش رہا کرتے تھے اس لئے افغان مذہبی طبقے پہ ان کا گہرا اثر و رسوخ تھا, اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف غیرشرعی اقدامات کا الزام لگاتے ہوئے تحریک شروع کر دی گئی حالانکہ افغان کمیونسٹوں نے مذہب سے قطعی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی تھی-

بدقسمتی سے ترکئی نے تحریک کچلنے کیلئے تشدد کا سہارا لیا- ہزاروں لوگ (تقریبا” ستائیس ہزار) پابند سلاسل کر دیے گئے اور ہزاروں ہی (کارمل کے مطابق اٹھارہ ہزار, دیگر ذرائع پانچ سے سات ہزار) موت کے گھاٹ اتار دیے گئے- ایسے میں افغان علماء اور طلبا کی بڑی تعداد پاکستان پہنچی- بھٹو مرحوم نے ان کی مدد کا فیصلہ کیا, یوں تحریک مزاحمت کی بیرونی سرپرستی کا آغاز ہوا- دوسری جانب ترکئی اور امین میں اختلافات کے نتیجے میں حفیظ اللہ امین نے ترکئی کو موت کے گھاٹ اتار کر اقتدار خود سنبھال لیا- اس نے اس ظلم و جبر کے خاتمے اور تحقیقات کا اعلان کیا مگر حالات اس کے قابو سے باہر ہوگئے تو روس سے مدد کی اپیل کی-

روسی افغان حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ تھے انہوں نے اپنی فوج کابل بھجوائی, اس فوج نے امین کو گولی مار کر عنانِ حکومت ببرک کارمل کے سپرد کر دی-

ببرک کارمل نے نہ صرف سیاسی قیدیوں کی رہائی, دیگر سیاسی جماعتوں سے پابندی اٹھانے جیسے اقدامات کئے بلکہ وہ ایک نان سوشلسٹ قومی حکومت کے قیام پہ بھی تیار ہوگیا مگر اب مولویوں کی تنظیموں کو نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا کی پشت پناہی بھی حاصل ہوچکی تھی- امریکا نے اسے ویت نام کا حساب برابر کرنے کا سنہری موقع سمجھا تو پاکستان کو پہلی بار کابل میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کا موقع نظر آیا- چائنا نے روس سے پرانا حساب چکانا تھا اس لئے وہ بھی پاکستان کا ہمنوا تھا- یہ عالمی و سیاسی مفادات کی جنگ تھی اور پاکستانی حکومت نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے جو مناسب سمجھا وہ کیا, غلطی صرف یہ ہوئی کہ عالمی طاقتوں کی اس رسہ کشی کو سی آئی اے کی ایماء پر ایک مذہبی جنگ یعنی جہاد قرار دے دیا گیا- یہ ایک خوفناک غلطی تھی-

سعودی, مصری اور پاکستانی علماء نے جہاد کے واجب ہونے کے فتوے جاری کئے- عرب ریاستوں سے نوجوان جوق درجوق کافروں سے ٹکرانے کیلئے پاکستان آنے لگے- شوقِ شہادت سے سرشار ان نوجوانوں کو اپنی حکومتوں سے یہ پوچھنے کا خیال نہ آیا کہ اگر جہاد فرض ہو چکا ہے تو ہماری فوج بیرکوں میں کیا کر رہی ہے؟ یہ کیسا جہاد ہے, جو صرف سویلینز پہ فرض ہوا ہے؟ یہ دوسری خوفناک غلطی تھی, یعنی سویلینز کو جہاد کی اجازت دینا-

جب یہ مجاہدین افغانستان پہنچے تو ان کا سامنا افغان فوج سے ہوا کیونکہ روسی تو چند بڑے شہروں اور مرکزی شاہراہوں پہ تعینات تھے- اب معاملہ یہ کہ افغان فوج بھی سو فی صد مسلمان تھی, افغان حکومت  اور افغان انتظامیہ بھی مسلمانوں پہ مشتمل تھی- تو یہ کیسا جہاد تھا جو مسلمانوں ہی کے خلاف لڑنا پڑ رہا تھا؟ اس مسئلے کا شرعی حل یہ نکالا گیا, کہ کافروں کی تائید و حمایت سے برسراقتدار مسلمان حکومت جو میدانِ جنگ میں کافروں کے ساتھ کھڑی ہو, کی حیثیت کفار کی کٹھ پتلی سے زیادہ کچھ نہیں, (اس دور میں کابل حکومت کو ہمارے ذرائع ابلاغ حقارت سے کٹھ پتلی انتظامیہ کہا کرتے تھے) اور اس کے خلاف مسلح خروج بھی عین عبادت ہے- یہ تیسری خوفناک ترین غلطی تھی-

بلوچستان اور موجودہ کے پی کے میں افغان سرحد کے ساتھ ساتھ سینکڑوں دینی مدارس قائم تھے, جن کی اکثریت کا تعلق دیوبند مکتبہءفکر سے تھا- رواداری, تحمل مزاجی, صلح کل کے علمبردار سادہ دل علمائے کرام بدترین معاشی حالات, کٹھن موسم, وسائل کی کمی کے باوجود ان پسماندہ ترین علاقوں کے نوجوانوں کو بنیادی دنیاوی و دینی تربیت دینے کیلئے کوشاں تھے, جبکہ ریاست اپنا یہ فریضہ ادا کرنے میں ناکام تھی- مدارس کے طلباء شام کو گھروں کے باہر طالب کا روٹی یا مسجد کا روٹی کی صدا لگاتے اور جو روکھی سوکھی ملتی کھا کر دین کی خدمت پہ کمربستہ ہوجایا کرتے- افغانستان کے حالات سے یہ لاتعلق نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ اکثر قبائل بارڈر کے دونوں طرف آباد تھے- حکومت نے سی آئی اے کے تعاون, اسرائیلی اسلحے اور عرب درہم و ریال کے زور پہ ان مدارس کو جہاد کی نرسریاں بنا ڈالا- معصوم طالب علموں کے ہاتھوں سے کتاب لے کر انہیں پندرہ ماہ کی گوریلا جنگ کی تربیت دے کر افغانستان دھکیلا جانے لگا- عرب مجاہد اپنے ساتھ جو سلفی و وہابی نظریات لے کر آئے تھے, انہوں نے دیوبند کی درخشاں روایات کو ایک طرف کر کے ان مدارس کے اساتذہ و طلباء میں بھی وہ درشتی, تنگ نظری اور وحشت پیدا کردی جو عربوں کے مزاج اور نظریات کا خاصہ تھی- مشہور افغان لیڈر عبد الرسول سیاف, عبدالرب رسول سیاف کہلائے کیونکہ ان کا پہلا نام عرب مجاہدین کے نزدیک مشرکانہ تھا-

اسی دوران ایران میں خمینی صاحب کا انقلاب آ چکا تھا- ان کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کی ذمہ داری بھی پاکستان میں دیوبندی مکتب کے سر ڈال دی گئی- یہ وہ دور تھا جب پاکستان سی آئی اے, کے جی بی, خاد, را, موساعد, ایم آئی سکس, سعودی, عراقی ومصری انٹیلی جنس, ایرانی انٹیلی جنس سمیت دنیا بھر کی خفیہ تنظیموں کا دوسرا ہیڈ کوارٹر بن گیا تھا- ان سب نے اپنے اپنے گندے کھیل کیلئے پاکستان کو استعمال کیا-

دیوبندیوں کی نمائندہ تنظیم جمیعت علمائے اسلام کو فرقہ واریت کے ہاتھوں ہائی جیک کرنے کی کوشش ہوئی جسے مولانا فضل الرحمان نے نہایت دانشمندی سے ناکام بنا دیا- یوں انجمنِ سپاہِ صحابہ کا جنم ہوا- اس کے مقابلے میں سپاہِ محمد کھڑی کی گئی- اب ایک تنظیم کے ارکان افغانستان میں گلبدین اور عربوں کے کیمپس میں, جبکہ دوسری کے ایران میں تربیت حاصل کر کے پاکستان میں ایک دوسرے کو مارتے رہے- افغانستان سے لاکھوں مہاجرین کے ساتھ ڈرگز اور ناجائز اسلحے کا ایک سیلِ رواں بھی پاکستان میں داخل ہوا اور ہماری ایک نسل اجاڑ کر بھی ابھی یہیں موجود ہے- مذہبی شدت پسندی, فرقہ واریت اور قتل و غارت کا جو بیج اس نام نہاد جہاد کے نتیجے میں پاکستانی سرزمین پہ بویا گیا اس کا پھل ہم ابھی تک کھا رہے ہیں-

روسی افواج کے انخلاء کے ساتھ امید تھی کہ افغانستان میں اب امن بحال ہوگا مگر افغان مجاہدین کے کچھ اور ہی ارادے تھے- البتہ عرب مجاہدین عارضی طور پہ اپنے اپنے ممالک کو لوٹ گئے- اور جب پاکستانی مجاہدین واپس آنا شروع ہوئے تو ریاست کو ایک اور انوکھا آئیڈیا آیا-

براس ٹیکس کی مشقوں میں بھارتی فوج نے پاکستانی سرحدوں پہ ناقابل یقین تیزی سے جمع ہو کر دکھایا تھا- مستقبل میں اس سے بچنے کیلئے تاکہ یکسوئی سے افغانستان میں سینگ پھنسائے رکھے جا سکیں, کشمیر میں 1988 میں شروع ہونے والی خالص مقامی تحریکِ آزادی کو بھی جہاد ڈیکلئر کر دیا گیا- ایک بار پھر یہ جہاد سویلینز نے لڑنا تھا- گھر گھر سے چندہ اکٹھا ہونے لگا, طرح طرح کے لشکر, سپاہ, حزب اور جمیعتیں وجود میں آئیں اور جنگی ترانے سنا سنا کر نوجوانوں کو جہاد کیلئے بھرتی فرمانے لگیں- زیادہ سے زیادہ نوجوان کم سے کم وقت میں جنگ کا ایندھن بنانے سے چونکہ ان تنظیموں کی ساکھ اور مقام بلند ہوتا تھا, لہذا پندرہ ماہ کی ٹریننگ اب نو ماہ کی رہ گئی, اکیس سال عمر کی حد چھوڑ کر بالخصوص لشکر طیبہ اور جیشِ محمد اب سولہ سولہ سال کے بچے بھی کشمیر بھجوانے لگیں- کشمیر مگر آزاد نہ ہوا, کہ پالیسی سازوں کا ہدف محض انڈین آرمی کو انگیج رکھنا تھا, ایک سابق جنرل کے الفاظ میں to make them bleed, ہماری سٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ اس طرح دنیا مسئلہ کشمیر کا بھی افغانستان جیسا کوئی حل نکالنے کا سوچے گی, مگر دنیا اس دور سے بہت آگے نکل آئی تھی-

دوسری جانب عرب مجاہدین جب اپنے اپنے وطن واپس لوٹے تو حیرت, دکھ اور مایوسی سے انہوں نے دیکھا کہ ان کی اپنی حکومتیں امریکا کی اس حد تک کٹھ پتلی بن چکی ہیں کہ وہ اپنے دفاع کیلئےبھی امریکی فوجوں پہ تکیہ کرتی ہیں- اسامہ نے امریکی فوجوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا- جب جواب میں انکار ہوا تو عرب مجاہدین نے وہی کیا جو انہیں افغانستان میں سکھایا گیا تھا, کفار, ان کی دوست حکومتوں اور عوام کے خلاف پرائیویٹ جہاد- اور پھر نائن الیون ہوگیا-

مشرف کی زیرِ قیادت پاکستان کا رویہ نائن الیون کے بعد عجیب و غریب تھا, ایک جانب ہم طالبان کو مشورے دے رہے تھے تو دوسری جانب امریکا کو ان پہ حملے کیلئے ہوائی اڈے, ایک جانب امریکا سے انٹیلی جنس شئیرنگ تھی کہ کہاں کہاں بمباری کی جائے دوسری جانب ہزاروں پاکستانی جب طالبان سے مل کر امریکا سے لڑنے نکلے تو انہیں بھی نہ روکا گیا- یہ وہ دور تھا جب ہم سچ مچ خرگوش کے ساتھ دوڑ بھی رہے تھے اور کتوں سے مل کر اس کا شکار بھی کھیل رہے تھے- یہ ڈبل گیم ہمیں اس قدر بھائی کہ ہم اسے چھوڑنے کو ابھی بھی تیار نہیں ہیں- امریکیوں نے ہمارا کھیل سمجھ کر جب ڈو مور کا مطالبہ کیا تو چاروناچار جو کچھ ہمیں کرنا پڑا, اس نے تحریکِ طالبان پاکستان کو جنم دیا- تحریکِ طالبان پاکستان کا سیدھا سادھا فلسفہ ہے- ایک یہ کہ کافر حکومت اور اس کے حواریوں سے جنگ ہر مسلمان پہ فرض ہے اور دوسرے یہ کہ جو حکومت بھی کافروں کی تائید و حمایت سے قائم ہو یا اس کی محتاج ہو, وہ کٹھ پتلی ہے اور اس کے خلاف جہاد جائز- وہی سبق جو ہم نے پڑھایا تھا اب ہمارے گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے-

صرف عرب دنیا اور پاکستان نہیں, دنیا میں جہاں کہیں جسے لگا کہ کافروں سے جہاد واجب ہوچکا ہے, اس نے کندھے پہ بندوق رکھی یا سینے سینے سے بارود باندھا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑا- جہاں کسی نے محسوس کیا کہ اس کی ریاست اتنی مسلمان نہیں ہے جتنا وہ خود ہے, اس نے علمِ بغاوت بلند کیا اور شریعت نافذ کرنے پہ تل گیا- نائجیریا کی بوکوحرام ہو یا صومالیہ کی الشباب, پاکستان کی ٹی ٹی پی ہو یا عرب القائدہ, یا پھر داعش…سب کی فلاسفی کے تین بنیادی اصول ہیں- ایک یہ کہ کفار سے جہاد ہر مسلمان واجب ہے- دوم یہ کہ یہ جہاد ریاستی سرپرستی کے بغیر بھی کیا جاسکتا ہے اور سوم یہ کہ اگر کوئی مسلم ریاست کفار کے ساتھ کھڑی ہے یا ان سے جہاد کی راہ میں مزاحم ہے تو اس پہ بھی حملے جائز ہیں بلکہ لازم ہیں-  وہی تین اصول جو نام نہاد جہادِ افغانستان کیلئے تخلیق کئے گئے تھے- بدقسمتی سے ہم نے اب بھی سبق نہیں سیکھا-

امریکا سے سی ایس ایف کی مد میں بتیس ارب ڈالرز اور سویلین امداد کی مد میں گیارہ ارب ڈالرز یعنی گیارہ بارہ سال میں تینتالیس ارب ڈالرز ہم نے اپنے ستر ہزار شہریوں کی جانیں گنوا کر وصول کئے ہیں- یہ رقم ہمیں خرگوش کے شکار کیلئے دی گئی تھی, لیکن ابھی ہم صرف بھاگ دوڑ ہی دکھا رہے ہیں- خرگوش کو بھی ہم نے مایوس نہیں ہونے دیا, ہم اس کے ساتھ بھی بھاگ رہے ہیں- اپنے اس دوغلے پن کو ہم حکمت عملی سمجھ کر اس پہ فخر کرتے ہیں- ہمارا اب بھی یہی کہنا ہے کہ افغان طالبان کا کابل پہ ایک رائٹ فل کلیم ہے کیونکہ کبھی وہ حکمران رہے ہیں- ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایسی حکومت تھی جسے آخر میں دنیا کا صرف ایک ہی ملک تسلیم کرتا تھا..وہی ملک جس نے ان پہ بمباری کیلئے اپنی ائربیسز امریکا کو دے رکھی تھیں- ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس دلیل, جس فلسفے کی رو سے ہم افغان طالبان کے افغانستان میں حکومت اور سویلینز پہ حملوں کو جسٹیفائی کرتے ہیں, ہم پہ حملے کرنے کیلئے ہوبہو وہی دلیل اور فلسفہ ٹی ٹی پی کے پاس بھی موجود ہے- ہم بھول جاتے ہیں کہ پڑوسی کے آنگن میں آگ لگا کر آج تک کوئی خود اس کی تپش سے محفوظ نہیں رہ سکا-

آج عالم یہ ہے کہ نہ صرف امریکا, ہمارے سابقہ حلیف ممالک, افغان حکومت اور عوام بلکہ افغان طالبان تک ہم پہ بھروسہ کرنے کو تیار نہیں, ہماری دوغلی پالیسی سے ساری دنیا بھی اور ہمارے اپنے عوام بھی عاجز آ چکے ہیں مگر ہم خود کو بدلنے پہ تیار نہیں- اپنے بچپن یعنی اسی کے عشرے سے پاکستان کی تباہی و بربادی کی پیشنگوئیاں ہم سنتے چلے آ رہے, پاکستانی عوام نے ستر ہزار جانوں کی قربانی دے کر افغان جنگ اور اس سے وابستہ سیاست سے ریاستِ پاکستان کا وجود بچائےرکھا ہے- اب سی پیک اور اس سے وابستہ سیاست سے بچنے کو ہمیں کتنی لاشیں اٹھانا ہوں گی؟

ہمیں بطور ریاست یہ پختہ عزم کرنا ہوگا کہ ہم آج کے بعد کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے, اگر کہیں ہماری مرضی کی حکومت نہیں بھی ہے تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر اس پہ شاکر رہیں گے, کسی ہتھیار بند شخص یا تنظیم کو کسی ملک کے خلاف کاروائی کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے- فیصلہ سازی کا اختیار منتخب حکومت کو دیں گے اور اس کے ہر فیصلے پہ سرتسلیم خم کریں گے- ایسا ہم جتنا جلد کر گزریں اتنا ہی اچھا ہوگا- ورنہ ہم دنیا کو را اور این ڈی ایس کی مداخلت کے جتنے مرضی ڈوزئر پڑھواتے رہیں, دنیا ہمیں یہی جواب دے گی کہ

Advertisements
julia rana solicitors

اتنا نہ بڑھا پاکی ء داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ, ذرا بندِ قبا دیکھ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”ام الجہاد یا ام الفساد ۔ محمد اشفاق

  1. بھائی جی سپاہ محمد پہلے قائم ہوئی تھی اور ایرانی لٹریچر کی بھرمار ہوئی یہاں، اس کے توڑ کے لیے یا مخالفت میں پھر سپاہ صحابہ بنی۔

    1. بھائی جی، سپاہ صحابہ اسی کی دہائی کے وسط میں قائم ہو چکی تھی جبکہ سپاہ محمد نوے کی دہائی میں قائم ہوئی

    2. سر سپاہ محمد 1993 میں وجود میں آئی تھی انجمن سپاہ صحابہ 1986 میں…باقی آپ کی رائے قابل احترام کے

Leave a Reply to سجیل سرور Cancel reply