تہذیبوں میں مکالمہ نہ ہو تو ۔۔۔۔۔ ؟ ژاں سارتر

پاکستان، ہندوستان کے بہت سے لوگوں کے علاوہ دنیا کی آبادی کا کچھ حصہ بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے سینے پر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک، آج سے کم و بیش پانچ ہزار سال قبل پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہی ہے۔ اس تہذیب کو وادی سندھ کی تہذیب کا نام دیا گیا کیونکہ اس کے بڑے مراکز ہڑپہ اور موہنجوداڑو علی الترتیب دریائے راوی اور دریائے سندھ کے کنارے واقع تھے۔ چونکہ راوی ہمیشہ ہی سے دریائے سندھ کا معاون دریا رہا ہے، اس لیے اس تمدن کو، جس کے آثار موجودہ خیبر پختون خوا، پنجاب (مشرقی و مغربی)، سندھ اور بلوچستان کے بعض حصوں تک پھیلے ہوئے ہیں، وادی سندھ کی تہذیب قرار دیا گیا۔ اس تہذیب کے آثار سے پہلی واقفیت 1826ء میں ہوئی تاہم ان کی کھدائی اور دریافت کا کام 1920ء سے 1956ء کے دوران ہوا۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اسی تہذیب کا مزید بڑا مرکز چولستان میں بہاول پور کے قریب  گنویری والا کے مقام پر بھی دریافت ہوا تھا۔ اس شہر کے آثار رقبے میں ہڑپہ سے 40 ایکڑ بڑے اور موہنجوداڑو سے صرف پانچ ایکڑ کم رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ شہر چولستان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد تھا جسے دریائے بھارت میں دریائے گھگھر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہماچل پردیش میں کوہ شوالک سے نکلنے والا یہ دریا برسات، یعنی مون سون، کے زمانے میں فعال ہوتا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اسی دریا کا قدیم نام دریائے سرسوتی ہے اور ازمنہ قدیم یہ دریا پوری شان و شوکت کے ساتھ شوالک کی پہاڑیوں سے بہتے ہوئے چولستان اور اس سے آگے بھارتی علاقے کاٹھیاواڑ میں خلیج کچھ کے مقام پر بحیرہ عرب میں جاگرتا تھا۔ اسی دریا کے کنارے ایک بڑا شہر آباد تھا جس کے آثار گنویری والا کے علاقے میں ملےہیں۔ اس شہر کا فن تعمیر مکمل طور پر ہڑپہ اور موہنجو داڑو سے مشابہ ہے اور اسی بنیاد پر معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے اسے بھی وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق دریائے ہاکڑہ کے معاون دریائوں میں دریائے ستلج بھی شامل تھا اور اس کی بعض ذیلی شاخیں ہاکڑہ کو پانی فراہم کرتی تھیں تاہم راستہ بدلنے کے باعث دریائے ستلج، دریائے سندھ کے معاون دریائوں میں شامل ہوگیا اور پانی کی کمی کے باعث ہاکڑہ سکڑتا چلا گیا۔ دریائے ہاکڑہ کی وادی میں گنویری والا کے بڑے شہری مرکز کے علاوہ کم و بیش سوا چار سو بستیوں کا سراغ بھی لگایا گیا ہے۔ اس طرح اس تہذیب کو گریٹر انڈس سویلائزیشن یعنی وادی سندھ کی عظیم تر تہذیب سے موسوم کیا جاتا ہے کیونکہ اس رقبہ ساڑھے چار لاکھ سے پانچ لاکھ مربع میل تک وسیع ہے۔

اس طویل بیان کا  واحد مقصد، قارئین کو اس عظیم تہذیب کی وسعت اور شان و شوکت سے آگاہ کرنا ہے جو ہم سے پانچ ہزار قبل موجود تھی اور تقریباً ساڑھے تین ہزار سے  تین ہزار سال قبل ایسے زوال کا شکار ہوئی کہ آج اس کے آثار صرف کھنڈرات میں ملتے ہیں۔ماہرین آثار قدیمہ ہمیشہ ہی سے ان اسباب کو کھوج نکالنے میں دلچسپی لیتے آئے ہیں جن کے باعث دجلہ و فرات اور دریائے نیل کی ہم عصر اور ہم پلہ تہذیب بربادی کے گڑھے میں جا گری۔ وادی سندھ کی تہذیب کے زوال کے اسباب میں سب سے زیادہ مقبول اور آسانی سے ہضم کیا جانے والا نظریہ یہ ہے کہ اس تہذیب کو بیرونی حملہ آورو ں کا سامنا کرنا پڑا اور چونکہ مقامی لوگ جنگجو فطرت نہیں رکھتے تھے، اس لیے بآسانی مغلوب ہوگئے؛ چنانچہ ان کی تہذیب کا نام و نشان مٹ گیا۔ یہ نظریہ ایک طویل عرصے تک قائم رہا اور عام لوگوں کے ذہن میں بھی یہی خیال جاگزین ہے۔ تاہم جدید تحقیق نے اس نظریے کو باطل قرار دے دیا ہے۔ ان آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران شہروں کے کھنڈر اور ان سے برآمد ہونے والی اشیاء مختلف تہوں اور سطحوں میں برآمد ہوئی ہیں۔ بعض جگہوں پر تین اور بعض جگہوں پر پانچ سطحیں بھی برآمد ہوئی ہیں جن میں سے ہر سطح ایک الگ دور کی کہانی سناتی ہے۔ادوار کے لحاظ سے تقسیم کرتے ہوئے ماہرین آثار قدیمہ نے ان کے مختلف نام بھی رکھے ہیں جیسے قبل از ہڑپائی دور، ابتدائی ہڑپائی دور،عروج یافتہ ہڑپائی تہذیب، جھوکر دور،اور جھنگر دور وغیرہ۔ ان آثار پر کی گئی  جدیدتحقیق نے بیرونی حملوں کے امکان کو رد کرتے ہوئےاس تہذیب کی بربادی میں سب سے بڑا عنصر اندرونی چپقلش کو قرار دیا ہے جس کے باعث یہ تہذیب اپنے انجام کو پہنچی۔

اسی سلسلے میں بہاول پور کی اسلامیہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالجلیل بھٹی نے بیرونی حملوں کے تصور کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اسے اس خطے کا عام ذہنی رجحان قرار دیا ہے جس میں ہر تباہی کی ذمہ داری بیرونی عناصر پر ڈال دی جاتی ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کی آمد کا کوئی ایک ثبوت بھی موجود نہیں۔ البتہ ان آثار میں برآمد ہونے والے ہر شہر اور ہر بستی میں یہ ثبوت ملتا ہے کہ پہلے لوگ امیر، خوشحال، فنون و دستکاریوں کے ماہرتھے جبکہ بعد میں آنے والےغریب، کھردرے اور فنون و دستکاریوں میں پسماندہ تھے۔ہر بار نئے آنے والوں نے طرز رہائش و تعمیر کے جو آثار چھوڑے ہیں، وہ ان ترقی یافتہ شہروں کی ہم عصر چھوٹی بستیوں سے مماثل ہیں۔ ان سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حملہ آور بیرونی نہیں بلکہ اسی تہذیب کے وہ پسماندہ اور غریب لوگ تھےجو ایک عرصے تک استحصال کا شکار رہے۔ ان آثار پر تحقیق کرنے والے اندرونی انقلاب اور سماج کی اندرونی حرکیات پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اگر تبدیلی کی اس نوعیت پر غور کیا جائے تو یہ شہری دیہاتی کشمکش، زراعت پیشہ اور گلہ بانوں کاٹکرائو اور اگر مزید صراحت سے کام لیا جائے تو امیر اور غریب، حاکم اور محکوم یا ظالم اور مظلوم کی جنگ نظر آتی ہے جو طویل عرصے تک ایک ہی تہذیب کے دو گروہوں کے مابین مکالمہ نہ ہونے کا شاخسانہ ہے۔ مکالمے کی عدم موجودی نے اس تشدد  اور خانہ جنگی کو ہوا دی جس کا شکار ہوکر یہ تہذیب اپنے افسوسناک انجام سے دوچار ہوئی۔

اگر اس تاریخی تناظر میں آج کی دنیا  خصوصاً اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی کہ فی زمانہ ہماری تہذیب کے اندر اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی کمی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک ہی تہذیب کے اندر رہنے والے گروہ ایک دوسرے سے اسی قدر فاصلے پر ہیں جس قدر دو مختلف تہذیبیں۔ دونوں ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھے بغیراپنے نظریات کی صداقت پر مکمل یقین رکھتے ہوئے انہیں دوسروں پر پوری شدت کے ساتھ نافذ کرنے پر ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔ حالانکہ یہ تاریخی حقیقت سب کی نظروں کے سامنے ہے کہ مسائل کا حل مکالمے اور وہ بھی صرف تعمیری مکالمے میں ہے، نہ کہ بزور قوت دوسرے پر فتح پانےمیں۔ طاقت کے بل  پرمخالف کو ختم تو کیا جاسکتاہےلیکن یہ اختتام صرف اسی گروہ تک محدود نہیں رہتا،بلکہ یہ وہ بومرینگ ہے جو پلٹ کر وار کرتے ہوئے پوری تہذیب کا خاتمہ کر دیتا ہے جیسا کہ اس نے وادی سندھ کی تہذیب کے ساتھ کیا تھا۔

حوالہ جات:

Greater Indus Civilization by Dr. Rafiq Mughal

قدیم تہذیبیں سندھ اور گندھارا ۔۔۔۔ از پروفیسر عبدالجلیل بھٹی

Advertisements
julia rana solicitors london

ژاں سارتر کے قلمی نام سے لکھنے والے رانا اظہر کمال لاہور میں مقیم اور بائیس برس سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آپ نے وہ سب کچھ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جو ژاں پال سارتر خود اپنی زندگی میں نامکمل چھوڑ گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 7 تبصرے برائے تحریر ”تہذیبوں میں مکالمہ نہ ہو تو ۔۔۔۔۔ ؟ ژاں سارتر

  1. بہت عمدہ مضمون ہے۔
    میری ناقص یادداشت و معلومات کے مطابق دریائے گھاگھر نہی بلکہ دریائے گھاگھرا ہے۔

  2. گویا اگر ایک بھوکا ننگا سو ایکڑ کے مالک کے پاس جا کر یہ کہے کہ اپنی آدھی زمین میرے نام کر دو.. اس سے کچھ کم پر میں راضی نہیں تو وہ جاگیردار آرام سے پلیٹ میں رکھ کر دے دے گا؟
    کیا منطقی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اس تحریر میں سبحان اللہ

    1. محترم یہ نتیجہ مصنف نے نہیں نکالا ۔۔۔۔۔ ماہرین آثار قدیمہ نے نکالا ہے ۔۔۔۔ آپ ان سے بحث کر سکتے ہیں ۔ ژاں سارتر

Leave a Reply to Mujahid Hussain Cancel reply