نوٹ: خواتین پڑھیں مگر آج بچے اور بچیاں نہ پڑھیں۔
ہماری تائی اماں، جو کہ نہایت ہی منہ پھٹ ہے۔ اس کا ایک بیٹا روزانہ جم جاکر ڈولے بناتا تھا اور اپنے سینے کو نکال کر بڑے فخریہ انداز سے چلتا تھا کہ او خلق خدا دیکھ لو میرے سینے۔ گھر کا کوئی کام کرنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ ایک دن سینہ چوڑا کیے تائی امی کے سامنے کھڑا ہوا۔اور اپنے دونوں سینے نکالتے ہوئے کہا کہ اماں دیکھ روز گھنٹوں جم جاکر باڈی بناتا ہوں۔ بڑی محنت کرتا ہوں۔ ایسی باڈی نہیں بنتی۔
تائی اماں جو بیٹے کی حرکتوں سے نالاں تھیں۔ اپنا سینہ نکال کر کہا کہ جتنی بھی محنت کرلو ماں کو ہارا کر دکھا دو۔
بیوی نما خاتون اور دوست نما دشمن روز روز طعنے دینے لگے تو اُنھیں بتایا کہ میں بڑا غیرت مند بندہ ہوں۔بس میرے اندر غیرت جگاتے رہا کریں۔ اگر جاگ گئی،تو آئس کا نشہ کرکے میری غیرت 72 گھنٹوں کے لئے جاگتی رہےگی۔
بالآخر 72 گھنٹے بیگم قریہ قریہ لے کر گھومتی رہیں کہ اس والے جِم میں یہ سہُولیات ہیں اور اُس والے میں وہ۔مُجھے خود بھی “وہ” والی سہُولیات چاہیے تھیں۔سو گھومتے گھومتے ایک جِم پسند آگیا۔کراچی کارساز میں واقع Arena Club۔ ایک تو ٹریڈ مل مشینیں بہت زیادہ تھیں۔ دوسرا صاف سھترا بہت تھا ۔اور تیسری سب سے اہم خوبی اس جِم کی جو تھی وہ 140 کلو وزن کی حامل خواتین کا ساتھ دوڑنا،مطلب ایکسرسائز کرنا تھا۔ تنگ ٹائٹس پہن کر جب وہ بھاگنے والی مشین پر دوڑتیں تو اعضاء کی ایسی شاعری سے افسوس مرزا غالب مرحوم محروم ہی رہے اور اکبر الہ آبادی کو فقط ایک خاتون کے کوٹ نکٹائی اور نل کی ٹوٹنی میں اسلام ڈوبتا نظر آیا۔ ورنہ اس جِم کی خواتین دیکھ کر اکبر بھی مرنے سے انکار کردیتا اور دوڑ لگانے پر مُصر ہوجاتا اور غالب کا دیوان غالب کُرک شاسترکی مصوری کا جیتا جاگتا ثبوت ہوتا۔
خیر اسی وقت جیب پہ لات مار کر رجسٹریشن بھی کردی اور اسی وقت ایکسرسائز بھی شروع کردی۔
پچاس ہزار میں تین ماہ کے لئے ایسے دلکش اور ہوشربا نظارے کچھ برا سودا بھی نہیں تھا ورنہ فیس بک پر پاپا کی پرنس اور صائمہ گجر کے روپ میں چھپے قاری محمد زبیر نے ہمارے ہزاروں لوٹے ہیں۔
ایک گوری چٹی خاتون سائیکلنگ کررہی تھی۔ اِدھر ہر پیڈل پر اس کے اخلاق و کردار اُوپر نیچے ہوجاتے،اُدھر ہمارا دل ہچکولے کھا کھا کر ہمارا ایمان اُوپر نیچے کردیتا۔ میں نے کتنی ہی خواتین کو سمائیلی دی جواباً دل لُوٹنے والی مُسکراہٹیں سمیٹی بھی۔پہلی بار مُجھے اپنے پیٹ پر پیار آنے لگا کہ اگر یہ نہ ہوتا تو ایسے نظاروں سے محروم رہنا پڑتا۔ورنہ دورانِ طالب علمی مسرت شاہین کے “بیک پوز” یا کولہے مٹکاتے ٹھمکوں پر ہم نے والدین سے تعلیم کے نام پر بٹورےحلال پیسے بنوں کے سینماؤں میں حرام کردیئے تھے۔ جن میں ماں کا سدا بہار ڈائیلاگ “پڑھا نہیں تو دودھ نہیں بخشوں گی” والی التجا نُما دھمکیاں بھی شامل تھیں۔
ایک محترمہ سامنے والی قطار میں سائیکل چلا رہی تھی۔ بیچاری اس لئے پسینے پیسنے ہورہی تھی کہ اپنے کولہے کم کرکے اپنے شوہر اور معاشرے کو خوش کر سکے۔ میں نے اس کے شوہر اور معاشرے دونوں پر ایک ساتھ لعنت بھیج دی ۔جو خوبصورتی صرف ہڈیوں میں ڈھونڈتے ہیں ۔ورنہ اپنے دادا ابو کا تو یہ زرین قول تھا کہ “مرد گوشت پسند کرتے ہیں اور کتے ہڈیاں بھنبھوڑتے ہیں” لہٰذا ساری زندگی دادا جان کا یہ قول گرہ سے باندھ کر کتوں کے بیچ خود کو آج تک مرد ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

سائیکل کے پیڈل مارتے مارتے کب ہماری سانس پُھولی،پتہ ہی نہیں چلا۔ لہٰذا بند آنکھوں،کُھلے مُنہ کےساتھ ابھی غسل کے فرائض پر سوچ ہی رہے تھے کہ پیچھے سے بیگم حضور نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کرکے اوقات یاد دلا دی۔تو ہم ہوش میں آگئے اور اُنھیں بتایا کہ بیگم شرم کریں،سامنے والی بہن سے ہی کچھ سبق حاصل کرلیں۔وہ اپنی صحت کا کتنا خیال رکھتی ہے۔
بیگم تھنتھناتی،سوری تلملاتی ہوئی اُٹھیں اور ہمیں گھسیٹے ہوئے ارینا سے باہر نکال پھینکا کہ ہم نے پیٹ سے جان چُھڑانی ہے،آپ سے نہیں۔
خیر پچاس ہزار ڈوبنے تھے سو ڈوب گئے۔ اسی شام بیگم نے جامعہ بنوریہ سائیٹ میں سرٹیفائیڈ مولویوں کے جِم میں داخلہ دلوا دیا۔ جہاں پانچ وقت باجماعت اور باشرع ایکسرسائز کی جاتی ہے۔ جہاں مولویوں کی گھنی داڑھیوں میں ہماری ننگی ٹانگیں کتنےہی مولویوں کی نگاہِ شہوت کا نشانہ بنتی ہیں۔ اور تو اور نہ سائیکل چلانے میں مزہ آتا ہے نا ہی ٹریڈ مل پر دوڑنے کا من کررہا ہے۔ کیوں کہ جب میں سائیکلنگ کررہا ہوتا ہو ں تو پانچ چھ مولوی آکر پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور مشورے دینے لگتے ہیں کہ پیڈل یوں نہیں بلکہ یوں مارتے ہیں۔اورایسے مشورے دے کر پھر نگاہوں سے ہماری مارتے ہیں۔ سائیکلنگ کے بعد الف ننگا سوانا باتھ جو 60 سینٹی گریڈ سے اُوپر ہوتا ہے،کے لئے دس منٹ بٹھا دیتے ہیں۔ اتنی گرمی میں بیٹھ کر فقط یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اللہ بچائے جہنمیوں کی بھی ایسی ہی زندگی ہوگی شاید ۔ مفتی نعیم صاحب صحیح معنوں میں جہنم کے نظارے کروا رہے ہیں اللہ ان کو مزید استقامت دے۔ آمین
خیر جو بھی ہے اب تو ننگا آگ میں جلنا پڑیگا۔ میلوں سرپٹ بھاگنا پڑیگا۔ گھنٹوں کچھ کئے بغیر نہانا بھی پڑیگا۔ ٹانگیں پھیلانی پڑیں گی اور ٹانگیں اٹھانی بھی پڑیں گی۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ روز اول سے محبت قربانی مانگتی ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے “سائز” کا سوال ہے۔اور اس “سائز” کیلئے ہم اپنا پیٹ بھی قربان کرسکتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں