• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افراد اور اداروں کے جرائم کی سزا پاکستان کو کیوں؟ حیدر جاوید سید

افراد اور اداروں کے جرائم کی سزا پاکستان کو کیوں؟ حیدر جاوید سید

 آگے بڑھنے سے قبل دو باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا ازبس ضروری ہیں۔ اولاََ یہ کہ میں 1437 سال سے مسلمان ہوں۔ 730 سال سے سرائیکی اور 69 سال سے پاکستانی ہوں (730 سال قبل میرے جدِ امجد حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللہ علیہ عراق سے بخارا اور پھر بخارا سے اوچ شریف میں آن آباد ہوئے۔ آپ کی خانقاہ عالیہ اوچ شریف ضلع بہاولپور میں ہے۔ سیدی سرخ پوش بخاری برصغیر پاک وہند میں آباد نقوی اور بخاری سادات کہلانے والوں کے جدامجد ہیں) ۔ مذہب چونکہ میرا ذاتی معاملہ ہے، اس لئے مذہبی و عقیدے کی شناخت کے مقابلہ میں مجھے اپنی قومیتی شناخت یعنی سرائیکی ہونے پر فخر ہے۔ دوسرے علاقوں کی طرح سرائیکی وسیب بھی تقسیم برصغیر کے نتیجہ میں پاکستان کا حصہ بنا۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت مقامی قومیتوں، بنگالی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، پشتون اور بلوچوں کی فیڈریشن بنا۔ 1971 کے المناک سانحہ میں بنگالی قوم پاکستان سے الگ ہوئی اور 16 دسمبر 1971 کے بعد سے پاکستان پانچ مقامی قومیتوں کی فیڈریشن کے طور پر موجود ہے۔ ثانیاََ یہ کہ ایک سرائیکی کے طور پر مجھے پاکستانی فیڈریشن سے یہ شکوہ رہا اور ہے کہ ایک کثیر القومی فیڈریشن پر یک قومی نظریہ کی تلوار چلا کر مقامی قومی شناختوں سے انکار کی پالیسی پر پہلا حملہ حکومت کی سرپرستی میں 1949 میں ملاؤں کے ایک اجتماع میں منظور کروائی گئی قراردادِ مقاصد کے ذریعے کیا گیا۔یہ قراردادِ مقاصد اصل میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کے ایما پر منظورہوئی۔ اسے منظور کروانے کی دو وجوہات تھیں۔ اولاََ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں 11 اگست 1947 کو کی گئی تقریر جس میں انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’’آج سے اپنی مذہبی، مسلکی، علاقائی شناختوں سمیت آپ پاکستان کے شہری ہیں۔ ریاست آپ کے رنگ ونسل، مذہب و عقیدے کی بنا پر امتیازی سلوک نہیں کرے گی بلکہ اس امر کو یقینی بنائے گی کہ آپ سب کو مساوی حقوق فراہم کرے‘‘۔ ثانیاََ بٹوارے کے مہاجرین کی دلجوئی جو ایک نئی جگہ آباد ہوئے تھے۔ ثالثاََ یہ بھی تھا کہ مذہب کے تڑکے سے نئی قوم کی قوم کی تشکیل کر کے ریاست کی غیر مساویانہ پالیسیوں کو اسلامی نظریات کی چھتری فراہم کی جائے۔ پچھلے 67سالوں سے (قرار دادِ مقاصد منظور ہونے کے وقت سے) اپنی قدیم قومیتی شناختوں کو فیڈریشن کے اندر رہ کر مقدم سمجھنے والے قوم پرستوں کو وفاق سے بہت شکایات رہیں او راب بھی ہیں۔ مثلاََ سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ پاکستان میں 1971ء سے قبل جس طرح عدم توازن تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔ وفاق کے وسائل اوروفاقی اداروں (ان میں منتخب ادارے بھی شامل ہیں) میں قوموں کو مساوی نمائندگی حاصل نہیں۔ 1971 سے قبل باوجود اس کے کہ بنگالی عددی اعتبار سے زیادہ تھے مگر وفاق کے وسائل اور اداروں میں نمائندگی کے ان کے حق کو ون یونٹ سے روندا گیا۔ آج کے پاکستان میں گو کہنے کو چار صوبے موجود ہیں مگر غیر اعلانیہ طور پر ون یونٹ والی پالیسی کارفرما ہے۔ ان پالیسیوں پر مختلف قومیتوں کو اعتراض بھی ہے اور شکایات بھی۔ مثلاََ ہم سرائیکیوں کی شکایت یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں ہماری اکثریت کے باوجود صوبائی وسائل اور اداروں میں ہماری نمائندگی وسطی و بالائی پنجاب کے مساوی نہیں۔ اور جو وسائل مرکز سے ملتے ہیں ان کی تقسیم میں بھی خاص نسلی و لسانی گروہ کو تقدم حاصل ہے۔ آسان لفظوں میں اگر اس کی وضاحت کی جائے تو یہ کہ فقط سرائیکی سراپا احتجاج نہیں دیگر قومیتوں کو بھی شکایات ہیں اور خود پنچاب کے اندرونی حصوں میں بھی زم زم کی نہریں نہیں بہہ رہی۔سارے وسائل مخصوص علاقے میں برباد ہو رہے ہیں تاکہ شاہی خاندان کی جے جے کار ہو۔ پاکستانی ریاست سے جو آئینی طور پر چار صوبوں اور تاریخی طور پر پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے، ایک شکایت یہ بھی ہے کہ ریاست نے پچھلے چالیس برسوں میں کچھ ایسے تجربات، فیصلے اور اقدامات کیے جو کسی خاص ادارے اور قومیت کے بالادستوں کے مفاد میں تو ہوسکتے ہیں لیکن خمیازہ اجتماعی طور پر سب کو بھگتنا پڑا۔ مثال کے طور پر افغانستان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ میں پاکستان کو کرائے کا سپاہی بنانے کا فیصلہ شخصی یا یوں کہیں کہ فوجی اقتدار کے تاجدار جنرل ضیاء الحق کا ذاتی فیصلہ تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش امریکی سفارت خانے میں تیار ہوئی۔ بھٹو مخالف قومی اتحاد اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا اس سازش کے مہرے تھے۔ یہ فوجی آمر جنرل ضیاء ہی تھے جنہوں نے پاکستان میں پہلے فرقہ وارانہ نفرتوں کے بیج بوئے اور پھر کراچی کے جمہوری شعور اور بالغ نظری پر مہاجر ازم کی تلوار چلاتے ہوئے مہاجر قومی موومنٹ بنوائی جو اب متحدہ قومی موومنٹ کہلاتی ہے۔ قبل ازیں عرض کرچکا کہ پاکستانی ریاست کے بالادست اداروں نے پچھلے 40 سالوں کے دوران محض اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لئے ایسے فیصلے اور تجربے کیے جن کا فائدہ مخصوص لوگوں اور گروہوں کو ہوا۔ مگر خمیازہ سب کو بھگتنا پڑا۔مثلاََ جنرل ضیاء الحق کے پیدا کردہ فرقہ وارانہ اختلافات نے آگے چل کر جس تشدد اور دہشت گردی کا روپ دھارا اس نے 1986اور 1987 (یہ وہ وقت ہے جب افغان مہاجرین اور ان کے پاکستانی ہمنواؤں نے گلگت بلتستان پر لشکرکشی کی تھی)سے اب تک دہشت گردی کی مختلف اقسام میں ایک لاکھ پاکستانیوں کو نگل لیا۔ اسی طرح کراچی میں نسلی شاؤنزم کی بنیاد پر ایک مہاجر فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی بنوائی ایم کیو ایم کی پرتشدد سیاست 30سے 35 ہزار انسانوں کو کھا گئی۔ ریاست کی پالیسیوں نے ہی پاکستان میں داخلی مسائل کی بھرمارکی تو علاقائی و عالمی سطح پر پاکستان کا چہرہ مسخ کیا۔ ان عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہی ہے کہ جہاں ایک طرف پاکستان کے اندر ریاست اور لوگوں کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے تو وہیں علاقائی طور پر پاکستان کے چاروں پڑوسی ممالک کو اس سے ڈھیروں شکایات ہیں۔ بدقسمتی سے ریاست کے بالادست اداروں کے منہ زوروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور وہ اپنی پالیسیوں پر عمل کو ہی استحکام کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ عدم مساوات، خاص طبقوں کی بالادستی، قدیم قومیتوں کے حقِ شناخت سے انکار، وسائل کی لوٹ مار جس میں سیاست دانوں اور سول و ملٹری بیوروکریسی برابر کے حصے دار ہیں (بلکہ دیانت سے دیکھا جائے تو لوٹ مار میں سول و ملٹری بیوروکریسی کا حصہ زیادہ ہے) جیسے ان مسائل اور عذابوں سے نجات کا راستہ کیا ہے۔ کیا فیڈریشن کے وجود سے انکار کر دیا جائے؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔ انکار کی بجائے اصلاحِ احوال کے لئے پرعزم جدوجہد ہماری آئندہ نسلوں کو ایک ایسا محفوظ مستقبل عطاکرسکتی ہے جس میں وہ ایک فلاحی جمہوری ریاست اور عادلانہ نظام کے قیام کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ پاکستانی فیڈریشن کی پانچوں قدیم قومیتوں کے باشعور لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوں۔ وفاق پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر بسنے والی انڈیس ویلی کی قدیم پانچوں قومیتوں پشتون، پنچابی، بلوچی، سندھی اور سرائیکی قوم کے اہلِ فکر و دانش سیاسی کارکنوں کو سمجھنا ہو گا کہ انکار کی بجائے اصلاح احوال زیادہ سود مند ہے۔ شکایات اور تنقید جمہوریت کا حسن اور سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہیں۔ پاکستان پانچ قوموں کی قدیم جغرافیائی حدود پر مشتمل ہے اور یہی ہماری عالمی پہچان بھی۔ ریاستی اداروں کے منہ زور افراد یا سیاست دانوں کے ایک حصے کے جرائم کی سزا پاکستان کو نہیں دی جاسکتی۔ اختلاف رائے یا شکایات کفر ہیں نہ غداری۔ البتہ ناراض لوگوں کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے گروپ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے خوابوں کی تعبیر وہ اپنی قومیت کے لئے الگ ملک بنا کر حاصل کر سکتے ہیں، انہیں یہ سمجھنا ہو گاکہ بالادست علاقائی و عالمی قوتیں ان کے وسائل ہتھیانے کے لئے سازشوں کا جال بچھائے ہوئے ہیں۔ اداروں سے شکایات اور پالیسیوں سے ناراضگی کا غصہ پاکستان پر نکالنے کی بجائے ہم سب کو متحد ہو کر پاکستان اور اس میں بسنے والے مظلوم طبقات کے اصل دشمنوں سے نجات کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ پاکستان اس میں آباد پانچ قومیتوں کے بائیس کروڑ لوگوں کی فیڈریشن ہے۔ اس فیڈریشن کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اصل دشمنوں کو پہچانا جائے اور ان سے نجات کے لئے جدوجہد کی جائے۔ تاکہ ہماری آئندہ نسلیں آزادی، عزت و وقار کے ساتھ ان خوابوں کی تعبیر حاصل کرسکیں جو تعبیروں سے قبل چوری کر لئے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حیدر جاوید سید، آمریت کے خلاف جدوجہد کا ایک ایسا روشن نام ہیں جس نے تمام تر جبر کے باوجود ظلمت کو ضیا کہنے سے انکار کیا۔ آپکی جدوجہد نئی نسل کیلیے مشکل حالات میں رہنما ہے۔ آپ چونتیس کتابوں کے مصنف اور روزنامہ خبریں ملتان اور دستک کراچی سے وابستہ کالم نگار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”افراد اور اداروں کے جرائم کی سزا پاکستان کو کیوں؟ حیدر جاوید سید

Leave a Reply to Faraz Zaidi Cancel reply