جمال سخن۔۔۔۔ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری/بُک ریویو

”جمال سخن ”ایک عارف سخن کا شعری مجموعہ ہے جس میں بکھرے ہوئے خیالات وافکار کوبحور واوزان کی لڑی میں بڑی ہنر مندی اور سلیقہ مندی سے پرو دیا گیا ہے ۔کتاب کی صفحہ گردانی نے اس خیال کو تقویت دی ہے کہ شعر وادب وقت کی بندگی کا نام نہیں ہے ، البتہ مرور ایام ، لیل ونہار کی گردشوں کا عکس شاعرانہ تخیل اور ادیبانہ تجمل میں ضرور جھلملاتا ہے ۔دراصل شعر وشاعری ضمیر کی آواز کا وہ حسین نغمہ ہے جو واقعات و خیالات ، فوا ئد وجمالیات، طبع اخاذ کی ہمسیات کو اظہار وبیان کے پیرایہ میں دوسروں تک منتقل کرتا ہے ۔ہمارا سماج اور معاشرہ شاعر کی تجربہ گاہ ہے ۔ زبان کی لطافت ، اسلوب کی جاذبیت ،بیان کی رعنائی، تعبیر کی دل کشی، بندش کی پختگی اور کلام میں تفنن اس کا مرکزی محور ہیں۔یہ انسانی ذوق کی پاکیزگی اور ظرافت کا آئینہ دار ، طبیعت کی روانی کی علامت اور جمالیاتی احساسات کے اظہار کا مؤثرذریعہ ہےجو اثر وتاثیر،جذب وکشش کی ایسی بے پناہ صلاحتیں رکھتا ہے کہ احساس وشعور کی ساری قوتیں اس کے حسن ادا سے مسحو رہو کر دم بخود رہ جاتی ہیں ۔ شعر وشاعری کا یہ فن اپنے مزاج کی وسعت وہمہ گیری کے سبب کسی قوم ، قبیلے ، مذہب، علاقے، ملک اور زبان کے ساتھ مخصوص نہ رہا ،بلکہ اس کی سحر انگیزی اور سحر طرازی نے روئے زمین کی ساری قوموں،ملکوں اور زبانوں کو اپنا اسیر بنا لیا ہے۔
یہ شعری مجموعہ اشعار کی متعدد اصناف پر نیچرل اور فطری انداز میں گفتگو کرتا ہے ۔ایسا خیال آتا ہے کہ فکرِ شعری کا مرکزی محور تو غزل ہے اور شاعری کی مٹی میں عین شین قاف کے خوشنما پھول ہی اگتے ہیں، مگرایسا کچھ نہیں ہے۔ مجموعہ کےآغاز میں شمع توحید کی روشنی ،عقیدے کی پختگی،اسلامی جذبات اور مذہبی خیالات کو پیش کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے ۔غزلوں میں تشبیب وتغزل کے ساتھ عصری مسائل اور قومی وملی درد وکرب کا اظہار کیا ہے ۔ الفاظ میں سادگی اورارتجال وبرجستگی نے پختہ شعوری کا درک فراہم کیا ہے۔خیالات وافکار کو متعلقات کے ساتھ شعری پیرہن دینے میں اپنی خوش ذوقی اور زبان وبیان پر قدرت ومہارت کا ثبوت دیا ہے۔اسی لیے اشعار میں پختگی اور خود اعتمادی ہے۔افکارو خیالات کی رعنائیاں،الفاظ واستعارات کی شادابیاں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔اسلوب سخن پر مکمل دسترس اور بہترین دست گاہ ہے ۔ان کے علاوہ طنز وتنقید سے بھی کلام کو مزین کیا گیا ہے۔فرقہ پرستی ، دہشت گردی،وحشت وعداوت اورنفرت ونفورکو ترک کرکے اخلاص ومحبت،اتحادویک جہتی،امن وآشتی اور عدل وانصاف کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو روشن کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔یہ مجموعہ شاعری کی قدیم وجدید دونوں طریقوں کو اپنے اندر سموئےہوئے ہے۔آیئےاس مجموعہ کے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
مجھ کو رکھنا تھا زمانہ میں محبت کا بھرم
خارپھولوں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں
زندگی خواب تھی اس واسطے مر مر کے جیا
مٹے گی زمانے سے فرقہ پرستی
ایک مدت سے ہے تاریک میرا خانہ دل
ایسے تم چشم حقارت سے نہ دیکھو ہم کو
کرکے وعدہ مَیں کوئی تجھ سے مکرتا کیسے
غم نہ ہوتے تو میرا عشق نکھرتا کیسے
موت برحق تھی تو پھر موت سے ڈرتا کیسے
جوہم متحد پھر سے یک بار ہوں گے
بن کے آ جاؤ کسی روز اجالوں کی طرح
ہم نے چاہا ہےتمہیں چاہنے والوں کی طرح

شاعر سماج اور معاشرہ کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔اس حوالہ سےعارف اعظمی نے آج کے ماحول پر بڑے لطیف انداز میں گفتگو کی ہے اورگنگ وجمن کی اس تہذیب کے فقدان پر ماتم کناں ہیں جو سرزمین ہند کی مٹی میں رچی بسی تھی اور جس میں انسانیت اور بھائی چارگی کے خوشنما پھول اگتے تھے۔
مسلک انسانیت کا جن پہ تھا دار و مدار
کیسی وحشت چھا گئی فرقہ پرستی کے سبب
ہر گھڑی ہم پہ جفاؤں کی جو بوجھار گرے
جس حکومت میں کوئی عدل کا معیار نہ ہو
سوچتا ہوں دور حاضر میں وہ رشتے کیا ہوئے
کھیلنے والے میرے آنگن کے بچے کیا ہوئے
ایسی سرکار پہ لازم ہے کہ تلوار گرے
کیوں نہ چاہیں گے سبھی جلد وہ سرکار گرے

یہ مجموعہ جناب عارف اعظمی صاحب کی ذہنی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ عارف صاحب خوش دل اور مرنجا مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ خوش اخلاق اور ملنسار ہیں۔اخلاص اور محبت سے ملتے ہیں۔شاعرانہ مزاج، ادبی شعور کی بالیدگی ، فنی باریکیوں کی آگہی کی دولت سے مالا مال ہیں۔اثر آفرینی اور دل آویزی ان کے کلام کا خاصہ ہے۔سلاست وروانی، استعارہ و کنایہ اورمحاوروں کا استعمال ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔جو بات کرتے ہیں وہ صاف اور واضح ہوا کرتی ہے ۔ابہام کی پیچیدگی کو در نہیں آنے دیتے۔جو کچھ لکھتے ہیں وہ ان کی ذاتی سوچ اور فکر ہوا کرتی ہے ۔درس وتدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کی فکر ارتقائی ہے ۔ کچھ نیا کرنے کی تلاش اور جستجو کے لیےافکار کی وادیوں میں گم رہتے ہیں۔
موضع لوہیا ،علم وادب کی معروف بستی مبارک پور کا ایک گاؤں ہے۔یہی آپ کا مرزبوم بھی ہے۔فیض قدرت نے مبارک پور اور اس کے اطراف کی مٹی کو بڑی زرخیز بنائی ہے۔اسی مٹی کی سنہری یادوں کوعروس البلاد ممبئی میں بکھیرنے کے لیےاپنے سکون وراحت کو تج دیا۔اس شہر نگاراں میں نیر تاباں کے مانند درخشاں ہیں اور یہاں کی ادبی فضاؤں کو اپنے کلام کی خوشبو سے معطر کرتےرہتے ہیں۔
عارف اعظمی صاحب کا خاندانی پس منظر اسلامی اور دینی اقدار کا حامل رہا ہے ۔والد گرامی حافظ قرآن تھے۔بڑے بھائی جناب فاروق اعظمی علم اودب کی دنیا میں ایک منفردمقام رکھتے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔اس عالم رنگ وبو میں جب سے میں نے آنکھیں کھولی ہیں ، ان کے نام سےآشنا ہوں اور اپنے گھر کی چہار دیواریوں میں ان کے نام کی گونج سنتا رہتا ہوں۔
شعری مجموعہ”جمال سخن” خوب صورت اور دیدہ زیب زیور طباعت سے مزین ہو کرادب شناس اور علم نواز افرادکے روبرو ہے۔ اردو ادب کے گلستاں کو سنوارنے میں اس کی افادیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔مجھے امید ہے کہ اہل ذوق حضرات کی پذیرائی ان کو حوصلہ دے گی اور اردو ادب کے سمندر میں غواصی سے نئے مجموعہ کو منظر عام پر لانے کے لیے معاون ہو گی۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی اور ناصر ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری
بنارس،ہندوستان

کتاب کا سر ورق

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد اسلم مبارکپوری
ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری نام: محمد اسلم بن محمد انور بن (مولانا) عبد الصمد مبارک پوری قلمی نام: ڈاکٹر محمد اسلم مبارک پوری پیدائش: جنوری 1973ء مقام: موضع اودے بھان پور , حسین آباد, مبارک پور, یوپی تعلیم: فضیلت: مدرسہ عربیہ دار التعلیم ، صوفی پورہ، مبارک پور بی اے: جامعہ اسلامیہ ، مدینہ منورہ ایم اے، پی ایچ ڈی: لکھنو یونیورسٹی تخصص: عربی ادب و فقہ اسلامی مشغلہ: استاد جامعہ سلفیہ بنارس مدیر ماہنامہ محدث بنارس تصنیف و تالیف و ترجمہ صحافت و مضمون نویسی دعوت و تبلیغ معروف قلمی خدمات(مقالات و کتب): 15 سے زائد تراجم و تصانیف و تحقیقات سیکڑوں مضامین و مقالات محدث کی ادارت رہائش: دار الضیافہ، جامعہ سلفیہ بنارس ، ہندوستان رابطہ: +918009165813 +919453586292

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply