مدارس کے طلبا کے نام۔۔۔ڈاکٹر طفیل ہاشمی

وفاق المدارس سے ہزار ہا طلبہ فارغ ہو چکے ہیں۔رمضان کے بعد مدارس کے دروازے ان پر بند ہونگے،والدین اس خیال میں ہونگے کہ اب یہ اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں اب یہ خود کمانا شروع کریں گے،اپنی اور کنبے کی ذمہ داری اٹھائیں گے بلکہ اپنی شادی کے لیے بھی وسائل مہیا کریں گے جبکہوہ تو تینوں وقت بے مزہ کھانے کے عادی رہے ہیں۔
اب حکومت نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ مزید رضاکار نہیں بھرتی کرے گی،مساجد اتنی بن چکی ہیں کہ ان کے لئیے بھی نمازی میسر نہیں
مدارس کھولنے کی جگہ ہی نہیں بچی۔وعظ لوگ سننے کے لیے تیار نہیں۔سن لیں تو اس کی اجرت نہیں دیتے۔رمضان کے مہینے میں سوچئے کہ آپ کیا کام کر سکتے ہیںوہی شروع کر دیں۔۔۔

جن مدارس سے آپ فارغ ہوئے ہیں،ان کے بارے میں کبھی جب آپ بھوکے پیٹ ہوں تو یہ گستاخانہ خیال سوچنے میں کوئی حرج نہیں کہ ان کے بانیوں نے اپنی آخرت ہی نہیں اپنی اور اپنی اولاد کی دنیا اور آخرت دونوں کی خوش حالی کو پیش نظر رکھا تھا۔
جو چیز نظر انداز کر دی گئی،وہ آپ کی دنیا ہے۔۔۔اور یاد رکھیے،جب دنیا کسی فرد سے روٹھ جائے تو سب سے پہلے جو چیز داغ مفارقت دیتی ہے وہ اللہ پر ایمان ہے کہ,بندہ یہ سوچتا ہے کہ اگر
وہ ہے اور رب ہے تو میرا پیٹ اور میری جیب خالی کیوں ہے؟
کائنات کی سب سے بڑی شخصیت نے اسی کو کہا تھا
کاد الفقر ان یکون کفرا
اور پہلے پہل جنہیں دعوت دی انہیں بتا دیا گیا کہ
آخرت ہی نہیں دنیا اپنے اقتدار اور تمام دلفریبیوں کے ساتھ تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائے گی۔

بظاہر مجھے خود یا بچوں کو ایسے مسائل کا سامنا نہیں رہا اس لیے میں بہت عمدگی سے کونسلنگ نہیں کر سکوں گا لیکن اس خیال سے چند آئیڈیاز شئیر کرنا چاہتا ہوں کہ شاید ان میں سے کوئی بات مفید ہو یا احباب میں سے زیادہ تجربہ کار دوست زیادہ بہتر مشورے دے سکیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے آپ کے رزق کا تعلق محض قسمت سے نہیں بلکہ آپ کی محنت اور اس پیشے سے ہے جو آپ اختیار کریں گے۔ لیس للانسان الا ما سعی اور ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسهم
نیز نوحصے رزق تجارت میں اور صرف دسواں حصہ باقی تمام پیشوں میں ہونے کا یہی مطلب ہے کہ رزق محنت اور پیشے سے وابستہ ہے۔رزق کی سب سے کم مقدار ملازمت میں ملتی ہے کیونکہ یہ پرائیویٹ ہو خواہ سرکاری. غلامی کی ترقی یافتہ شکل ہے اور غلام ہمیشہ مفلوک الحال رہتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ صاحبزادے یا پیرز ادے نہیں ہیں تو جس قدر جلد ممکن ہو اپنے نفاست زدہ، نخریلے اور میک اپ آلود مزاج سے نجات حاصل کریں۔ کئی سال تک دھلے دھلائے، کتاب و قلم سے وابستہ رہنے کی وجہ سے آپ کی مردانگی کا حقیقی جوہر زنگ آلود ہو گیا ہے۔محنت کش صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں جو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رزق کمانے کے لیے لوہار، بڑھئی، مستری، مزدور کسان، رہٹ چلانے، بوجھ اٹھانے غرضیکہ ہر کام پوری تن دہی سے کرتے تھے۔ کوئی فاضل ابوبکر صدیق سے بالاتر نہیں کہ وہ کپڑا کندھے پر رکھ کر بیچتے اور کوئی علی مرتضی سے معزز نہیں کہ وہ رات بھر یہودی کا کنواں چلاتے رہے۔دست کاری سے کمایا ہوا رزق سب سے زیادہ حلال ہونے کی حدیث صرف لوگوں کو سنانے کی نہیں، خود بھی عمل کرنے کی ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ مدارس اس کا اہتمام کر سکتے تھے لیکن ان کا کاروبار حیات اعلی پیمانے پر چل رہا ہے، انہیں نیا پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے لیکن آپ کی ضرورت ہے آپ اگلے دو تین مہینے میں کوئی نہ کوئی کام یعنی ہنر سیکھ لیں۔ آپ جہاں رہتے ہیں یا رہنا چاہتے ہیں وہاں کا جائزہ لے کر، مختلف کاروبار سے وابستہ افراد سے مشورہ کر کے کوئی ہنر سیکھ لیں۔ہمارے ایک دوست فاضل تھے، فیصل آباد میں رہتے تھے۔ہوزری والوں سے بنیان کے تھان لے آتے اور کٹائی، سلائی کر کے اپنی اجرت لے لیتے۔ بجلی یا الیکٹرانکس کے کام، دیگر مصنوعات کی گھریلو سطح پر تیاری، کھیلوں کا سامان اس کے علاوہ جہان بھر کے کام پھیلے ہوئے ہیں اور وہ ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتا ہے۔

اگر آپ نے کبھی پختون سماج کا مطالعہ کیا ہو تو وہ اپنے بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے خودکفیل بنانے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔ میرے پڑوس میں ایک فیملی رہتی ہے ان کا اتنا چھوٹا بچہ جو بمشکل چھ سات سال کا ہے آج ہنڈا سٹی چلا رہا تھا۔ جو والدین بڑے بڑے بزنس میں ہیں ان کے بچے نوجوان عمر میں ہی بڑے بزنس مین ہو جاتے ہیں، یہی بات شیخ فیملیز میں ہوتی ہے۔ ایسے گھرانے جو ردی جمع کر کے اور کاغذ چن کر گزارا کرتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ٹرینڈ کر دیتے ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بھول جائیں کہ آپ نے جو دینی تعلیم حاصل کی ہے وہ آپ کی معاشی کفالت کرے گی۔آپ اپنی تعلیم اور دین سے وابستگی کے لیے کوئی آزادانہ مصروفیت اختیار کریں۔بخدا مجھے اس وقت بے پناہ خوشی ہوتی ہے جب میں اپنی گاڑی پر اپنا پٹرول خرچ کر کے کسی بھی جگہ جا کر   بلا معاوضہ  لیکچر دیتا ہوں تو وہ خوشی کسی بھی قیمت پر نہیں خریدی جا سکتی۔ آپ محض اللہ کی رضا کے لیے کہیں درس قرآن دے دیں۔ ایک آدھ نماز پڑھا دیں۔ یا اپنے معاملات ہی درست رکھیں یہی کافی ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

پانچویں بات یہ ہے کہ جو کمائیں اس میں سے جس قدر آسان ہو روزانہ خواہ کم سے کم ہو راہ خدا میں ضرور دیں تاکہ آپ اپنی پوری اس کیمسٹری کو تبدیل کر سکیں کہ دینی شخصیات محض لینے والی ہوتی ہیں دینے والی نہیں، اس میں یاد رکھیں کہ اللہ کا وعدہ ہے
وما انفقتم من شئ فھو یخلفہ
جو، جتنا تم خرچ کرو گے اللہ اس کے متبادل دیتا رہے گا.
وفقكم اللہ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply