مشال۔۔۔۔عدنان حسین شالیزئی

زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ جاؤنگا مگر صبح تو کرجاؤں گا۔۔

مشال کے ریاستی قتل کو ایک سال ہونے کو ہے ۔ لفظ ریاستی قتل لکھنا کئیوں کو بے جا محسوس ہوگا ، لیکن میرے کہنے کا مقصد یہ ہے   کہ مشال کے قتل میں ریاست بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ملوث تھی ۔ وہی ریاست ، جس نے آسیہ مسیح کو ایک مخصوص طبقے کی ناجائز فرمائش پر عرصہ دراز تک قید و بند میں رکھا۔ وہی ریاست ، جس نے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل کو پروٹوکول دینے میں کوئی  کسر نہیں چھوڑی ۔ وہی ریاست ! جس میں قانون کی عملداری مذہبی اور فرقہ واریت پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔

ریاست پاکستان میں توہین مذہب و رسالت کے نام  پر مشال کا قتل پہلا قتل نہیں تھا ۔ مشال تو تب قتل ہوا تھا جب 1949 میں قرارداد مقاصد کے نام سے ریاست کو ایک بند گلی میں دھکیلنے کی راہ دکھائی گئی  ۔ مشال تو تب قتل کر دیا گیا تھا ۔ جب قرارداد مقاصد کے نام سے ملک میں آباد مسلمانوں کے علاوہ  دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کو سیکولرازم کی تابعیت کی بجائے اسلام کی رو سے ڈیل کیا گیا ۔ ان کی مذہبی و سماجی آزادی کو کالے پانی کی کال کوٹھڑی کی نذر کر دیا گیا ۔ ان سے ان کی پاکستان کے شہری ہونے  کی شناخت چھین کر ان کو مذہب کا چونا و رنگ چڑھا دیا گیا ۔ شہری کی حیثیت سے وہ وزیراعظم اور صدر تک بن سکتے ہیں لیکن قرارداد مقاصد کی رو سے انہیں چپڑاسی اور صفائی  کرنے پر مامور کر دیا گیا ۔

مشال تو تب قتل کر دیا گیا تھا ، جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قادیانیوں سے شہری کا حق چھین کر انہیں گاؤں گاؤں اور ہر گلی کوچے میں بھگا بھگا کر مارا گیا ۔ حتی کہ یہ آگ اس دور میں ژوب جیسے پہاڑی علاقے میں پہنچی اور ژوب میں بھی ایک قادیانی مشال کو قتل کر دیا گیا ۔ ضیاء الحق مشال کا قاتل ہے ۔ جس نے مذہبی شدت پسندی کو اپنے دور میں فروغ دیا ۔ جس نے ہمارے بچوں کو  ب سے   بارود اور گ سے گولی کے حروف تہجی پڑھا کر ازبر کرا دیے ۔ جس نے امن و آشتی کی دھرتی پشتون وطن کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا ۔ جس نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر چالیس لاکھ افغان مشالوں کو امریکی سامراج کے کہنے پر مار دیا ۔

مشال کے قاتل ، وہ نوجوان ہرگز نہیں تھے ۔ جنہوں نے اینٹوں اور سیمنٹ کے بلاکس سے مشال کے سر پر وار کیے ۔ میرے نزدیک پاکستانی نصاب مشال کا قاتل ہے ۔ جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی بجائے  مذہبی منافرت کو بڑھوتری دی ۔ جس نے بھائی  چارے کو فروغ دینے کی  بجائے بھائی  کو بھائی  کا دشمن بنا دیا ہے ۔ پاکستانی نصاب نے طالبعلموں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کے ساتھ ساتھ جلاد بھی بنا ڈالا ہے ۔ جو جب چاہیں ، مذہب کے نام پر کسی کا بھی قتل کر سکتے ہیں ۔ جو جب چاہیں ، نصاب میں سیکھے ہوئے جھوٹ موٹ کی ریاستی پالیسی کو خودکش جیکٹس میں بھر کر کسی بھی چوک پر خود اور دوسروں کی تباہی کا سامان کر سکتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مشال نے مر کر کئیوں میں مذہبی منافرت اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف روح پھونک دی ہے ۔ اب ہر نوجوان مشال بن کر سوچنے لگا ہے ۔ جس سوچ سے مذہب کے ٹھیکیدار منع کرتے تھے ۔ وہی سوچ ، سوچ کر مذہبی ریاست پاکستان کی بوسیدہ اور تعفن زدہ عمارت پر آزاد خیالی ، مساوات ، خوشحالی ، زبان و کلچر کے تحفظ ، ہر قوم کے ساحل اور وسائل پر ان کے اختیار کا نعرہ لکھنے والے سامنے آئے ہیں ۔ جو انسانیت کی بات کرتے ہیں ۔ جو مرنے اور مارنے کی بجائے زندگی ، زندگی اور صرف زندگی کا ورد کرتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مشال۔۔۔۔عدنان حسین شالیزئی

Leave a Reply