• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افسوس۔۔ہم اب بم دھماکوں کے بھی عادی ہیں۔۔۔۔رمشا تبسم

افسوس۔۔ہم اب بم دھماکوں کے بھی عادی ہیں۔۔۔۔رمشا تبسم

ایک  ز مانہ تھا کہ  دہشت گردی قتل و غارت عام نہیں تھی۔کوئی واقعہ ہو جاتا تو کئی  کئی  دن ہر شخص خوف و ہراس میں مبتلا رہنے کے ساتھ ساتھ  افسردہ بھی رہتا۔مجھے یاد ہے بچپن میں پی۔ٹی۔وی پر رات نو بجے کے خبر نامے میں جیسے ایک خبر آئی تھی کہ  راوی کنارے ایک علاقے میں ایک شخص نے کئی  بچوں کو باری باری اغوا کیا اور مار کر تیزاب ڈال کر انکے ننھے جسموں کے نشانات مٹاتا رہا۔اس خبر کا آنا تھا کہ  پورے ملک میں صفِ ماتم بچھ گئی ۔ہر آنکھ اشک بار تھی۔خوف کا یہ عالم کہ  مائیں بچوں کو کلیجے سے لگا کر بیٹھ گئیں ۔کئی  دن سکول سے چھٹی کروائی گئی ۔

دہشت گردی قتل و غارت کا بازار اتنا گرم نہ تھا۔کسی کو اتنا خون دیکھنے کی عادت نہیں تھی۔ لہذا کوئی حادثہ رونما ہوتا تو کافی عرصہ اس کا اثر لوگوں کے ذہنوں پر رہتا اور واقعہ لوگوں کی  زباں پر افسوس کے ساتھ جاری رہتا۔پھر یوں ہوا کہ  ایک دم پاکستان میں دہشت گردی کا ننگا ناچ شروع ہونے لگا۔کبھی کوئی کراچی میں بوری بند  لاش پورا دن ٹی۔وی چینل پر قبضہ جمائے رکھتی اور کبھی کوئی بم دھماکہ کئی  کئی دن میڈیا اور اینکر کی  زبان پر جاری رہنے کے علاوہ کافی عرصہ پاکستانیوں کے لئے دکھ اور رنج کا باعث بنا رہتا۔

ہمیں عادت نہیں تھی نہ دہشت گردی کی نہ قتل ہونے کی نہ قتل دیکھنے کی نہ بم دھماکے دیکھنے اور سننے کی اور نہ ہی بم دھماکوں میں چیتھڑے  بن کر بکھرنے کی۔ لہذا کوئی بھی ایسا نا خوشگوار واقعہ ہمارے لئے باعثِ فِکر اور باعثِ رنج ہوا کرتا تھا۔ہم اداس بھی ہوتے تھے  اور اپنے ہم وطنوں کی موت پر زاروقطار روتے بھی تھے۔

مگر اب ایسا نہیں ہے۔بم دھماکے, بوری بند لاش,قتل و غارت,خودکشی کسی بھی طرح کا انسانی جان کا ضیاع اب کسی کے لئے بھی لمحہ فکریہ نہیں ۔کسی کا دل چند سیکنڈ سے  زیادہ اداس نہیں رہتا۔ہمارے حکمرانوں کا نہایت شکریہ کہ  انہوں نے جہاں ہمیں غربت,مفلسی,ذلت,ظلم سہنے,تعلیمی کمی,ناقص صحت کی سہولیات اور انصاف کی کمی  کا عادی بنایا وہاں ہی ہمیں دہشت گردی اور قتل و غارت سہنے  کا بھی عادی بنا دیا۔کوئی بھی کام مسلسل کیا جائے برا ہی سہی مگر عادت ہو جاتی ہے۔ایک بار عادت ہوجائے پھر نشئی کو نشہ برا نہیں لگتا۔قاتل کو قتل کرنا برا نہیں لگتا۔جرائم کرنے والوں کو جرم کرنا برا نہیں لگتا۔ بم دھماکے کرنے والوں کو دھماکے کرنا برا نہیں لگتا اور ان سب کو دیکھ دیکھ کر ہمیں اتنی عادت ہو گئی  ہے کہ  ہمیں اب ان سب قتل و غارت کا ہونا کوئی عجیب اور انوکھی بات ہی نہیں لگتا۔


ایک خبر آتی ہےفلاں جگہ فلاں شخص نے قتل کردیا۔کسی شہر میں گاڑی کا حادثہ ہوگیا۔ کہیں بم دھماکہ ہو گیا کہیں گولیوں سے لوگوں کو بھون دیا گیا۔اب ان سب حادثات کا اثر اتنا ہی ہے کہ  سنا اور بھول گئے۔میڈیا پر صرف ایک بریکنگ نیوز آتی ہے۔اس کے چند منٹ بعد ہی یہ واقعہ صرف ایک خبر کی پٹی پر چلتا نظر آتا ہے۔اور کچھ چینلز تو  اس طرح کے حادثات سے اتنے بور ہو چکے ہیں کہ وہ تو ان حادثات کی خبروں  کو صرف مجبوری کے تحت سناتے ہیں ہاں البتہ کسی غیر ملکی آرٹسٹ کی سالگرہ ہو شادی و بیاہ کی تقریبات یا انکےگھر کسی بچے کی آمد تو دن میں سو بار یہ خبر پورے جوش و خروش سے سنائی اور دکھائی جاتی ہے۔اب دہشت گردی ہوتی ہے۔ایک دوسرے کوبتایا جاتا ہے کہ آپی,امی,ابو,بھائی یہ دیکھو دہشت گردی ہوئی اتنےلوگ شہید ہو گئے تو سب افسردہ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں  ا ﷲبچائے ۔ساتھ ہی آواز آتی ہے فلاں چینل پر لگاؤ ڈرامہ کونسا لگا ہے۔کوئی فیس بک پر شغل میں مصروف رہتا ہے ۔کوئی سٹیٹس لگا کرتھوڑا   زیادہ افسوس منالیتاہے۔کسی کے پاس نہ سٹیٹس لگانے کاوقت نہ خبر سننےپڑھنے کا ان کے کانوں میں کہیں سے آواز آجائے کہ  دہشت گردی ہوئی ہے تو کہہ دیتے ہیں اب تو روزکا معلوم ہی ہے۔

اسی طرح  ٹی۔وی چینل بھی اس معاملے میں اب اکتا گئے ہیں کوئی بھی حادثہ سے  زیادہ ضروری ان کے لئے نیب کی کارروائی چلانا اوردکھانا ہے۔حکمرانوں کے تماشے دکھانے میں مصروف یہ لوگ انسانی جانوں کے ضیاع پر اب گونگے ہوتے جا رہے ہیں۔آج کوئٹہ حادثہ کے دس منٹ بعد کچھ چینلز پر اس دہشت گردی کی معمولی خبریں تھیں ۔کچھ پر ایک معمولی لائن چل رہی تھی اور کچھ چینلز پر صرف نیب کے مسائل,اسد عمر کے قہقہے,بلاول بھٹو  کا بیان اور حمزہ شہباز کی پیشی ہی  زیرِ بحث تھی۔

جنرل مشرف کے دور میں  جب دہشت گردی پاکستان میں جڑیں گاڑ  رہی تھی کچھ  اینکر تنقید کرتے تھے کہ  شاید  مشرف نے آبادی کنٹرول کا آسان حل دہشت گردی ڈھونڈا ہے مجھے اب اس بات پر یقین سا ہو گیا ہے۔ہم عوام کیڑے مکوڑے ان حکمرانوں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے لہذا جیسے بھی ہو ہمیں مرنا ہے۔اب کوئی گولی سے بھون دے,کوئی ہجوم تشددکر کے سڑکوں پر لاش کی بے حرمتی کرے,کوئی سرِ عام عورتوں کو ننگا کرکے بازاروں میں گھمائے,کوئی بلدیہ فیکٹری کی طرح ہمیں دن کی روشنی میں جلا کر راکھ کر دے,کوئی قتل کر کے ہمیں بوری بند لا ش بنا دے,کوئی دن کے اجالے میں ہمارے بچوں کے سامنے ہمیں گولیوں سے بھون کر دہشت گرد کہہ دے۔یا پھرکوئی خود کو بم لگا  کرآ کر پھٹ جائے اور ہم سب کو چیتھڑے بنا کر بکھیر دے ریاست پر نہ کبھی پہلے اثر ہوا ہے نہ ہی کبھی ہو گا۔بہت احسان کر کے تمام سیاست دان مذمت ضرور کرتے ہیں۔بس انکا دکھ اس مذمت تک محدود ہے اس کے علاوہ عوام روزانہ مرے,قتل ہو,مار دی جائے, ریاست یا حکمرانوں پر کبھی اثر نہیں ہو گا۔
کیا ہوا بم دھماکہ ہوتا ہے تو۔۔۔
چلتی پھرتی ہنستی کھیلتی  زندگیاں ایک دم دھماکے کی آواز آتی ہے اور سب ختم۔مخلوقِ خدا کسی روئی کے بادل کی طرح بکھر جاتی ہے۔زمین خون سے بھر جاتی ہے۔دیواروں پر زمین پر انسانی اعضاء بکھرے ہوتے ہیں۔زمین پرہماری ٹانگیں ہمارے ہاتھ ہماری انگلیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتی ہیں ۔ننگے آدھے ادھورے جسم تڑپ تڑپ کر مرتے ہیں۔کچھ اعضاء سمیٹ لئے جاتے ہیں کس کی انگلیاں  ہیں  کس کاکان ہے کس کی ٹانگ کس کا سر کس کا دھڑ  سمجھ نہیں آتا۔سب گوشت کےلوتھڑے اکٹھے کر کے لے جائے جاتے ہیں۔ان جسم کے حصوں کو کوئی وارث نہیں پہچان سکتا۔ کئی   انسانی گوشت کے ٹکڑے اور زمین پر بہتے خون  کو پانی کا پریشر مار کر  حادثے کی جگہ کو صاف کرلیا جاتا ہے یعنی  یہ بکھرا خون بکھرےاعضاء کسی گندگی کی مانند نظر آتے ہیں۔یہی لوگ یہی چیتھڑے یہی بکھرا گوشت چند لمحے پہلے جیتے جاگتےانسان تھے۔جن کی اب شناخت بھی ممکن نہیں رہی۔ان کے اہلِ خانہ شایداب آخری دیدار میں بھی پورا وجود دیکھ نہیں پائیں گے۔ کسی کی لاش کی نہ شناخت ہوتی ہے نہ ہی نشان ملتا ہے۔کوئی دعا کرتا ہے کہ انکا اپنا اس حادثہ میں بچ جائے۔کسی کو لاش مل جاتی ہے ۔کوئی اپنوں کی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاشیں لینے جمع ہو جاتے ہیں۔اور بد قسمتی کہ  ان کو بکھرے ٹکڑے ہوئے وجود بھی نہیں ملتے۔صرف اتنی خبر ملتی ہے کہ  مر گئے۔
مجھے خوف نہیں اب کہ مر جاؤں گی
موت اٹل ہے تو ہنس کر  گلے لگاؤ گی(رمشا تبسم)

اب ہمیں یہ سب دیکھنے کی عادت ہے۔اب ہم اس وقت تک  زندہ ہیں جب تک ہم بھی کسی دن کسی دھماکے میں دیواروں پر زمین پر ہواؤں پر چیتھڑے بن کر بکھر نہیں جاتے۔ دہشت گردی کی کیا مجال کہ  ہمیں دہشت میں مبتلا کرے۔ہمارے حکمرانوں نے تو ہمیں اس کا عادی بنا دیا ہے۔
دہشت گردی  کا ننگا ناچ جاوید بدایونی نے کیا خوب بیان کیا ہے۔جوجسم پر سکتہ طاری کردیتا ہے
میرا نام ہے دہشت گردی۔۔۔
میں ہوں “آتنک” میرا نام ہے دہشت گردی
گونجتی رہتی ہے ہر ملک میں آواز میری

نہ کوئی باپ میرا اور نہ کوئی میرا خدا
کوئی مذہب نہ میرا ہے نہ کوئی دین میرا

واسطہ امن سے انصاف سے تھا کب میرا
جبر ایمان ہے اور ظلم ہے مذہب میرا

لاشیں دیکھوں نا اگر چین کہاں آتا ہے
خون بہتا ہوا انسان کا مجھے بھاتا ہے

درد اور چیخ سے اے لوگو مجھے الفت ہے
بےخطا لوگوں کی لاشوں سے مجھے رغبت ہے

یہی پہچان میری ہے یہی منصب میرا
بےقصوروں پہ ستم کرنا ہے مذہب میرا

خوش اگر لوگ نظر آئیں تو میں روتی ہوں
لاش کے ٹکڑوں کو گنتی ہوں تو خوش ہوتی ہوں

کیسے احمق ہیں جو کہتے ہیں کہ انسان ہوں میں
کچھ یہ بھی سمجھے ہیں کہ صاحبِ ایماں ہوں میں

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھ کو ان لوگوں کی حالت پہ ہنسی آتی ہے
ایسے لوگوں کی حماقت پہ ہنسی آتی
اللہ پاک پاکستان اورتمام عالم سے اس دہشت گردی کا خاتمہ کر  کے ہمیں اور ہمارے ہم وطنوں کو محفوظ کردے آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”افسوس۔۔ہم اب بم دھماکوں کے بھی عادی ہیں۔۔۔۔رمشا تبسم

  1. ؐاسلام علیکم!
    آج پھر اک نئی خبر آئی ہے
    ہر طرف مردنی سی چھائی ہے
    ہوا ہے دھماکہ سر زمین پاکستان پر
    گھروں میں جس نے صف ماتم بچھائی ہے
    خون میں لت پت لاشیں دیکھ کر بھی
    نہ جانے کیوں دلوں میں بے حسی سمائی ہے
    آج پھر ماؤں کی گود اجڑی ہے
    آج پھر کسی نے باپ کی میت دفنائی ہے
    خدارا! بند کرو یہ دہشت گردی کا بازار
    خدا نے یہ کائنات بڑے پیار سے بنائی ہے۔۔۔۔۔(عظمیAG)
    ایک اور دل دہلا دینے والی خبر۔ ۔۔۔ ہر طرف تباہی۔ ۔۔ خون میں لتھڑے ۔۔۔بکھرے اعضا۔ ۔۔۔ کسی کے بچے ۔۔۔ کسی کا باپ ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر بھی اگرکسی کی آنکھ سے آنسو نہ ٹپکے ۔۔۔ اس بڑا بے حس ۔۔۔۔ سنگ دل کیا ہو گا۔ ۔۔۔ تم نے بالکل سچ کہا کہ اہل پاکستان عادی ہو چکے ہیں ۔۔۔ان کےلیے یہ اک عام خبر سے زیادہ کچھ نہیں۔ ۔۔ خبر آئی۔ ۔۔ چچ چچ ۔ ۔ اظہار افسوس کے لیے اس سے زیادہ ان کے پاس نہ الفاظ ہیں ۔۔۔نہ وقت ۔۔۔۔
    آج کے حالات کے پیش نظر جو بے حسی حکمران اور عوام میں دیکھائی دے رہی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔وہ اس بات کا ثبوت ہے
    کہ ان کےدلوں پر مہر لگ گئی ہے ۔۔۔۔
    ہر طرف اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کے دکھ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے کندھے اچکا کر ۔۔۔۔ہمیں کیا؟ ۔۔۔ اب عام بات ہے۔۔۔
    قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ۔۔۔۔ شاید اسے ہی کہتے ہیں۔۔۔۔
    اے ارحم الراحمین۔۔۔تیری رحمت کے سوالی ہیں۔۔۔(حالانکہ )ہمارے اپنے دل ہر رحم سے خالی ہیں۔۔۔
    یا رحیم۔۔۔ پاکستان اور اس میں رہنے والے ہر پاکستانی کو اس تباہی سے محفوظ فرما ۔۔۔ اور مرحومین کی مغفرت فرما ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرما ۔۔۔ آمین۔۔۔
    آپ کی تحریر اک بار دلوں کو ہلا دینے پر قادر ہے ۔۔۔۔اللہ تعالی ۔۔ہر قدم پر کامیابی عطاکرے آمین ثم آمین۔۔۔۔۔

    1. آپ کے الفاظ نے بہت رلا دیا ۔ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر رو رہا ہے ۔ عظمی آپ کی دعا کا بہت شکریہ۔

  2. Uzma G
    بلکل صحیح کہا آپ نے، رمشا تبسم کی تحریر پہ بہت اچھی تمہید باندھی ہم بلکل بے حس ہوتے جا رہے ہیں افسوس.. آپ نے شہیدوں کے لیے دعا کی ان کی فیملی کے لیے دیا کی اللہ پاک آپ کو بھی اجر دے اور مرحومین کی مغفرت فرمائے اہلِ خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

Leave a Reply to رمشا تبسم Cancel reply