سستا خون ۔۔۔ عبداللہ خان چنگیزی

خلیجی ممالک میں سر کٹی  لاشوں کے نام

جب جب کسی خبر میں یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ آج جمعرات کے دن ایک یا دو یا زیادہ پاکستانیوں کے سر قلم کردیئے گئے اِس جرم میں کہ وہ کسی خلیجی ملک میں ممنوع اور حرام منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث تھے تو وہ لمحے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے اور جِگر درد سے پھٹ رہا ہوتا ہے کہ کیسے اِن لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی موت کو آتا دیکھا ہوگا۔ کیسا وہ لمحہ ہوگا جس میں اِن کی گردن اُن کے جسموں سے گر پڑے ہوں گے۔ کیسے وہ اپنے پیاروں کو اِس لمحے میں یاد کرتے ہوں گے جو اُن سے میلوں دور انجان و پریشان اِس اُمید پر دن رات کاٹتے ہوں گے کہ اُن کا لعل اُن کے لئے خرچہ پانی کمانے پردیس میں جا بسا ہے۔ کیسے وہ خواب ہوں گے جو ایک بہن نے اپنے بھائی کے شادی اور خانہ آبادی کے لئے دیکھے ہوں گے۔ کیسے وہ حِنا کی لالی ہوگی جو ایک بھائی اپنی بہن کے ہاتھوں پر خیالوں میں لگاتا ہوگا۔ کیسے اُس بوڑھی ماں کے سسکتی آہیں ہوں گی  جب وہ اپنے جِگر گوشے کی سر کٹی لاش کے بارے میں سُنتی ہوگی۔  کیسا وہ بدنصیب باپ ہوگا جو اپنے سگے بیٹے کو مٹی کے سپرد کرنے کا بھی اہل نہ ہوگا۔ کیسی وہ نصیبوں جلی بیوی ہوگی جس کے سہاگ کا وہ چہرہ وہ سر تلوار کے ایک ہی وار سے مٹی میں ملا دیا جاتا ہوگا جو سر اُس کی گود میں رکھا ہوا باقی زندگانی کے لئے عہد و پیمان کرگیا ہوگا۔ کیسا وہ معصوم بیٹا ہوگا جو اپنے پاپا کی یاد میں روز اماں سے اُس کے واپسی کا پوچھتا ہوگا۔ کیسی وہ بیٹی ہوگی جو اِس اُمید پر خوش ہوتی ہوگی کہ وہ پھر پاپا کے سینے پر بیٹھ کر ناز و ادا کے ساتھ کھیلے گی۔
مندرجہ بالا وہ مُمکنہ انسانی جذبات ہیں جو ایک انسان کے وجود میں اُس کے ذہن و دل میں آ سکتے ہیں،  لیکن یہ جذبات  ایک طرف، سوال یہ ہے کہ حقائق کیا ہیں؟ اور ایسے لوگ کون ہوتے ہیں جو معصوم اور بھولے بھالے شہریوں کو بیرونی ممالک خاص کر خلیجی ریاستوں میں اِس اُمید کے ساتھ بھیج دیتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ منشیات لے کر وہاں پر جاکر اپنے پیاروں کے لئے دنیا کی ہر خوشی خریدنے کا بندوبست کرسکتے ہیں اور بیچارے ہمارے غریب بھائی اور بہنیں جو غربت اور حالت کی سخت چکی میں پِسے ہوئے ہوتے ہیں وہ اُن درندوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور بالاآخر اپنا سر کٹوا کر کسی نامعلوم قبر میں اپنی سرکٹی لاش کے ساتھ سو جاتے ہیں،  ہمیشہ کے لیے؟  یہ کوئی معمولی بات نہیں۔  انسانی جسم میں ہیروئین سے بھری گولیاں بھروا کر اُن کو ساتھ لے جانے پر تیار کرنا بہت ہی منظم گروہوں کا کام ہے جو کسی ایسے انسان کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جو حالات سے دلبرداشتہ ہو چکا ہو اور اُس کو کوئی اور راستہ دیکھائی نہ دے رہا ہو۔  یہ لوگ ایسے سفاک سمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انسانی جسم اور  انسانی روح کو دو ٹکے کا نہیں سمجھتے۔  اُن کو فقط اپنے مال و دولت سے مطلب ہوتا ہے ناکہ کسی غریب کی سر کٹی لاش سے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے اِس جرم میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہ پاکستانی میڈیا پر نہ تو دکھایا جاتا ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام یہ جان پاتی ہے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد سے کیسے بچا جائے جنہوں نے بےشمار معصوم پاکستانیوں کے گھر اجاڑ کر رکھ دیئے ہیں۔ عرب میڈیا کے مستند ذرائع کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں سو سے زیادہ پاکستانیوں کے سر منشیات سمگلنگ کے جرم میں قلم کر دیئے گئے۔  یہ تعداد دوسرے ممالک کے شہریوں کی نسبت   سب سے زیادہ ہے۔
کیسے مجبور لوگ اِن درندوں کے چُنگل میں پھنستے ہیں اور ایک ایسے شخص کو کیوں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی موت کے قریب جا رہا ہے؟  اِن دولت کے پُجاریوں کی واردات کرنے کی شروعات یہاں سے ہوتی ہے کہ معاشرے میں  کون سا بندہ مالی حیثیت سے کمزور ترین ہے اور معاشی استحصالی کا بھرپور شکار ہے۔   یہ لوگ اُس بندے کے گرد اپنا جال پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔  کبھی اشاروں میں کبھی کسی دوسرے کا سہارہ لے کر، کبھی کسی دوست کے ہاتھوں جو اُن کے سامنے اُنہیں ایسے کام کر گزرنے کے بعد پیسوں کی ریل پیل کا تذکرہ کرتے ہیں، تو کبھی اپنے ہی معاشرے میں گلی محلے میں رہنے والے قریبی ساتھی یا جاننے والے کی حالت کو ایک دم سے بدلتا دیکھ کر۔ غیر تعلیم یافتہ اذہان اِن درندوں کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں جو نہ تو اپنا اچھا برا ٹھیک طور پر سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی اِن کی چکنی چپڑی باتوں میں چھپی ہوئی حیوانیت کو سمجھ پاتے ہیں۔  پھر ہوتا یہی ہے کہ کسی روز ایک خلیجی ملک کے جیل سے اُس کے گھر والوں کو اُس کی کوئی کال موصول ہوتی ہے اور دونوں جانب آہوں اور سسکیوں کا ایک نہ تھمنے والا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔  بوڑھے ماں باپ یونہی زندہ درگور ہو جاتے ہیں،  سُہاگ اُجڑ جاتے ہیں اور بچے دیکھتے ہی دیکھتے یتیم ہو جاتے ہیں۔
ایسے سمگلروں کی باتوں پر  وہی یقین کرسکتا ہے جو یا تو حاجت و ضرورت کے آخری درجے تک پہنچ چکا ہوتا ہے یا پھر ناسمجھی اور ظاہری دولت کی چمک دمک اُس کی ذہنی سوچ بوجھ پر پردہ ڈال دیتی ہے اور وہ اپنے ساتھ کسی بھی طرح کے حادثے کے لئے خود کو تیار کر لیتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اِسی جرم کی پاداش میں تہ تیغ ہوچکی ہے۔  آج تک اُن کے گھر والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اُن کا بیٹا دنیا کے کس حصے میں غائب ہوچکا ہے۔ دوسری خوفناک بات یہ ہے کی جن لوگوں کے ذریعے کوئی شخص یا ایک نوجوان ایسے قبیح جرم کے لئے تیار ہوجاتا ہے وہ مکمل خفیہ رہتے ہیں۔  کبھی کسی کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ جس بندے کے ساتھ اُس کی ڈیلنگ اور بات چیت ہوتی تھی وہ کون ہے اور نہ ہی کوئی ایجنٹ اُس کو جانتا ہے۔ بہت سے ایسے واقعات میں ایسا ہوا ہے کہ اپنے قریبی رشتے دار ہی اپنے کسی بندے کو اِس کام کا لالچ دیتے ہیں جن میں بےشمار پیسے کی لالچ بھی ہوتی ہے اور اُن کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اُس سے پہلے بھی بہت سے لوگ یہی کام کر چکے ہیں اور واپس بھی آگئے ہیں جو کہ اب خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ حیوان  معصوم لوگوں پر ایک خطرناک حربہ  استعمال کرتے ہیں جس  کا علم اُن شکار ہونے والوں کو نہیں ہوتا۔ وہ نہیں جانتے کہ آج کل سائنس اور مشینری کا دور دورا ہے اور وہ مشین ایک باریک سے تنکے کو بھی سامنے لاکر واضح کردیتی ہے۔  ہر خلیجی ائیرپورٹ میں وہ سسٹم لگا ہوتا ہے جہاں کسی مسافر کو معمولی سی شک کی بنیاد پر لاکھڑا کر دیا جاتا ہے اور پھر  دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے میں ذرا برابر دیر نہیں لگتی۔
بعض لوگوں کو تو پاکستان کے ائیرپورٹ پر ہی وہاں کے سرکاری اہلکار پکڑ لیتے ہیں جو کہ ایک طرح سے اُن کی خوش قسمتی ہی ہوتی ہے ، کیونکہ اگر موت بھی آنی ہے تو کم از کم اپنے اپنوں سے مل تو لیتے ہیں مگر کبھی کبھی یہ بدبخت اور بدنصیب وہاں سے نکل  آتے ہیں۔  جیسے ہی  خلیجی ریاست مین اُترتے ہیں  پکڑ میں آجاتے ہیں اور پھر ان کے مقدر میں سوائے نِدامت کے اور کچھ نہیں ہوتا۔   نہ ہی کوئی حکومتی سطح پر اِس جرم کی کوئی شنوائی کرتا ہے۔  آپ کا ملک اِس جرم کے سامنے آپ کی کوئی مدد نہیں کرے گا۔  پھر کیوں اپنے زندگانی یونہی آگ میں جھونکی جائے؟
گزارش یہ ہے کہ  بندہ اپنے ملک میں خواہ  کچھ بھی کرلے کوئی بھی کام کرے کوئی حلال کاروبار چاہے  وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو کسی بھی طور قابلِ نفرت نہیں۔  اُس حلال طریقے سے کمائی ہوئی تھوڑی دولت حرام اور اِس طرح کے قبیح و قابل مذمت و باعث شرم حرکت سے ہزاروں درجے بہتر ہے۔  یہ اِلتماس ہے اُن تمام لوگوں سے کہ خدارا اِن دولت کے وحشی درندوں کی باتوں میں مت آئیں۔  یہ سب خیالی سبزازار دیکھانے والے لوگ ہیں جن کو آپ کی آپ کے خاندان کی کوئی فکر نہیں ہوتی اور نہ ہی ملک و قوم کی بدنامی اُن کے لئے کوئی اہمیت رکھتی ہے۔  اپنے بچوں کو یوں یتیم نہ بنائیں۔  اپنے بوڑھے والدین کا سہارہ بنیں نا کہ اِس عمر میں اُن کو زندہ درگور کریں۔ نہ ہی اپنی بیوی کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑیں۔ آپ تھوڑا کمائیں مگر اِس طریقے سے  کہ آپ اپنے بچوں اپنے والدین کے پاس زندہ تو واپس آسکیں۔ ایسی دولت کا کیا فایدہ جو باعثِ شرم  ہو اور جس کے ہر ایک پیسے پر آپ کا لہو لگا ہو۔
آئیں اپنے ملک کو اِس بدنامی سے بچائیں اور اپنے آس پاس نظر رکھیں کہ کہیں کوئی کسی کو اِس طرح سے حرام دولت کمانے اور شرمناک حرکت کی دعوت تو نہیں دے رہا؟

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کا خون اتنا سستا نہیں جو یونہی بہایا جائے۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply