• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انتخابی تشہیر سے غائب ہوتے بنیادی سوالات۔۔۔ ابھے کمار

انتخابی تشہیر سے غائب ہوتے بنیادی سوالات۔۔۔ ابھے کمار

ہندوستانی جمہوریت کے لیے یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ برسر اقتدار مودی حکومت کی کارکردگی کا احتساب کرنے سے کترا رہا ہے. اکثر اوقات وہ خود سرکار کے دفاع میں کھڑا نظر آتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میڈیا سرکار کی کامیابی اور ناکامی پر کھل کر بحث کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور یعنی مینی فسٹو پر تجزیہ پیش کرے۔ بالخصوص وہ مسائل جو راست طور محروم اور حاشیے پر پڑے طبقات سے متعلق ہیں ان پر تو اور بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی، مگر ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ بر سر اقتدار جماعتوں کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے، میڈیا حزب اختلاف کے بہت سارے واجب سوالات کو بھی راشٹرواد، پاکستان اور دہشت گردی کے شور میں دبا نے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بات کیا میڈیا ہاؤس میں کام کرنے والے بڑے اور نامور صحافیوں کو بخوبی معلوم نہیں کہ ملک کی اصل لڑائی پاکستان سے نہیں، بلکہ غریبی، ناخواندگی، بے روزگاری، بد امنی سے ہے؟ کیا پاکستان کا خوف دکھا کر انتخابات کو اصل مسائل سے دور کرنا واجب ہے؟ جہاں تک بات پاکستان کی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس خارجہ پالیسی کےماہرین ہیں۔ یہ تو ان کو طے کرنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہماری حکومت کو کون سی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ داخلی معاملات میں خارجی امور کو ایک اہم مہرا بنانا کسی بھی زاویے سے صحتمند سیاست کی علامت نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ شدت پسند نظریے کی حامل سیاسی جماعتوں نے کئی موقعوں پر اپنی ناکامیوں کو ڈھکنے کے لیے خارجی دشمن کا بھوت کھڑا کیا ہے۔ یہی سب کچھ امریکہ میں سرد جنگ کے دوران بھی دیکھا گیا جب امریکہ کا الیکشن کمیونسٹ سوویت یونین کو خطرہ بتا کر لڑا گیا۔ بعد میں سوویت یونین کی جگہ اسلام اور مسلمانوں کو بیٹھا دیا گیا۔ کچھ اسی طرح سے ملتی جلتی بات اپنے ملک میں بھی دیکھی جا رہی ہے۔

انتخابی تشہیر کے دوران راشٹرواد، پاکستان، دہشت گردی، فوج، سرجیکل اسٹرائک کے شور میں روزی،روٹی اور مکان کے سوالات دبائے جا رہے ہیں۔ یہ بات بغیر کسی دلیل کے بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ قومی تحفظ کے لیے مودی کو دوبارہ لانا ہے۔ مگر جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا مودی سے پہلے کی حکومتوں نے ملک کی حفاظت نہیں کی ہے؟ اگر کی ہے تو مودی حکومت اتنی اسپیشل کیسے ہو گئی ہے؟ ان کا جواب نہ تو بر سر اقتدار جماعت کے پاس ہیں اور نہ ہی ان سے جڑے ہوئے میڈیا ہاوس کے پاس۔

رائے دہندگان کو یہ پوچھنے کا پورا حق ہے کہ وہ بی جے پی کو دوبارہ کیوں ووٹ دیں۔ کیا حکومت کے کاموں کا حساب کتاب مانگنا عوام کا حق نہیں ہے؟

کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ مودی حکومت روزگار دینے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے؟ حال کے دنوں میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ پینتالیس سالوں میں سب سے زیادہ ہوچکی ہے۔

کیا مودی سرکار کو ووٹ دینے سے پہلے بد عنوانی کے خاتمے کے ان کے وعدوں اور دعووٴں کو یاد نہیں کرنا چاہیے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بد عنوانی دور کرنے کے بجائے بر سر اقتدار حکومت کی ناک کے نیچے سے یکے بعد دیگرے کئی صنعت کار عوام کے ہزاروں کروڑ روپیے لے کر بھاگ گئے؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ مودی حکومت نے جتنی مستعدی معصوم مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کرنے میں دکھائی، اس کا اگر دسواں حصہ بھی ملک کا پیسہ لوٹنے والوں کو پکڑنے میں لگایا جاتا تو ملک کا اتنا نقصان نہیں ہوتا۔ اگر اتنی مستعدی کالادھن واپس لانے میں برتی جاتی تو ہم سب کے بینک اکاؤنٹ میں پندرہ پندرہ لاکھ روپے آجاتے۔

بد عنوانی سے جڑا ہوا دوسرا معاملہ نوٹ بندی کا بھی ہے۔ آر بی آئی کی مرضی کے خلاف، اچانک نوٹ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک فیصلے کے ساتھ غریب عوام کے رکھے ہوئے پانچ سو کے نوٹ محض کاغذ کے ٹکڑے بن کر رہ گئے۔ اصل مار تو غریب عوام پر پڑی، جن کو نہ جانے کتنے مہینوں تک بینک کے سامنے صبح سے شام تک قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ اس دوران کئی لوگوں کی تو موت بھی ہو گئی۔ اتنا ہی نہیں پیسے کی کمی کی وجہ سے بیٹیوں کی شادی تک رک گئی۔ پیسے کی کمی کی وجہ سے بیمار کا علاج رک گیا۔ جیب میں روپیہ ہونے کی باوجود، عوام کچھ خرید کر کھا نہیں سکتے تھے۔ کئی مواقع پر اپنی محنت کی کمائی کے پیسوں کو چلانے کے لیے عوام کو کمیشن تک دینا پڑا۔ کیا اس پریشانی اور افراتفری کا حساب نہیں مانگا جانا چاہیے؟

نوٹ بندی سے چھوٹے اور درمیانے بیوپاری تباہ ہوگئے۔ مزدور کو بڑے شہروں سے بے روزگار ہو کر اپنے وطن لوٹنا پڑا۔ مگر اس دوران میڈیا کا ایک بڑا حصہ حکومت کے دفاع میں لگا رہا۔ میڈیا نے تو اس وقت ساری حدیں پار کر دیں جب اس نے دعوٰی کیا کہ دو ہزار روپے کےنوٹ میں جی پی ایس چِپ لگا ہوا ہے جو زمین کے اندر دبے نوٹ کو بھی ٹریس کر لے گا۔ نوٹ بندی کے دفاع میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے دہشت گردی کی کمر ٹوٹ جائے گی مگر دہشت گردی تو ختم نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر دہشت گردی سے ملک کو بچانا ہے تو مودی حکومت کو دوبارہ لانا ہوگا۔

ملک میں امن و امان کی صورتحال بنائے رکھنے میں بھی یہ سرکار ناکام رہی ہے۔ گائے کے گوشت کے بہانے، ہندو لڑکیوں سے شادی کر کے ان کا دھرم بدلنے کے نام پر، دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کے نام پر، ایک خاص مذہبی گروہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شدت پسندوں کی بات کون کرے، حکومت میں براجمان بی جے پی کے وزرا نفرت انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مودی حکومت میں کوئی بڑافرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ہے، مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ مودی حکومت میں سوشل میڈیا کی مدد سے ہر وقت ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف ماحول خراب کیا گیا ہے۔ کیا ان سارے سوالات کو اٹھانا غیر مناسب ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

سوالات صرف مودی حکومت کی سابقہ کارکردگی پر ہی نہیں بلکہ اس کے نئے وعدوں پر بھی اٹھائے جانے چاہئیں۔ بی جے پی کے 2019 کے انتخابی منشور پر ایک نظر ڈالنے پر یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس بار بھی سرمایہ داروں اور ہندوتو نظریے سے جڑی تنظیموں کے مفادات کو دھیان میں رکھ کریہ منشور تیار کیا گیا ہے۔ محروم طبقات کے لئے کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ اگر مسلمانوں کی بات کی جائے تو پورے منشور میں صرف دو مرتبہ مسلمان کا نام آیا ہے۔ پہلی بارطلاق ثلاثہ کے سلسلے میں، جس میں مسلم خواتین کو حق دلانے کی بات دوہرائی گئی ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ طلاق ثلاثہ کے نام پر مسلمان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے بہانے بی جے پی کا اصل مقصد پوری مسلم کمیونیٹی کو خواتین مخالف ثابت کرنا ہے۔ دوسری مرتبہ مسلمانون کا ذکر اقلیتوں کے ایمپاورمنٹ اور ترقی کو لے کر کیا گیا ہے۔ مگر یہاں بھی صرف خانہ پری کی گئی ہے۔ اقلیتوں کی ترقی کیسے ہو گی اس پر کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ تبھی تو بی جے پی کے مقابلے، کانگریس، لیفٹ پارٹیوں اور سماجی انصاف سے جڑی ہوئی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور اپنی تمام خامیوں کے باوجود زیادہ ٹھوس نظر آ رہے ہیں۔ ووٹ ڈالتے وقت ان تمام باتوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply