مجبور بس ہوسٹس۔۔۔شہنیلا بیلگم والا

دو تین دن پہلے ایک وڈیو وائرل ہوئی  جس میں ایک کوچ سروس کی ہوسٹس کو ایک شخص بس سے اٹھا کر باہر پھینکنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ وہ ہوسٹس ذلت اور بے بسی کی شدت کے احساس سے رونے لگی۔ وہاں بیٹھے چند مردوں نے اس ہوسٹس کو کہا کہ آپ اس کے منہ نہ لگیں۔
یہ وہ جھلکیاں ہیں جو میں نے اس وڈیو میں دیکھیں۔ کچھ جگہ پڑھا کہ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو بس سے اتار دیا گیا۔
ظاہر ہے اس ایشو پہ سوشل میڈیا پہ بات ہونی تھی۔ جو کچھ میں نے پڑھا اس کا ذکر کر دیتی ہوں۔

1۔ یہ وڈیو بنانے کی کیا ضرورت تھی؟
2۔ وڈیو بنا لی تو ہوسٹس کا چہرہ دھندھلا کر دیتے۔
3۔ لڑکیوں کو ایسی جابز کرنے کی ضرورت کیا ہے؟
4۔ جب ایسی جاب کر ہی لی ہے تو سب فیس کریں۔ رونے کی کیا ضرورت ہے؟

میرے نزدیک جس شخص نے یہ وڈیو بنائی  اس نے اس معاشرے پہ بہت بڑا احسان کیا۔ ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ یہ ہے ہماری حقیقت۔ ہم جو ہر وقت ہماری اخلاقیات، روایات اور عورت کے احترام کے گن گاتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا اصل چہرہ۔ وہاں کسی مرد نے یہ نہیں کہا کہ اگر تم نے اسے ہاتھ لگایا تو میں سیدھا پولیس کو کال کروں گا۔ اور ہماری موجودگی میں کسی کی مجال نہیں کہ ایک عورت پہ ہاتھ اٹھائے۔

اس وڈیو کو بنانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہ وڈیو متعلقہ حکام تک پہنچ گئی  ہے اور اس شخص کے خلاف کاروائی شروع ہوچکی ہے۔

ہوسٹس کا چہرہ دھندلا کرنے کی بات سے میں کلی متفق ہوں۔ ہمارے اندر اتنی اخلاقیات ہونی چاہیے کہ ہم ان چیزوں کا خیال رکھیں۔

اب بات کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو ایسی جابز کرنے کی کیا ضرورت ہے؟؟

تو جناب آرام دہ گھر میں باپ، شوہر، بھائی  یا بیٹے کی کمائی پہ پلنے والی خواتین یہ بات کیسے سمجھیں  گی کہ گھر کے  فاقے تو عورت کو عزت بیچنے پہ مجبور کردیتے ہیں۔ یہ بیچاری تو حق حلال کھا رہی تھی۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ کوئی  اور جاب کرلیتی۔ آپ کے خیال میں کیا اس نے کوشش نہیں کی ہوگی۔ کیا یہ جاب کوئی  خوشی سے کرے گی۔ اس معاشرے میں جہاں مرد بس کا ٹکٹ خرید کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے ساتھ میں ہوسٹس کو بھی خرید لیا ہے۔ ان میں سے بیچاری کتنی میٹرک پاس ہونگیں۔ آج کل تو ایم اے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ اس میٹرک پاس کو کیا جاب ملے گی۔ کتنی اس میں سے بیوہ اور مطلقائیں ہونگی۔ اپنی نوکری سے بچوں کو پالتی ہوں گی۔ اور پھر وہ عورتیں لوگوں کے گھروں میں کام کر کے بچے پالتی ہیں کیا وہ محفوظ ہیں۔ پھر تو ہم اس پہ بھی پابندی لگا دیں کہ تیرے میرے گھر میں جا کر کام کیوں کرتی ہو۔ بھوکی مرجاو۔ اور مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ جب سڑک پہ کتا کاٹنے لگے تو کیا آپ کتے کو ماریں گے یا گھر سے نکلنا چھوڑ دیں گے؟

پھر بات کہ جب ایسی جاب کرلی تو رونا کیوں شروع کردیا۔ جاب کی ہے تو ہمت بھی رکھے۔ اللہ نہ کرے ایسا وقت کسی پہ پڑے جب ایک شخص کسی کو بھرے مجمع میں اس طرح ذلیل کرے۔ ایک عورت مرد کی زبان نہیں بول سکتی۔ اس کی بے بسی کی انتہا یہی ہوتی ہے کہ وہ رو دے۔ ہم خواتین زیادہ تر مردوں کو فیس بک پہ ان کی فحش گوئی  کی وجہ سے ہی بلاک کرتی ہیں۔ کیا ہم انہیں جواب دیتی ہیں؟ ۔۔۔ نہیں، کیونکہ عورت کی شرم و حیا، اس کا وقار اس کی اجازت نہیں دیتا۔ فرض کیجیے بلاک کی سہولت نہ ہوتی تو ہم کیا کر سکتی تھیں سوائے رونے اور فیس بک چھوڑنے کے۔

تو عرض یہ ہے کہ اس الوژن سے نکلیں کہ یہ عورت اس جاب پہ کیوں گئی ۔ اب وہ زمانے نہیں رہے کہ ایک بندہ کما کر پورا خاندان پال لیتا تھا۔ ہمیں ماحول کو بدلنا ہوگا۔ اپنے خیالات کو بدلنا ہوگا۔ آج اگر کوئی عورت کہتی ہے کہ میں جاب کرتی ہوں اور مجھے کبھی جنسی ہرا سگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تو وہ جھوٹ بولتی ہے۔ میں تو اس پیشے میں ہوں جو عورتوں کے لیے محفوظ ترین مانا جاتا ہے لیکن کیا اس میں اس چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بالکل کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا میں جاب چھوڑ دوں؟؟ بالکل نہیں۔ یہ تو اس مرد کی جیت ہے جو مجھے خود سے کمتر سمجھتا ہے۔ مجھے ماحول بدلنا ہوگا۔ مجھے آواز اٹھانی ہوگی۔

اس ہوسٹس کے کیس میں مجھ سے جو ہوا میں نے کردیا۔ اور اس کے لیے میں اس وڈیو بنانے والے شخص کی ممنون ہوں۔

تو سوچ بدلیے۔ آئیے مل کر اس کے خلاف لڑیں اور ہمارے معاشرے کو ایک پروگریسیو سوسائٹی بنانے کے لیے مل کر کوشش کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر شہنیلہ صاحبہ کی فیس بک وال سے  شکریہ کے ساتھ کاپی کی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply