دی سٹیٹ آف خان۔۔۔ عارف انیس

اسلام آباد کی غلام گردشوں میں چند دن گزارنے، تقریباً دس وفاقی اور صوبائی وزراء اور کئی اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات، کچھ اہم ترین ممالک کے ڈپلومیٹک کور سے سمبندھ اور اسلام آباد کے کنگ میکرز کے درشن کرنے کے بعد فی الحال ایک ہی احساس جنم لے رہا ہے کہ آل از ناٹ ویل ان دی سٹیٹ آف خان.

یوں تو دارالحکومت میں موسم بہار، موسم گرما سے ہم آغوش ہو رہا ہے مگر اقتدار کی راہداریوں میں عجب سرد مہری کا دور دورہ ہے. کرسی کے اوپر بیٹھے، اور اس کے گرد کھڑے تمام افراد کسی عجیب سے کھنچاؤ کا شکار نظر آئے. ابھی وہ لمحہ تو نہیں آیا جب غلام مشعلیں لیے بھاگنا شروع کردیں، تاہم ہڑبونگ کا لمحہ کسی وقت بھی نازل ہوسکتا ہے. یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ‘پارٹی از اوور’، مگر یہ کھلم کھلا کہا جارہا ہے کہ ‘یہ کمپنی چلتی ہوئی نظر نہیں آتی’.

بنی گالہ کا خان، اپنی کچھار میں بے تابی سے ٹہل رہا ہے. اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور نسیں پھولی ہوئی ہیں. اس کا دل ایک زوردار باؤنسر مارنے کو چاہتا ہے، مگر پھر وہ دل کڑا کے رہ جاتا ہے، اسے بتایا جارہا ہے کہ اسے خود پر ضبط کرنا ہوگا کہ اگلی پارٹی باؤنسر پر چھکا مارنے میں طاق ہے. اس کے قریب والے اسے دیکھتے ہیں اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ اس خان کو کیا ہوا جس کی دھاڑ سے ایوان لرزتے تھے. قدرے پھولا ہوا چہرہ، آنکھوں پر سوجن، بے تابی اور اضطراب رگ رگ سے پھوٹ رہا ہے مگر وہ کہے تو کس سے کہے؟ اب تو گھر سے بھی برتن ٹوٹنے کی آوازیں آنے لگی ہیں. دعا اور دوا دونوں اثر نہیں کرتے دکھائی دے رہے. دیکھنے والے دیکھتے ہیں تو اس پر اس کے سائے کا شائبہ ہوتا ہے. وہ شخص جس نے اپنے کیریئر کے عروج پر مائٹی ماجد خان کو گھر بھیج دیا تھا، بہت سے معاملات پر اب صرف دانت کچکچاکر رہ جاتا ہے. جاننے والے جانتے ہیں کہ اس کا اضطراب قیامت ڈھائے گا اور بس، اب یہ کچھ دنوں کی بات ہے.

پارٹی میں گھمسان کا رن پڑ چکا ہے اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا. کسی کو معلوم نہیں کہ پارٹی یا ملک کون چلا رہا ہے. گھس بیٹھیے ڈرائیونگ سیٹ کو قبضے میں لے چکے ہیں. صاف پانی والے پانی پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں. مخدوم صاحب اپنی ہی پارٹی پر سرجیکل سٹرائیک کیے جارہے ہیں اور اپنے ہدف کو زچ کرکے خوش ہیں. سرمایہ کار اپنا سرمایہ تیزی سے نکال رہے ہیں. نظریاتی چیتے ہوں یا پیراشوٹیے، جس کے ہاتھ جو لگا ہے وہ سے لے کر بھاگ نکلا ہے. پارٹی کے سب اوپر والی منزل پر ہاتھا پائی شروع ہوچکی ہے اور ایک دوسرے کو اٹھا کر نیچے پھینکنے کی تیاری ہے. نمبر دو اور نمبر تین کی نظریں اور سنگینیں ایک دوسرے پر تن چکی ہیں اور کسی بھی لمحے بزن ہوسکتا ہے.

نوکر شاہی سانس روکے وقت گزار رہی ہے. غیر اعلانیہ طور پر ‘گو سلو’ کی مہم چل پڑی ہے. جس ایف بی آر کے دانت تیز کرکے اسے مؤثر بنانے کے وعدے تھے، اسی کے منہ پر توبڑا چڑھا دیا گیا ہے. گزشتہ حکومتوں پر ٹیکس ایمنسٹی سکیم لانے پر تبرے بھیجے گئے، پیٹ پھاڑ کر ٹیکس کی شرح بڑھانے کے دعوے کیے گئے اور پھر معیشت کا پہیہ جام ہونے پر ایک اور ایمنسٹی سکیم کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے. تیزیاں دکھانے والے وزراء کو انہی کی پارٹی کی تقریروں سے اقوال سنائے جاتے ہیں. اربوں ڈالر کی واپسی کی امیدوں پر پانی پڑ چکا ہے. ٹیکس کے محصولات، جنہیں دگنا کرنے کا دعویٰ تھا، ان کی روایتی کلیکشن میں بھی 300 ارب کا شارٹ فال نوشتہ دیوار نظر آتا ہے. . سٹاک مارکیٹ 330 ارب ڈالر سے سکڑ کر 280 ارب ڈالر رہ گئی کہ بارہ سو ارب قانونی راستے سے پرواز کر گئے. ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی نئی رپورٹ ہوں روح فرسا ہے کہ وہ 2019 ہی نہیں بلکہ 2020 میں بھی پاکستان کی ترقی کی شرح کو پورے خطے میں سب سے نیچے گھسٹتے ہوئے دکھا رہی ہے. ایک طرف سٹیٹ بینک کی شرح سود ساڑھے سات فیصد سے آٹھ کر ساڑھے گیارہ فیصد کی طرف لپکتی نظر آرہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں ایک سو پچاسویں سیڑھی کی جانب نیچے کی طرف زقند لگا چکا ہے.

کشمکش اتنی بڑھ چکی ہے کہ روحانی اور خوانگی معاملات بھی خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں. پیشین گوئیاں اور کشف الٹے پڑنے لگے ہیں. خان کی آزاد طبع پر جو رسے باندھے گئے تھے، اب وہ ٹوٹنے سے لگے ہیں. پنجاب میں جس خوشخبری کو تخت پر بٹھایا گیا تھا، اس کی نااہلی کی وجہ سے مسائل دگنے ہوگئے ہیں. آسمانوں سے نالوں کا جواب آتا نظر نہیں آرہا اور زمین بھی قدرے تنگ ہوتی نظر آرہی ہے.

عوام کی آنکھیں رومانوی چکا چوند سے بھرنے کے بعد اب کھلنے لگی ہیں. لوگ بجلی، گیس اور پیٹرول کے بل پکڑے واویلا کرتے نظر آتے ہیں. جوان خون جو وزیراعظم یونیورسٹی، پچاس لاکھ گھر، پروٹوکول سے نجات اور بے رحم احتساب کے وعدوں پر سر دھنتا نظر آتا تھا، اب بے زار نظروں سے آسمان کو گھورتا ہے.

بادشاہ گروں کی طرف ہل چل شروع ہوچکی ہے. کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ہل چل ابھینندن کی وجہ سے کوئی مہینہ بھر کے لیے تھم گئی تھی، مگر تابہ کے! خان اس دن اپنی کچھار میں بہت زور کا دھاڑا جب عدالت سے سابقہ وزیراعظم کو چھ ہفتے کے لیے رہائی کا پروانہ ملا. خان شریف اور زرداری خاندان کے زن و بچہ کو کولہو میں پلوا دینا چاہتا ہے مگر حالات اور ادارے دونوں ساتھ نہیں دے رہے. ان وجوہات کی بنا پر صدر زرداری کی ہتھکڑیاں بھی ہاتھوں سے اٹھا کر شانوں پر لٹکا لی گئی ہیں.

گزشتہ دس برس سے خان کی بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت، ایک چبھتا ہوا سوال بن چکی ہے. معیشت کے معاملے میں اسد عمر اور گورنیننس کے معاملے میں عثمان بزدار عمران خان کے المشہور ریلو کٹے ثابت ہوئے ہیں. معیشت کے امور کی تھوڑی بہت درک رکھنے والے لوگ جانتے تھے کہ پاکستانی معیشت کے دیرینہ مسائل کی وجہ سے آئی ایم ایف کا پروگرام ہی واحد حل ہے، جس کے بیل آؤٹ پیکج کی بنیاد پر حکومت کو سانس لینے کے لئے دو، تین سال مل سکتے تھے. تاہم گزشتہ سات آٹھ ماہ منکی بزنس پر ضائع کردیئے گیے. متحدہ ارب امارات اور سعودی ولی عہد کو آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا. تاہم بین الاقوامی معاملات کی الف بے جاننے والے بھی سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور بریٹن ووڈ کے ادارے امریکی پالیسیوں کی دفاعی لائن کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اور امریکہ کا ہاتھ جھٹک کر، ان سے معانقہ نہیں کیا جا سکتا. یہی نہیں، امارات یا سعودی عرب کے نخلستانوں سے آنے والی ٹھنڈی ہوا ایک امریکی فون پر جھلسا دینے والی لو میں بدل جائے گی. بدقسمتی سے حکومت کی امریکہ پالیسی بھی تزبذب کا شکار ہے، جس کا ہندوستان بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے.

بیرون وطن پاکستانی جو خان حکومت کے ابتدائی دنوں میں مذہبی جوش و خروش کے ساتھ پاکستان چلو کا ورد کرنے لگے تھے، ایک دم تشویش کے ساتھ اپنے ہاتھ جیبوں میں ڈال کر حالات کا جائزہ لینے لگے ہیں. بیوروکریسی کا سیاسی ڈھانچہ ابھی تک شریف خاندان کی جدائی کو عارضی سمجھتے ہوئے اس کی واپسی کا منتظر ہے، سو تبدیلی کی تلاش میں پاکستان جانے والے، اب واپسی کی فلائیٹیں پکڑنے کے انتظار میں ہیں.

سوچنے سمجھنے والوں کو ماہر نفسیات ڈیننگ کروگر کی یاد آنے لگی ہے جس کی تھیوری کی رو سے، جو بندہ جتنا کم عقل ہے وہ اتنا ہی اپنی مہارت کے بارے میں پر اعتماد ہو کر پھنے خان ہو جاتا ہے. لوگ خان کے اخلاص اور نیتوں کے معاملات الگ رکھتے ہوئے اب اشارے کرتے ہوئے، پھبتیاں کستے ہیں. بہت سوں کا کہنا ہے کہ اگر فائینانشل ایکشن ٹاسک فورس نے بھی پاکستان کو گرے یعنی سلیٹی لسٹ سے اٹھا کر کالی لسٹ میں ڈال دیا تو جو کچھ چھ ماہ میں ہونا ہے، وہ دو مہینے میں ہوجائے گا. یاد دیے کہ نومبر میں کمان کی تبدیلی کا موسم آنے سے پہلے جو کچھ بدلنا ہے، وہ بدل جائے گا. اقتدار کے اس فانی کھیل میں لافانی صرف خدا کی ذات ہے اور صرف وہی بیٹھے رہیں گے، جو ستر سال سے بیٹھے ہوئے ہیں. باقی کچھ گئے، کچھ تیار بیٹھے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply