جمہوریت جیت گئی ،عقل ہار گئی ۔۔۔ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

ایک دفعہ کبوتروں کا ایک غول رزق کی تلاش میں اڑرہا تھا۔ ایک کبوتر نے ایک کھلی جگہ کچھ دانے بکھرے ہوئے دیکھے۔اس نے دوسرے کبوتروں کوبھی متوجہ کیا اورکہا نیچے تازہ اوراچھے دانے بکھرے ہوئے ہیں۔کیا ضرورت ہے رزق کی تلاش میں ہم ادھر ادھر مارے پھریں۔آؤ یہیں اپنا پیٹ بھرلیں۔
ایک بڑی عمر کا کبوتر بولا ۔ رزق آسانی سے ملنا آزمائش سے خالی نہیں۔ مزا تو رزق تلاش کرنے ہی میں ہے کہ محنت ومشقت سے رزق حاصل کیاجائے۔ایک ایک دانہ محنت سے حاصل کیا جائے اور ہر ہر دانے پر رب کی حمدو ثنا بیان کی جائے ۔ ڈھیر کی تمنا حرص و ہوس کی نشانی ہے جو رب سے غافل کردیتی ہے۔اس لئے یہاں نہ اترو یہ ضرور کسی انسان نے ہمارے لئے جال بچھایا ہوگا۔ تمہیں یاد نہیں وہ کہانی جب اس سے پہلے بھی ہمارے آباء دانے دیکھ کر اترے تو پھرجال کا شکارہوگئے تھے ۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
دوسرانوجوان کبوتر بولا:ڈر اورفکر کی کوئی بات نہیں کیا آپ نے وہ کہانی آگے نہیں پڑھی کہ و ہ پورا غول جال سمیت اڑنے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا بلکہ انہوں نے شکاری کو اس کے جال سےہی محروم کردیا تھا ۔سنا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔اگر یہ سازش ہوئی تو ہم پھر اتحاد کا مظاہر کرتے ہوئے وہ جال لے اڑیں گے۔ تھوڑا بہت ایڈونچر ہی کرلیں ۔
پہلا بولا: بھائیوں خواہ مخواہ فتنہ میں پڑنا اچھا نہیں۔ ممکن ہے کہ شکاریوں نے بھی کوئی نئی ترکیب سوچی ہو۔ضروری نہیں ہر دفعہ فتنہ میں مبتلا ہوکر آزادی مل جائے۔ویسے بھی ہم ادھر ادھر اڑکر اپنا پیٹ توبھر ہی لیتے ہیں۔نیز یہ توتمہیں معلوم ہی ہوگا کہ انسان نے سائنس اورٹیکنالوجی میں ترقی کرلی ہے۔ اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہوشیارچوکس، آگاہ اورطاقتورہونے کے ساتھ ساتھ بھوکے بھیڑیوں سے زیادہ خطرناک ہے۔وہ حرص و ہوس کا مارا ہوا ہے۔ رزق کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں پھر بھی بے چین رہتاہے۔ نہ خود سکون سے رہتا ہے نہ کسی کو رہنے دیتاہے۔اس کے پاس اتنا فالتووقت ہے کہ دوسری تمام مخلوقات کے پیچھے پڑا ہواہے ۔ جانوروں اوردیگر انواع واقسام حتیٰ کہ سمندر کی گہرائی میں رہنے والی مخلوق بھی اس عیار کی گرفت میں ہے۔ ایک چِپ کے ذریعے اس کی مکمل حرکات وسکنات ان کی نظروں میں ہے۔جب کہ اللہ کے نیک بندے تو وہ ہوتے ہیں جو اس کے دیئے ہوئے تھوڑے مال پر بھی قانع ہوکر اپنے رب کی حمد وثنا کرتے ہیں۔وہ نہ کسی پر ظلم کرتے ہیں اورنہ ناحق کسی کا حق مارتے ہیں۔ اپنے رب کی خوشی ورضا کے حصول میں محو رہتے ہیں ۔اللہ اللہ کرتے اور اپنی زندگی سکون سے گزارتے ہیں۔لیکن یہ حضرت انسان دوسروں کو قید کرنا،ان پر ظلم کرنا اس کا وطیرہ ہے۔ اور تو اوریہ اپنی نوع(جنس) کو بھی نہیں بخشتا ۔بھیڑیوں پر تو صرف تہمت ہے۔وہ تو جب انتہائی بھوک اورفاقہ میں ہوں اور کئی دن کھانے کو کچھ نہ ملے تو پھر حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اورجس کی آنکھیں بند ہوئی اسے چیرپھاڑ کرکھالیتے ہیں لیکن یہ انسانی درندہ ،تو پیٹ بھرا ہوتا ہے پھر ایسی حرکتیں کرتاہے۔۔۔۔۔ الامان والحفیظ
لیکن عقل مند کبوترکے وعظ ونصیحت کا کسی پر کوئی اثر نہ ہوا اور پھر وہی ہوا۔ جمہوریت جیت گئی ،عقل ہار گئی۔نوجوان کبوتر زیادہ تھے ان ہی کی سنی گئی۔اوریوں تمام کبوتر اپنے خدشات ایک طرف رکھ کر نیچے اترتے چلے گئے کہ پہلے بھی صیاد کے دام میں آکر بھی بچ نکلے تھے اب بھی ایسا ہی ہوگا مشکل آئی تو ہم لازما نکل جائیں گے۔بلکہ شکار ی کا جال بھی لے اڑیں گے اس کی تاریں گھونسلہ بنانے کے کام آئیں گی ۔
لیکن شاید تاریخ دہرانے والی بات کوئی سائنٹفک فارمولہ نہیں کہ ہر دفعہ نتیجہ ایک ہی ظاہر ہو۔اس دفعہ جب تمام کبوتر اترے تو انہیں ان دانوں میں کچھ ایسا سرور ملا کہ وہ کھاتے ہی مست و بے خود ہوگئے ۔ دانے کھانے سے آہستہ آہستہ ان کی تمام تر طاقت ختم ہوگئی۔اور کچھ دیر بعدوہ غنودگی میں چلے گئے۔ لگتا تھا کوئی نشہ آور چیز ان پر چھڑکی گئی تھی۔ انہیں بہت سرور محسوس ہونے لگا۔ عقل مند کبوتر کے روکنے کے باوجودحرص وہوس کے مارے شکم کے ہاتھوں مجبور یہ کبوتر بلندی سے اترتے ہی دامِ صیّاد میں آگئے ۔
لاتا ہے بلندی سے شکم سب کو بہ پستی
طائر کو بھی ہوتے نہ سنا سیر ہواپر
اب ان کی حالت اس مینڈک کی مانندتھی جو ابلتے ہوئے دودھ میں اپنا درجہ حرارت بڑھا کروقتی طور پر خود کو محفوظ سمجھتا ہے یہاں تک کہ درجہ حرارت نکتہ ابال پرپہنچ جاتا ہے جس کے بعد اس مینڈک کے پاس کوئی مہلت نہیں رہتی کہ وہ جان بچالے یوں وہ اپنے ہاتھوں اپنی جان قربان کردیتاہے۔ یہ کبوتر بھی ہلکی سی غنودگی میں چلے گئے اوراس کے بعدجب ان کی آنکھیں کھلیں تو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔یہ سلاخیں توڑنا یا انہیں ساتھ لے کر اڑنا ناممکن تھا۔ اب وہ اپنی بے بسی پرماتم کررہے تھے ۔ جہاں سامنے چند شکاری بیٹھے بہت خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ایک کہہ رہا تھا انہیں سامنے پڑا ہوا جال نظرنہیں آیا۔
دوسرا بولا ارے کبوترمعصوم ،بھولا بھالا(بیوقوف) پرندہ ہے۔۔اتنا سیدھا کہ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتاہے اورسمجھتا ہے کہ اب وہ خطرے سے باہر ہے۔اب وہ شکاریوں کی یہ باتیں سُن اوراپنا سردُھن رہے تھے۔ عقل مند کبوتر نے انہیں کچھ کہنا چاہا لیکن پھر ہمیشہ کے لئے منہ بند کرلیا کہ جب کوئی جانتے بوجھتے آگاہی کے باوجود جال کا شکار ہونا چاہے تو کوئی کتنا ہی عقل مند ودانا ہو وہ کیا کرسکتاہے۔ اب وہاں موجود شکاریوں نے انہیں ذبح کرکے ان کبوتروں کو بہترین مصرف میں استعمال کیا۔ جب یہ ایک ایک کرکے ذبح ہورہے تھے توانتہائی بے بسی سے ایک دوسرے کودیکھ کرآنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے کاش ہم حروص و ہوس میں مبتلا نہ ہوتے اوراس لمحے کو کوس رہے تھے جب انہوں نے عقل کو عددی اکثریت کی بنا پر شکست دی تھی۔وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ (الانعام:116)(اوراے سننے والے زمین پر اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکادیں۔وہ صرف گمان کے پیچھے ہیں اورنری اٹکلیں(فضول اندازے) دوڑاتے ہیں۔)اورایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اس وقت انہوں نے اس عقل مند کی بات کیوں نہ مانی۔اگر اس وقت عقل کا ساتھ دیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
حاصل کلام:
آج کے دور میں ہمارا معاشرہ بھی مختلف جالوں میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ تمام دعویدار جو اس جال اورشکنجہ سے عوام کو آزاد کرانے کا کہتے ہیں ان میں خود دم خم نہیں۔کچھ تو یہ بات جاننے کے باوجود معاشرے کو بیوقوف بنارہے ہیں اوردیگر خود بیوقوف ہیں اورا س نوجوان کبوتر کی کی مانند اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہی نہیں کہ یہ کیاہے یا کیا ہورہا ہے؟اب اس زمانہ میں جعل ساز اورشعبدہ باز اپنی عیاری و مکاری سے ایسے دیدہ زیب ،خوبصورت اورمضبوط جال مارکیٹ میں لے آئے ہیں جن کا توڑ زور و طاقت سے نہیں بلکہ خلوص وللہیت اورحکمت و دانائی سے ہی ممکن ہے۔یہ نہ نظر آنے والے جال ہیں ۔یہ جال مادی کم روحانی اورذہنی زیادہ ہیں۔اب جسمانی غلامی کی اہمیت ختم ہوگئی ۔اس لئے موجودہ جال بھی انسان کو روحانی اورذہنی طورپر غلام بناتے ہیں ۔
اس جال سے ذہن میں آیا کہ آئی ایم ایف بھی ایک جال ہے جو صرف اپوزیشن میں نظرآتاہے ۔ جب کوئی اپوزیشن میں ہوتا ہے تو آئی ایم ایف اسے ایسا شکنجہ وجال نظرآتاہے جو غریب عوام کا استحصا ل کررہا ہولیکن جب وہی حکومت میں آجائے تو خود جاکر اس جال میں پھنسنے کی کوشش کرتاہے۔ اورکبوتر کی مانند آنکھیں بند کرکے دوسروں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے، یہ جانا کوئی گناہ نہیں۔نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم تو آخری بار اس کے پاس گئے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لئے اس سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں۔یہ جانا صرف وقتی و عارضی ہے۔کچھ فوری ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اس کے پاس جانابہت ضروری تھا۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی اورآپشن ہے ہی نہیں۔یوں کرتے کرتے آئی ایم ایف کی تمام شرائط ماننے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
قابل غور نکتہ:جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے اس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ۔ہم بہت ہی نازک دور سے گزررہے ہیں ۔(یہ وہ نازک دور ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتا)ملک دیوالیہ ہورہاتھا۔ہمیں خزانہ خالی ملا اور ہمارے پیش روبدترین کرپٹ تھے اور وہ سب خزانہ خالی کرگئے اور لوٹ کھسوٹ کرلے جاچکے ہیں۔ہم ایک ایک پائی ان کرپٹ حکمرانوں سے واپس لیں گے۔ عوام کا لوٹا ہوا پیسا واپس لایا جائے گا۔ (حالانکہ سابق حکمرانوں کی پوری ٹیم چند ناموں کی تبدیلی سے ان کا مکمل حصہ ہوتی ہے۔گویا جو ان کی پارٹی میں آگیا توسمجھووہ ڈرائی کلین ہوگیا یا دودھ سے دھلا ہوا ہوگیا۔)
مزید کہتے ہیں کہ ملک ہے تو ہم ہیں ۔ ملک بچانا ہے۔ اسے سنوارنا ہے۔اس کے لئے عوام کو مزید بوجھ برداشت کرنا پڑے گا اگر پہلے وہ دو روٹی کھاتے تھے تو اب ایک کردیں۔۔۔یہ کہتے ہوئے اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار کردی جاتی ہے۔روپے کی قدرگھٹا دی جاتی ہے ،پٹرول ،گیس،بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتاہے ۔ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ دبی عوام کی مزید کمر توڑدی جاتی ہے۔ ملک جو بچانا ہے!
جانے والی حکومت یہ راگ الاپتی ہے اور یہ رونا روتی ہے کہ ہمیں موقع ہی نہیں ملا ورنہ ہم تو فلاں فلاں ترقیاتی کام کرواتے،دودھ اورشہد کی نہریں نکالتے۔ اگرچہ انہیں پورے پانچ سال ہی کیوں نہ ملے ہوں ۔ ایسا ہی ہوتاہے۔بہرحال یہ کچھ اشارے ہیں اس سے زیادہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں ۔ ورنہ ہمارا حال تو جناب بشیر بدر صاحب کے شعر میں پیش کی گئی فاختہ کی طرح ہے :
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں
خلاصہ کلام:
حقیقت یہ ہے کہ بیوقوف انسان جانتے بوجھتے ان عیاروں کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں،ان جعل ساز ،شعبدہ باز عیاروں کے شعبدوں کوحق جانتے ہوئے مان لیتے ہیں اورہردفعہ ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں۔بعینہ جس طرح محبت کی ماری سادہ لوح ماں اپنے سرکش وباغی بیٹے کی فطرت سے واقف ہونے کے باوجود خود کو بیوقوف بناتے ہوئے اس کے گناہوں کو معاف کردیتی ہے۔ اورخود کو جھوٹی تسلیاں دیتی ہے کہ شاید اب وہ سدھر جائے ۔ حالانکہ ڈھاک کے تین پات۔پرنالہ وہیں رہتاہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ابلیسی جالوں اور طاغوتی قوتوں سے محفوظ رکھے ۔آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply