پُھلاں بی۔۔۔محمد خان چوہدری

یہ کہانی، لفظ بہ لفظ دھیرے دھیرے پڑھنے سے سمجھ آئے گی!

“پھُلاں بی بی”

عجیب زمانہ تھا،
نر پسندی، کا یہ حال کہ کسی کے بیٹی پیدا ہونے پر باقاعدہ تعزیت کی جاتی،اور کسی کی گاۓ وچھی دے،گھوڑی وچھیری جن دے اور چھوڑ پالتو نسل کی کُتی کے بچوں میں نر کم اور مادہ زیادہ ہوں تو اس کو بھی پرُسہ دیا جاتا۔

اس سے استثنٰی  دو تھے۔۔ ایک بھینس اور دوسری کھوتی،کھوتی کے بچہ دینے کی خبر تو کمہاروں کے ہاں سے آتی اور بھینسیں کٹا یا کٹی کے ہمراہ پنجاب سے لائی  جاتیں۔۔اور خشک ہونے پر وہاں بھیج دی جاتیں،کٹا واحد ناپسندیدہ نر تھا جو اکثر شیر خواری میں ہی مر جاتا۔

بیٹیاں اور جملہ دیگر جانوروں کی مادہ اولاد شیر خواری اور اس کے بعد بھی بچی کھچی غذا یا اؤکھر کھا کے پل ہی جاتیں،گھی دودھ اور اچھی خوراک انسانوں، جانوروں اور کتے کے نر بچوں کا حق ہوتی۔

اسی طرح بود و باش میں بھی تفریق تھی،بیٹی کو جہیز میں جو مل جاتا بس وہی  اس کا حق سمجھا جاتا،آبائی  گھر اور جائیداد کے بیٹے اور پوتے ہی وارث ہوتے۔

اس ماحول میں جب صوبیدار فتح خان نے ا پنی بیٹی کو شادی پر  ایک کنواں اور اس سے ملحقہ پچیس بیگھے زمین دی  تو علاقے میں شور مچ گیا

صوبیدار صاحب اگر فوج میں ملازم نہ ہوتے یا دوران سروس فیملی ساتھ رکھتے تو ان کے آٹھ دس بچے ضرور ہوتے،ان کے بس دو بیٹے تھےاور بیٹی  ریٹائرمنٹ کے بعد پیدا ہوئی۔۔۔
اور نام پھول بیگم رکھا گیا جو پھُلاں بن گیا۔

پھُلاں کے ہاں اوپر تلے چار بیٹیاں پیدا ہوئیں،بڑی دونوں کو نانی نے سنبھالا اور چھوٹی دونوں ایک ایک سال کی ہونے سے پہلے فوت ہو گئیں،اور اب صوبیدار صاحب کو بھی مقامی روایات اور رسم و رواج کی سمجھ آ گئی۔

تو انہوں نے دونوں نواسیوں کو ، جائیداد اپنے گھر رکھنے کے لئے
اپنے پوتوں سے بیاہ دیا،اور آگے ان دونوں میں ایک کے ہاں بیٹا اور دوسری کے بیٹی ہو گئی۔

یہ دونوں بچےجب جوان ہوۓ تو صوبیدار صاحب فوت ہو چکے تھے
اور خاندان میں سب سے زیادہ فعال پھُلاں ہی تھی،

بھائی  تو بہت بوڑھے اور لا چار ہو چکے تھے ،پھُلاں نے ان دونوں بچوں کی باہم شادی کی۔۔اور اپنے پاس اپنے گھر رکھ لیا۔بھائیوں اور ان کے خاندان سے علیحدہ   کر لیا،

شادی کے تین ماہ کے اندر پھُلاں نے یہ محسوس کر لیا کہ نسل در نسل خاندان میں ہی شادی ہونے کے سبب ،ان کے بچہ ہونا مشکل تھا۔۔اوپر سے گاؤں کی عورتوں نے دلہن سے خوشخبری کا پوچھ پوچھ کے اور حشر کر دیا، تو وہ ان دونوں کو شہر میں ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔۔

چیک اپ میں لڑکی ٹھیک تھی،نقص لڑکے میں تھا،

تاریخ نے پلٹا کھایا،زمام کار پھُلاں کے ہاتھ میں تھی،
تو اس نے اپنے ایک جوان شادی شدہ ملازم جس کے ہاں آگے پیچھے تینوں بیٹے پیدا ہوۓ تھے،اسکو اعتماد میں لیا۔۔۔نوکرسب رہتے اس کے گھر میں تھے۔۔

نوکر کے بیوی بچوں کو ان کے گاؤں بھیجنے کے بعد،نوکر اور لڑکی کو تنہائی  میسر کرنا کوئی مشکل نہ تھا،

پھر ایک دن جب صوبیدار مرحوم کے ڈیرے پر  سارا خاندان ان کے بیٹوں کی موجودگی میں اس کنویں اور پچیس بیگھے زمین کو ۔ واپس لینے کا منصوبہ بنا رہے تھے تو پھُلاں بی بی نے وہاں جا کر سب کے سامنے اپنے ہونے والے پڑ پوتے اور پڑ نواسےکی خوش خبری دی۔مٹھائی تقسیم کرتے ہوۓ اعلان کیا۔۔کہ وہ یہ زمین اس ہونے والے بچے کےنام کرے گی۔۔اور ہونے والے مولود کا نام بھی بتایا کہ فتح خان ہو گا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نہیں سمجھ آئی ؟۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply