گڑیا ۔۔۔۔ارشد علی/افسانہ

سردیوں کے دن شروع ہو چکے تھے ۔۔۔اور اماں بھی اسے متعد د بار کہہ چکی تھی کہ رضائیاں بستر نکال کر دھوپ لگوالے تاکہ استعمال کے قابل ہو سکیں لیکن ایک تو اس کی صبح سے شام تک کی بے انتہا مصروفیت نے موقع نہ دیا اور دوسرا وہ پیٹی کے قریب جانے سے دانستہ گریز کرتی تھی اور جب تک ضرورت ، مجبوری کے درجے میں داخل نہ ہو جائے پیٹی نہیں کھلتی تھی۔

وہ اپنے والدین کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی لیکن عرصے سے ایسے فرائض سنبھالے ہوئے تھی جن کی انجام دہی کا اس عمر میں تصور بھی محال ہے۔ گزشتہ 6 برسوں سے وہ نہ صرف 65 بچوں کے پرائمری سکول کو واحد ٹیچر کی حیثیت سے چلا رہی تھی بلکہ اس کے علاوہ اسے تمام تر گھریلو ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہونا پڑ تا تھا۔ اگر یہاں تک ہوتا تو بھی شاید گزاراتھاپر اس کے پاس مختلف کاموں کے لیے آنے والوں کا تسلسل بھی کبھی نہ ٹوٹتا۔
’’باجی ! یہ سوٹ تو کاٹ دے۔۔۔‘‘
’’باجی ! موبائل میں کارڈ فیڈ کر دے۔۔۔‘‘
’’باجی ! ذرا بازار تک چل لے۔۔۔‘‘
’’باجی۔۔۔باجی۔۔۔باجی۔۔۔‘‘
ابھی اس کی عمر تو لگ بھگ بائیس برس تھی لیکن گاؤں میں استانی کی حیثیت کی وجہ سے اسے احتراماً باجی ہی کہا جاتا۔

وہ جب پیدا ہوئی تب اس کے باپ کے علاوہ کسی نے خوشی کا کھل کر اظہار نہ کیا ، بلکہ کسی نے خوشی کا اظہار کیا ہی نہ تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ پیدائش سے قبل ہی بھانجا بھانجیوں والی ہو چکی تھی۔ اس کے مہینوں بعد تک اس کی ماں اڑوس پڑوس کے گھروں تک میں جانے سے کتراتی رہی۔ لہٰذا ماں کی جانب سے اسے کبھی بھی بحیثیت بیٹی اس طرح اپنایا ہی نہ گیا جیسے کہ وہ حق دار تھی۔ رہ گیا باپ تو اسے بہرحال اس سے بے تحاشا پیار تھا۔ اور وہ جب تک زندہ رہا اس نے اس کے نازو نخرے اٹھانے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔جب وہ پیدا ہوئی تو کریم داد نوکری کے آخری حصے کو تھا۔ اور ایک عرصے سے کبھی سال چھ مہینے بعد ایک آدھ دن کے لیے گھر کا منہ تکتا تھا لیکن اب وہ باقاعدگی سے دوسرے تیسرے مہینے آنے لگا۔ طویل عرصے بعد اس کے خطوط بھی وقت پر ملنے لگے۔ پر خط بھی کیا تھے ۔
مانی کیسی ہے؟
میری بیٹی کا خیال رکھنا ،
اُسے ڈھیر سارا پیار ۔۔۔
وہ ٹھیک تو ہے۔۔۔
بہت یاد آتی ہے۔۔۔
اور ایسے ہی لاتعداد جملوں کا جال بُنا ہوتا۔ ایک آدھ لائن باقی سب کے حال احوال کے واسطے اور بس۔۔۔۔

جب پِنڈ میں دِتُّو کے گھر پہلا فون لگا تو کریم داد نے ایک نئی عادت پکڑ لی۔ اب وہ ہر جمعہ کو گیارہ بجے گھر سے نکلتا۔ پی سی او پہ پہنچتا، بٹوے میں موجود نمبروں کی کاپی پہ درج واحد نمبر آپریٹر کے سامنے رکھتا اور گھنٹی ہوتے ہی رسیور بے تابی سے تھام لیتا۔ اسے نہ چاہتے ہوئے بھی کم از کم دو منٹ لازماً دِتُّو سے پِنڈ کی ، ڈنگروں ، فصلوں، پانی ، ہل، بوائی ، کٹائی اور دیگر موضوعات پر بات کرنا پڑتی۔ آخر وہ منت آمیز لہجے میں کہتا
’’ اچھا بھا دِتُّو بچہ بھیج کے ناجو کی ماں نے تو بلا دے۔‘‘ دتو شاذو نادر انکساری اور اکثر ایسے انداز میں جس سے اس تکبر کااظہار ہوتا کہ پورے پنڈ میں کلا فون میرے گھر ہے، کہتا ’’ہلا چل فیر انتظار کر۔‘‘
’’اور ہاں اسے کہیو مانی کو ساتھ لائے۔ ‘‘
’’ہلا ہلا‘‘
اوراس کے ساتھ ہی دتو فون منقطع کر دیتا ۔ اوروہ گھڑی کی سوئیو ں پر ٹنگا انتظار کا آدھ گھنٹہ پورا کرتا ، پھر پانچ دس منٹ احتیاط کے ملانے کے بعد پی سی او والے سے کہتا ’’اچھا بھائی اِب ملا ‘‘ اس کا یہ معمول طویل عرصے تک برقرار رہا۔ اور نہ معلوم کب تک چلتا کہ ایک روز فون سننے مانی ہاجرہ کے ساتھ نہ آئی۔ وجہ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ سیڑھیوں سے پھسلنے پر چوٹ لگ گئی تھی۔ کریم داد کے جسم کا رواں رُواں کانپ اٹھا اور وہ فون چھوڑ چھٹی کی عرضی دے  کر شام کی گاڑی سے گھر روانہ ہو گیا۔ اگلے دن پو پھوٹنے سے پہلے وہ گھر تھا۔ جاتے ہی اس نے مانی کو گود میں اٹھایا او رسسکنے لگا۔ اس دن ہاجرہ نے پہلی بار اُسے روتے دیکھا ۔ خیر مانی تو دو چار دن میں ٹھیک ہو گئی پر اُس کا دل نوکری سے ہمیشہ کے لیے اچاٹ ہو گیا۔ جب چار دن بعد وہ واپس ہوا تو انتیس سالہ دورِ ملازمت میں پہلی بار اتنے دکھی دل کے ساتھ لوٹا تھا۔ پھر اس تڑپ نے اسے وہاں رکنے نہ دیا اور وہ کوئی دو چار مہینوں میں ہی پنشن پر  آگیا۔ واپس آکر اس نے بیٹھک میں گولیوں ٹافیوں کی دوکان کر لی اور کچھ سامان کریانے کا بھی ساتھ میں رکھ لیا۔
پنڈ آنے کے بعد کریم داد کی زندگی کا محورصرف مانی تھی اور اس نے حقیقتاً اسے کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ وہ ہر وقت اس اندیشے میں مبتلا رہتا کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو اس کا کیا بنے گا۔یہ تو رُل جائے گی۔ اسی لیے وہ بیش تر وقت مستقبل کے تانے بانے بننے میں گزارتا کہ کیسے مانی کی زندگی کو سہل بنایا جا سکتا ہے۔ اس نے سارے ٹبر کی مخالفت مول لے کر نہ صرف مانی کو سکول داخل کروایا بلکہ یہاں تک کہا کہ میں اپنی دھی نوں شہر وڈے گیٹ والے کالج وی پڑھاؤں گا۔ فیر ایہہ ماسٹرنی لگے گی۔ اس کی اس حرکت پر بہت لے دے ہوئی اور برادری کے وڈ وڈیروں نے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ بچی کو سکول بھیج کر شرک کا مرتکب نہ ہوبلکہ جیسے پہلیوں کو نماز سپارہ سکھا کے اپنے اپنے گھر کا کیا، اس کا بھی یوں ای کر۔ پر جب وہ کسی طور نہ مانا تو اس سے قطع تعلق بھی کیا گیا لیکن آہستہ آہستہ سب کو اس کے ارادے کے آگے ہار ماننا پڑی۔ کریم داد روز رات پڑے مانی کو لے کر بیٹھ رہتااور کبھی کسی تصویر ، اور کبھی کسی لفظ پر انگلی رکھ کر پوچھتا ۔ پُتری یہ کیا او رمانی یہ نہ جانتے ہوئے کہ باپ تو صرف اپنے جذبے کی تسکین کر رہا ہے ، ہمیشہ درست جواب دینے کی کوشش کرتی۔
مہینے میں ایک بار لازماً کریم داد کو دوکان کے لیے سامان لینے شہر جانا پڑتا۔وہ پورا دن اس کے لیے مانندِ عذاب ہوتا۔ تمام وقت اس کی نگاہیں اشیاء ، زبان بیوپاریوں اور ذہن پِنڈ کی گلیوں میں الجھا رہتا۔ اور جب شام کو وہ ریڑھے پہ سامان لدوا کر گھر پہنچتا تو دروازے میں سے ہی مانی کو پکارنے لگتا۔ وہ باپ کی آواز پر بانہیں پھیلائے اس کی سمت دوڑی چلی آتی یا بستر میں چھپ کر پکارنے لگتی
’’بابا مجھے ڈھونڈ لو‘‘
اور وہ جانتے ہوئے بھی اس وقت تک مانی کو چارپائی تلے ، کبھی دروازے یا پردے کے پیچھے ڈھونڈتا رہتا جب تک ’’ مجھے ڈھونڈ لو‘‘ کی صدا لگاتی مانی بابا کی شکست کے احساس سے پیدا ہونے والی دھیمی دھیمی ہنسی روکنے کی کوشش میں اونچا اونچا ہنسنا شروع نہ کر دیتی اور یہی وہ پل ہوتا جب وہ لپک کر اُسے اٹھا لیتا۔
’’ اوہ تُو یہاں پڑی ‘‘ اور وہ مزید کھلکھلا کر ہنسنے لگتی۔ او رپھر سنجیدہ ہوتے ہوئے کہتی
’’ بابا میرے لیے کیا لائے ؟‘‘
اور وہ فوراً ایک لفافہ اس کی جانب بڑھا کے کہتا ۔
’’دیکھ لے ۔‘‘
یہ وہ پل ہوتا جب اس سوچ سے کہ مانی کو میری لائی شے پسند آئے گی یا نہیں، چند لمحوں کے لیے شاید اس کے بدن میں لہو کی گردش بھی یوں ٹھہر جاتی جیسے اس کی آنکھیں مانی کے چہرے پر ۔ جب مانی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی تو اس کا دل جیسے ازسرِ نو دھڑکنے لگتا۔ اس کا اس حد تک لاڈ پیار ہاجرہ کو انتہائی ناگوار گزرتا۔اور وہ جب بھی موقع دیکھتی اسے کہہ گزرتی
’’ اتنے چونچلے نہ کر۔۔۔ آخر کو پرایا دھن ہے۔ کلیں پتا نہیں قسمت میں کیا ہو۔‘‘
اور وہ ہر بار ہنس کر ٹال دیتا یا غصے میں کہتا،
’’ تَیں جا اپنا کام کر‘‘

ایک روز وہ شہر سے لوٹا تو خاصا تھکا تھکا تھا۔ لہٰذا آتے ہی لیٹ گیا۔ رات کے پچھلے پہر وہ اٹھا او رمانی کی ماں کو پاس بلا کرکہنے لگا
’’دیکھ ناجوکی ماں ، زندگی موت کا تو مالک نے پتا پر میں اچھے بقتوں میں پنشن تیرے ناں لگوا دی تھی۔ تو بس میری مانی کا کھیال رکھیو۔ ار دیکھ اُس کا ہاتھ برادری ماں نہ دیو۔ مَنّے ڈر ہے کہیں میری دھی رُ ل نہ جاوے۔‘‘
اور یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھراگئی۔ ہاجرہ جو قدرے ناگواری سے اُٹھی تھی یک دم پریشان ہوتے ہوئے بولی
’’ ہائے کیا ہویا ۔ تیری طبعیت ٹھیک ہے۔ دوائی کھائی تھی ۔‘‘ اس نے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔
’’ کتنی واری کہا دوائی ماں ناگا نہ کرا کر۔ ٹھہر میں دودھ گرم کر کا لا ری فیر گولی لِیو۔ ‘‘
وقت کے پہیے کی اپنی ایک رفتا ر ہے۔ کسی کو ساتھ لیے چلنے کے لیے نہ اس کی رفتا ر میں کمی آتی ہے اور نہ کسی کے ساتھ چلنے کے لیے تیزی۔ اگر کوئی اس کی رفتار کا ساتھ نہ دے پائے تو یہ اُسے روند کر گزر جاتا ہے۔
کریم داد کی بیوی جب واپس لوٹی تو وقت کا پہیہ تھک کر رُکنے والے کریم داد کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل چکا تھا۔ مانی کی جب آنکھ کھلی تو اس نے باپ کے سرہانے ماں کو روتے او رگرد ایک ہجوم دیکھا تو گھبرا گئی او رباپ کو اونچا اونچا پکارنے اور جواب نہ پا کر اس سے زیادہ اونچی آواز میں رونے لگی۔ اب تو شاید یہ اس کی فطرت بن چکی کہ وہ جب بھی باپ کو پکارے تو رونے لگتی ہے۔ پہلے پہل کئی دن تک وہ چارپائیوں، پردوں اور دروازوں کے پیچھے باپ کو ڈھونڈتی رہی لیکن پھر اس نے باپ کی تصویروں ، بستر ، چارپائی اور کمرے پر اکتفا کر لیا۔ اسے جب بھی باپ سے ملنا ہوتا وہ تصویریں لیے اس کی چارپائی پر آبیٹھتی اور کہتی،

’’بابا ! ایسے تو نہیں کرتے جیسے آپ نے کیا ۔۔۔ وہ بھی اپنی لاڈلی پتری کے ساتھ ۔۔۔!‘‘ پھراس کے آنسو ان تصویروں سے گھنٹوں باتیں کرتے۔ گزرتے وقت کے اثرات سے اس اثاثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک روز اس نے تمام اسباب جمع کیا او ربابا کی تمام یادوں کو ان کی مانی سمیت پیٹی میں بند کر دیا۔
اس دن کے بعد سے وہ کریم داد کی مانی نہیں ہاجرہ کی فردوس تھی جسے اپنے گھر کو چلانا تھا ۔۔۔بوڑھی ماں کو سنبھالنا تھا۔۔۔ اور دنیاکی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے اپنے دامن کو کانٹوں سے بھی محفوظ رکھنا تھا۔
فردوس ایک خاموش طبع اور سخت دل انسان تھی جسے نہ کبھی ہنستے دیکھا گیا اور نہ روتے۔ کسی تہوار ، عید ، بقرعید ، شب برأت ، شادی بیاہ پر اس نے کبھی چوڑیاں چڑھائیں ، نہ مہندی رچائی۔ اسے جب معلوم پڑتا کہ دنیا میں کوئی اس سے زیادہ مشکلات کا شکار ہے تو طمانیت کی لہر اس کے اندر دوڑ جاتی۔ اور اگر کوئی خدانخواستہ کسی کے لیے ہمدردی کے دو بول اس کے سامنے بول دیتا تو ا س کے تن بدن میں آگ لپکنے لگتی۔ اس کا جی چاہتا کہ کسی طرح اس کا منہ نوچ لے۔اس کے گرد بنے اس مضبوط خول پر چوٹ اس صورت میں پڑتی تھی جب اس کا ماضی کسی بھی شکل میں زندہ ہو کر اس کے سامنے دھڑکنے لگتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سردیوں کے دن شروع ہو چکے تھے ۔۔۔اور اماں بھی اسے متعد د بار کہہ چکی تھی کہ رضائیاں بستر نکال کر دھوپ لگوالے تاکہ استعمال کے قابل ہو سکیں لیکن ایک تو اس کی صبح سے شام تک کی بے انتہا مصروفیت نے موقع نہ دیا اور دوسرا وہ پیٹی کے قریب جانے سے دانستہ گریز کرتی تھی اور جب تک ضرورت ، مجبوری کے درجے میں داخل نہ ہو جائے پیٹی نہیں کھلتی تھی۔
اس دن وہ جیسے ہی سکول سے آئی، آتے ہی بیگ رکھ کر گاؤن اتارا او رپیٹی پر سے بکسے اتارنے لگی۔ اماں نے کہا بھی کہ پہلے کچھ کھا لے پر اس نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں صرف نہیں کہا۔ اور پیٹی کا ڈھکن اٹھا کر دیوار کے ساتھ ٹیک دیا۔آنکھیں بند کر کے رضائیاں کھینچنے کے لیے ہاتھ پیٹی میں ڈالا تو اس کا ہاتھ براہِ راست کسی ملائم سی چیز پر جا پڑا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ پریشانی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ انتہائی عجلت میں اس نے ایک لفافہ باہر نکالا جس کے ایک جانب سے گتے کا ڈبہ زمین پہ آگرا۔ اس نے جھپٹ کر ڈبہ اٹھایا او رتیزی سے کھولا تو ڈبے میں سے ایک گڑیا برآمد ہوئی۔ گڑیا جو کسی زاویے سے قابلِ دید تو کیا قابلِ توجہ بھی نہ تھی۔ جس کے نصف سر کے بال ادھڑ چکے تھے او رباقی کے نصف خاردار جھاڑیوں کی مانند آپس میں الجھے ہوئے تھے۔ جسم پر موجود او رزمین پر بکھری گلابی کترنوں کو دیکھ کر یہ قیاس بھی ممکن نہ تھا کہ یہ ٹکڑے کبھی ایک خوبصورت فراک کی مانند باہم جُڑے ہوئے تھے۔ بے نور آنکھیں بے رنگ ہو چکی تھیں۔ ناک ہونٹ ، کان کترے ہوئے تھے۔ غرض گڑیا کا کوئی نقش بھی قابلِ شناخت نہ تھا۔ اور وہ اس ادھ کچلے وجود کو سختی کے ساتھ سینے سے بھینچے دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply