سیاسی عمل یا سیاسی دیوالیہ پن۔۔۔زاہد سرفراز

ریاست جموں و کشمیر وہ ریاست ہے جہاں کی سرزمین تو سرسبز و شاداب ہے مگر یہاں آج تلک کوئی ایسا شخص پیدا نہ ہو سکا جو تاریخ کے دھارے کو بدل سکے یا کم سے کم اس قوم کے لیے آزادی کی کوئی راہ ہی متعین کر جاتا ہم دانش ور ہیں مگر ہماری دانش آج تک مسئلہ کشمیر کا کوئی واضح حل پیش کرنے سے قاصر ہے ہم سیاسی کارکن ہیں مگر ہمارا سیاسی عمل جذباتی پن اور خیالی فلسفوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔

ملاحظہ ہو کہ ہم ریاست کے نام پر متفق نہیں ہیں مگر آج تک اس کا کوئی نام تک تجویز نہیں کیا جا سکا ہمارا کوئی متفقہ قومی پرچم موجود نہیں ہے اسکے باوجود ہم اپنا ایک ریاستی پرچم تک تخلیق نہیں کر سکے جو ریاست کی وحدت کی پہچان بنتا ،جو ریاست کی تمام اکائیوں کی نمائندگی کرتا ،ہم ایک قوم ہیں مگر ہم اس قوم کو کسی چیونٹی کی طرح اتنے ان گنت ٹکڑوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں کہ قوم کی پہچان ہی ممکن نہیں رہتی ،ہمارا کلچر ہمارا ثقافتی ورثہ ایک ہے مگر ہم اسے مقامی سطح پر ایسی بھول بھلیوں میں گم کر دیتے ہیں کہ اس کی شناخت ہی ہم سے کہیں کھو کر رہ جاتی ہے ،ہمارا تاریخی پس منظر ایک ہے مگر ہم مستقل تقسیم کا شکار ہیں۔۔

نظریاتی اعتبار سے ہمارے ہاں سیاست تین حصوں میں منقسم ہے ترقی پسند، قوم پرست اور روایتی سیاسی پارٹیاں۔۔ اگر ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کو انکی منزل کے اعتبار سے ایک سمجھا جائے تو پھر سیاسی منظر نامے کے دو حصے ہوں گے، ایک آزادی پسند اور دوسرے الحاق پسند، الحاق پسند پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں مگر اس قدر بے یارومدگار ہیں کہ وہ خواہ ریاست کے اس طرف ہوں یا اس پار ،ہر دو طرف بھارت اور پاکستان کا کوئی بھی ادنٰی سا فرد انھیں لمحوں میں بے توقیر کر دیتا ہے ،آئے روز گالیاں کھاتے ہیں مگر پھر بھی قومی غیرت سے نا آشنا ہی رہتے ہیں، دہلی اور اسلام آباد کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں مگر وہاں کوئی چپڑاسی تک انھیں گھاس نہیں ڈالتا حتی کہ قومی غیرت کے حقیقی دعوے دار آزادی پسند بھی ریاستی وزیر اعلی یا وزیر اعظم کی بے توقیری اور گالیاں سننے پر اپنا سر دھنتے ہیں، یہ سیاسی خلیج اس قدر وسیع ہے کہ درمیان میں دیوار برلن کی طرح نفرت کی ایسی دیوار حائل ہو گئی ہے جو ایک طرف کی سوچ اور فکر تک دوسری طرف نہیں پہنچنے دیتی ۔۔۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟؟

وہ اس لیے ہے کہ ہم ایک دوسرے کے سیاسی حقوق کو تسلیم نہیں کرتے، اگر کوئی آزادی پسند ہے تو وہ کسی ریاستی باشندے کے اس سیاسی حق کو تسلیم نہیں کرتا کہ  وہ الحاق جیسا سیاسی نظریہ اختیار کر لے جبکہ وہ بھی ریاست ہی کا باشندہ ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہماری فضائیں “الحاق کا جو یار ہے وہ غدار ہے وہ غدار ہے” جیسے نعروں سے معمور ہیں، یہی وجہ ہے کہ کوئی الحاق پسند بھی آزادی پسندوں کو یہ حق دینے کو تیار نہیں ہے کہ وہ خودمختاری کی بات کریں اسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوا کہ متفقہ طور پر کوئی قومی بیانیہ پنپ سکے یا مجموعی طور پر ہماری قوم میں آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا تصور ہی اجاگر ہو سکتا ۔یہاں تو اکثریت خود کو غلام ہی نہیں سمجھتی تو آزاد فضاء میں سانس لینے کا خیال کہاں سے پیدا ہو گا، ہر دل میں آزادی کی امنگ کیونکر پیدا ہوگی جو ممولے کو شہباز سے لڑا دے گی، نفرت کی اس فضاء نے  برسوں سے سرکاری نوکریوں پر بھی پہرے بٹھا رکھے ہیں یہاں تک کہ ہمارا نوجوان معاشی بدحالی سے تنگ آ کر بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہے ،آزادی پسندوں میں سے کچھ نے تو یہ فتویٰ تک ایجاد کر رکھا ہے کہ جو سرکاری نوکری حاصل کرے گا وہ غدار ہے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ مقامی معیشت جو قابض قوتوں نے مکمل طور پر ختم کر دی ہے جسکی عدم موجودگی کے باعث ہمارا مزدور بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور تو تھا ہی ہمارا برین ڈرین بھی ہوتا چلا گیا ،اس طرح ہمارا دماغ بھی پرائے دیس جا بسا، اپنی غلط سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے آزادی پسند جب مقامی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہو گئے تو انکا تیار کردہ کیڈر روایتی پارٹیوں کی نظر ہو گیا اور پھر انھی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے لگا ۔گھر کا بھیدی تھا جس نے لنکا ڈھائی مگر ہم نے بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں یا کسی طوفان کے ڈر سے شترمرغ کی طرح اپنا سر ریت میں دے رکھا ہے اور ہماری عقلوں پر پردے پڑ چکے ہیں کس قدر مجبور ہیں معذور ہیں محکوم ہیں ہم؟
ہماری حقیقی حالت کیا ہے؟
محکومی نے ہر ادراک ہم سے چھین لیا ہے پھر ایسے سوالات اور انکا حل کون تجویز کرے گا اسکے باوجود ان سب مسائل کا حل اور تدارک کیا جانا بھی اشد ضروری ہے کیونکہ اسکے بغیر اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے ہم جو قومی جمہوری انقلاب کا نعرہ دینے والے ہیں ہم نے مقامی معیشت کی بحالی کا آج تک کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی اس مسئلے کو ہی قوم کے سامنے رکھا جبکہ ہم معروضی حالات کو مد نظر رکھ کر جدوجہد کرنے کے قائل تھے اس طرح قومی جمہوری انقلاب جو جمہوری قوتوں کے زیر اثر قومی پیداواری عمل میں ترقی کے باعث ظہور پذیر ہونا تھا محض ایک خیالی نعرہ بن گیا کیونکہ زمین پر قومی معاشی انفرا اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنا تو دور کی بات ہے یہاں سرے سے مقامی معیشت ہی موجود نہیں ہے۔ ہم مکمل طور پر غیر ملکی قوتوں کی معاشی منڈی بن چکے ہیں جسکے لیے ہم بیرون ملک جا کر نوکریاں یا کاروبار کرتے ہیں اور غیر ملکی منڈیوں کے مال کی کھپت کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں ایسے ہی طبقاتی جدوجہد والوں نے ریاست میں خیالی طبقات دریافت کر لیے اور پیپلزپارٹی مزدوروں کی روایت بن گئی۔ اسی طرح مہاراجہ کے سپوت نمودار ہوئے جن کا فریضہ تاریخ درست کرنا تھا انھوں نے تاریخ ایسی درست کی کہ تقسیم کے عمل کو کسی عمل انگیز کی مانند مزید تیز کر دیا جس نے علاقائی قومیتوں کو جلا بخشی نفرت کی ایسی فضاء قائم ہوئی کہ آزادی پسندوں میں بھی غدار ہی دریافت ہونے لگے۔۔ ان گنت چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بنتے بنتے تقسیم در تقسیم اور نئے سے نئے سیاسی گروپ بننے کا عمل ہنوز جاری ہے جسکی روک تھام کے لیے آج تک کسی بھی ترقی پسند یا قوم پرست گروپ کی طرف سے کوئی سیاسی حکمت عملی واضح نہیں کی گئی مگر بات قومی وحدت کی، کی جاتی ہے پھر  ان سوالات پر کہاں غور کیا جانا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہے یا نفرت کو کیونکر ختم کیا جا سکتا ہے یا پھر ایسا کونسا طریقہ کار ہو گا کہ ہم دو قدم ہی سہی آگے تو بڑھ سکیں گے ۔بہرحال نفرت کے خاتمے کا حل تو یہ ہے کہ ہم جذباتی پن سے باہر نکل کر اپنے سیاسی عمل کو شعوری بنیادوں پر استوار کریں اور ایک دوسرے کے سیاسی حقوق کو تسلیم کر لیں جو الحاق چاہتا ہے وہ الحاق کی بات کرتا رہے اور جو خودمختار رہنا چاہتا  ہے  وہ اس پر دلائل دے کر اپنی فصیل اٹھائے۔ ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت کی جائے تاکہ جاندار مشترکہ قومی بیانیہ تشکیل دیا جا سکے ہم ایک دوسرے کے قریب آ سکیں ایک دوسرے کو اپنا نقطہ نظر سمجھا سکیں ،مفاد پرستی کا خاتمہ ہو اور آزادی پسند بھی کہیں جا کر پریشر گروپوں سے نکل کر سیاسی پارٹیوں میں تبدیل ہو سکیں، پھر تب ہی کہیں جا کر یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ فتح حق کی ہو گی اور حق خودمختاری کے علاوہ کچھ اور ہے ہی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تو رہا باہم مل بیٹھنے کا لائحہ عمل۔۔ پھر رہ جاتی ہے یہ بات کہ کشمیر کے مسئلے کا حل کیا ہو گا اور اس کے لیے متعین جدوجہد کیا ہونی چاہیے تو اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے ایک سیاسی نظریہ اپنانا ہو گا جو موجودہ حالات کے تناظر میں لیفٹ ونگ نیشنل ازم کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا جسکی بنیاد جغرافیائی قومیت پر اٹھائی جائے گی اسکے بعد ریاست کا نام تجویز ہونا چاہیے اور اسکا متفقہ قومی پرچم ڈیزائن کیا جانا چاہیے جسکے نتیجے میں خیالی نعروں کی جگہ غیر ملکی تسلط سے آزادی کا حقیقی نعرہ گونجنے لگے گا حتی کہ کشمیر کونسل کے خاتمے، لینٹ افسران کی معزولی، ایکٹ 74 اور معاہدہ کراچی کی منسوخی، اپنی آئن ساز اسمبلی، گلگت بلتستان اور کشمیر کو ایک انتظامی یونٹ میں لینے پر آزادی پسندوں اور الحاقیوں کے درمیان مشترک سیاسی جدوجہد اور مشترک حکمت عملی بھی ترتیب پا سکتی ہے اس طرح ایک ہی اسٹیج سے ابتدائی طور پر قومی تشخص کی بحالی کا فریضہ سر انجام دیا جا سکتا ہے جبکہ بعد ازاں غیر ملکی تسلط سے آزادی کے حصول کے لیے انقلابی حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے یا شیڈو پارلیمنٹ بنائی جا سکتی ہے ۔مستقل سیاسی پروگرام کے لیے مقامی معیشت کی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے تاکہ غیر ملکی منڈیوں کے تسلط سے آزاد ہو کر اپنی زمین پر قدم جمائے جا سکیں اپنی فوج اپنا دفاع، اپنے داخلہ اور خارجہ معاملات اپنی کرنسی اور اپنے وسائل پر مقامی اختیار کا حصول جیسی تحریک ہی ریاستی وحدت کو ممکن بنا سکتی ہے مگر یہ سب تبھی ہو گا کہ جب ہم جذباتی عمل سے نکل کر شعوری طور سیاست کرنا شروع کریں گے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے لیکن اسکے لیے ہمیں سب سے پہلے نفرت کی دیواریں گرانی ہوں گی ایک دوسرے کو سمجھنا ہو گا ایک دوسرے کے قریب آنا ہو گا ایک دوسرے کے سیاسی حقوق کو تسلیم کرنا ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply