• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے؟۔۔۔ادریس آزاد/حصہ اول

بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے؟۔۔۔ادریس آزاد/حصہ اول

سن  2115 میں انسان نہیں ہونگے۔ اگر ہوئے بھی تو بہت کم ہونگے اور شاید افریقہ کے دور دراز صحراؤں کے کسی اکّا دُکّا گاؤں میں پائے جائیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اِس عجیب و غریب دعوے کو سمجھنے کی کوشش کریں ضروری ہے کہ ہم پہلے یہ جان لیں کہ ’’ٹرانس ہیومن اِزم‘‘ کیا ہے۔

لیکن ٹرانس ہیومن اِزم سے بھی پہلے ہمیں ایک اور ٹرم ’’ٹرانس جینک‘‘ کو سمجھنا ہوگا۔ ٹرانس جینک سے مُراد ہے جینز کا باہمی تبادلہ یعنی جینز کا ایسا تبادلہ جو ایک نوع سے کسی دوسری نوع کے درمیان (لیبارٹری میں) کیا جائے۔ ایسی دو انواع کا آپس میں کسی بھی قسم کا قریبی ربط ضروری نہیں۔ ایک بیکٹیریا اور ایک مینڈک کے درمیان بھی جینز کا تبادلہ کیا جاسکتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بیکٹیریا ایک یونی سیلولر آرگنزم ہے جبکہ میڈک ایک ملٹی سیلولر جاندار ہے۔ لیکن ہم مینڈک کی خصوصیات کو بیکٹیریا میں یا بیکٹیریا کی خصوصیات کو مینڈک میں آسانی سے منتقل کرسکتے ہیں اور ایسے ٹرانسفر کو ہی ’’ٹرانس جینک‘‘ کہا جاتاہے۔ ایسا کرنے سے مخلوقات عالم میں کیا کچھ تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں اِن کا مکمل اندازہ لگانا ناممکنات میں سے ہے لیکن اب تک جو جو اندازے لگائے گئے ہیں وہ بھی کائنات کی تاریخ کے سب سے حیران کُن واقعات کہلانے کے بجاطور پر حقدار ہیں۔ جن میں سے ایک یہ دعویٰ بھی ہے کہ، ’’بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے‘‘۔
اس وقت ترقی یافتہ دنیا کے دو بڑے ادارے ’’ٹرانس جینک‘‘ ریسرچ میں بے پناہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ایک مِلٹری اور دوسرا فارماسیوٹیکل انڈسٹری۔ امریکن ملٹری اس وقت ’’ٹرانس جینک ریسرچ‘‘ کو فنڈ فراہم کرنے والے ٹاپ تھری اداروں میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں امریکی ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ پیش پیش ہے۔ ڈارپا (DARPA) سے مراد ہے، ’’ڈیفینس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی‘‘۔ ڈارپا اب تک ، ملٹری کے مقاصد کے لیے کئی کامیاب تجربے کر  چکی ہے۔ انہوں نے ایک بکری ڈیزائن کی ہے جس کے ڈی این اے کے ساتھ مکڑی کا ڈی این اے ملایا گیا ہے۔ ہم اِس ٹرانس جینک گوٹ کو ’’سپائڈر گوٹ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس بکری کی پیداوار سے اُن کا مقصد سپائیڈر سلک کا حصو ل ہے۔ سپائیڈر سِلک جو مکڑی اپنے لعاب سے بناتی ہے، اِس تجربہ سے قبل صرف مکڑی کے لعاب سے ہی حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ دنیا کا مضبوط ترین دھاگہ ہے جو نہ صرف ہر شئے سے ہلکا ہے بلکہ اس کی قوتِ برداشت اور لچک بھی دنیا کے ہر سِلک سے بہتر ہے۔ بکری کے ساتھ مکڑی کے جینز کا اس طرح تبادلہ کیا گیا کہ ڈیزائن شدہ بکریاں اب ایسا دودھ دیتی ہیں جس میں ایک اضافی پروٹین سپائڈر سلک فراہم کرتی ہے۔ جو سِلک مکڑیوں سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ بکری کے دودھ سے حاصل کیا جارہا ہے اور یوں امریکی آرمی نے اپنے لیے نئے ، ہلکے پھلکے بُلِٹ پروف جیکٹس، نئے پیراشُوٹس، نئے رسّے، نئے بیگز اور نئے جال (کارگو نیٹس) بنالیے ہیں جو بڑے سے بڑے بوجھ گرادینے پر بھی نہیں ٹوٹتے۔
حوالہ،
http://www.bbc.com/news/science-environment-16554357
چنانچہ یہ ایک ثبوت ہے، اس بات کا کہ مختلف انواع کے ڈی این اے کے مختلف ٹکڑے کاٹ کرایک دوسرے میں یوں لگائے جاسکتے ہیں جیسے ہم دو مختلف درختوں کی الگ الگ قلمیں آپس میں جوڑ کر ایک تیسرا نیا درخت اپنے گھر میں پیدا کرلیتے ہیں۔سپائیڈر گوٹ کے بعد سے اب تک ٹرانس جینک پروڈکٹس کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں۔ اور ایسی زیادہ تر پروڈکٹس کے لیے امریکن ملٹری کا ادارہ ’’ڈارپا‘‘ لاکھوں ڈالر کے فنڈز مہیا کررہا ہے۔
دوسرا ادارہ جو ’’ٹرانس جینک‘‘ سائنس کو فنڈز دے رہا ہے وہ ملٹری سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ دنیا بھر میں اس ریسرچ کے لیے فنڈز دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ میرا اشارہ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کی طرف ہے۔ فارما سیوٹیکل انڈسٹری کو سب سے زیادہ دلچسپی ’’نیوڈرگ تھراپیز‘‘ کے ساتھ ہے۔ انسانوں کے لیے نئے نئے علاج دریافت کرنے اور انسانی صحت کو بہتر سے بہتر بنانے کے مقاصد کے لیے کون فنڈز نہیں دیگا؟ ڈرگ تھراپیز کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کا پراسیس بہت لمبے راستے سے ہوکر آتاہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ جستجو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply