• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سکاٹ لینڈ میں گھریلو تشدد کے خلاف تاریخی قوانین کا نفاذ ۔۔۔طاہر انعام شیخ

سکاٹ لینڈ میں گھریلو تشدد کے خلاف تاریخی قوانین کا نفاذ ۔۔۔طاہر انعام شیخ

گھریلو تشدد پوری دنیا میں ایک بڑا مسئلہ ہے، مغرب جہاں پر   بہت چرچا علم و ہنر ہے، وہاں پر بھی بے شمار گوریاں بے دریغ پٹتی ہیں۔ صرف برطانیہ میں ہر ہفتے اوسطاً دو خواتین اپنےخاوند، سابقہ خاوند یا پارٹنر کے ہاتھوں ہلاک ہوتی ہیں۔ گھریلو تشدد کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کیلئے سکاٹ لینڈ کی حکومت نے ایک جرأت مندانہ اور لیڈرانہ کردارادا کرتے ہوئے چند تاریخی اور انقلابی قوانین لاگو کردیئے ہیں جن کے مطابق اپنی بیوی، خاوند یا پارٹنر کے خلاف صرف جسمانی تشدد ہی نہیں بلکہ اسے نفسیاتی اور جذباتی طور پر ہراساں کرنا، دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنا، اس کو رشتہ داروں اوردوستوں سے ملنے یا تعلقات رکھنے میں رکاوٹ بننا، اس کے مالی معاملات کو کنٹرول کرنا، اس کی روزمرہ زندگی کے معمولات اور سرگرمیوں کو چیک کرنا، اس کی بے عزتی کرنا یا کسی بھی طور پر ڈرانا گھریلو تشدد تصور ہوگا۔ اس گھریلوتشدد سے بچوں پر جواثرات مرتب ہوتے ہیں اس پر بھی قانون بنایا گیا ہے اور عدالتوں سے بھی کہا گیا کہ وہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو مجرم سے محفوظ رکھنے کے لئے ہراساں نہ کرنے کے احکامات جاری کریں۔ گھریلو تشدد کے نئے قوانین سے پاکستانی اور دیگر ایشیائی افراد بہت زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں اور وہا نجانے میں کئے گئے کاموں کے باعث مجرم ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیاء مردوں کی بالادستی کا معاشرہ ہے، وہاں پر عموماً مرد کماتا ہے جبکہ عورتیں گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ وہاں اکثر گھرانوں خصوصاً دیہات میں گھریلو تشدد کوئی بہت بڑی بات نہیں سمجھی جاتی۔ اس سوچ کی ایک وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ بعض خواتین تو اس تشدد کو زندگی کا ایک حصہ یا تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر و شکر کر لیتی ہیں۔ ایشین کلچر میں جہاں عورت کی طلاق کو بہت برا تصور کیا جاتا ہے، چاہے اس میں سراسر قصور مرد کا ہی کیوں نہ ہو، والدین اپنی بیٹیوں کو سسرال رخصت کرتے وقت نصیحت کرتے تھے کہ اب تمہارا جنازہ اپنے خاوند کے گھر سے ہی نکلنا چاہیے۔۔۔ برطانیہ اور دیگر مغربی معاشروں میں رہنے والی پاکستانی خواتین کی پہلی نسل کی اکثر خواتین اسی طرح گھریلو تشدد کا شکار بنتی رہیں، لیکن اب یہاں پر پیدا شدہ تعلیم یافتہ نئی نسل اس رویئے کو بالکل برداشت کرنے کو تیار نہیں۔

دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی کے ساتھ بے پناہ ترقی ہو رہی ہے، وہاں اب سماجی اور معاشرتی اقدار بھی بدل رہی ہیں۔ مستقبل کی ضرورتوں کے مطابق سوچ کے نئے زاویئے سامنے آرہے ہیں، اب گھریلو تشدد کی تشریح بھی بدل گئی ہے اور اس طرح کے نئے قوانین بن رہے ہیں جس سے گھریلو زندگی میں فریقین کو ایک دوسرے سے برتاؤ اور تعلقات کے سلسلے میں خاصا محتاط رہنا پڑے گا۔ اپنی عادتیں تبدیل کرنا ہوں گی، کئی نئے قوانین ایسے ہیں جن میں کوئی بھی نادانستگی اور لاعلمی میں کی گئی حرکت قابل دست انداز پولیس ہوسکتی ہے اور عدالت اسےمجرم قرار دے سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والی صرف خواتین ہی نہیں، خاصی تعداد میں مرد بھی ہوتے ہیں اور ایشیائیوں میں تو ایسے مردوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے جو منگیتر بن کر آئے اور جب تک ان کو متعلقہ ملک کی شہریت نہیں مل گئی، وہ زبردست نفسیاتی اور جذباتی بلیک میلنگ کا شکار ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ سسرالی رشتہ داروں کا رویہ بھی ان کے ساتھ غلاموں جیسا رہا، لیکن وہ اپنی مردانگی مجروح ہونے کے خوف سے کسی کو سنا بھی نہیں سکتے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply