شیری کا انتقام….روبینہ فیصل

مین ہیٹن نیویارک کی ایک پررونق سڑک کے کنارے ایک درمیانے قد اور درمیانی عمر کی ایک بے ڈھنگی سی عورت کھڑی ہے۔اس کے بال ترشے ہوئے ہیں اور موٹے موٹے ہونٹوں پر گہرے گلابی رنگ کی لپ اسٹک کی تہیں سلیقے سے جمی ہو ئی ہیں ۔ چہرے کے کالے رنگ کو گہرے سانولے میں بدلنے کے لئے فاؤنڈیشن کا سہارا دور سے ہی نظر آرہا ہے ۔اس نے گہرے پیلے رنگ کی شرٹ کے ساتھ سفید ٹراوزر پہن رکھا ہے جو پیلے رنگ کی شوخی کو اور اس کی آنکھوں کی زردی کو اور نمایاں کر رہا ہے۔اس کے کندھے سے لٹکا پرس بھی پیلے رنگ کا ہے اور یوں لگ رہا ہے جیسے اس سے زیادہ اس پرس کی آنکھیں کسی کی منتظر ہیں ۔ اور وہ “کسی” ۔۔کوئی بھی ایسا مرد ہو سکتا ہے جواپنی بیوی یا تنہائی سے تنگ آکر رات کے اس پہر رات کے پچھلے پہر کو رنگین بنانے اپنے گھر سے کوئی بہانہ کر کے نکل پڑا ہو۔ اس ساؤتھ انڈین عیسائی عورت کا نام سلوچنا عرف شیری ہے اور یہ اکثر یونہی ٹورنٹو سے کسی بھی ملک کے لئے چھٹیاں گذارنے نکل پڑتی ہے ۔ اس دفعہ اس نے نیویارک کا انتخاب کیا ہے وہ کوئی باقاعدہ پیشہ کرنے والی عورت نہیں ، ٹورنٹو میں ایک این جی او میں نوکری کرتی ہے اور ایک گورے بڈھے کے ساتھ رہتی ہے جس کی نظر اتنی کمزور ہے کہ وہ اپنے ٹیکسٹ میسجز پڑھنے کے لئے بھی اُس عورت کا محتاج ہے ۔
اس گورے بڈھے نے شیری کی درد بھری کہانی سن کر اسے اپنے گھر میں تھوڑی دیر کے لئے رہنے کی اجازت دی تھی اور بعد میں وہ اس کی ضرورت بن گئی تھی، وہ اس طرح کہ وہ اس کے لئے کھانا بنانے ، گھر کی صفائی اور اس کی ای میلز اور ڈاک پڑھنے سے لے کر اس کے بیڈ روم تک کی ضروریات کا خیال رکھنے لگی تھی ۔ کینڈا میں شادی کے بغیر اکھٹے رہنے کا رواج کوئی انوکھا نہیں مگر بغیر کاغذ کے اس رشتے کو بھی شادی ہی سمجھا جا تا ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے کے اسی طرح وفادار رہنے کے پابند ہو تے ہیں جس طرح شادی کے بندھن میں بندھ کر ہو سکتے ہیں ۔۔تو کیا یہاں سڑک کے کنارے کھڑی یہ عورت ،اپنے محسن کو دھوکہ دے رہی ہے؟ یہ سوال آپ ہی کے ذہن میں نہیں خود شیری کے ذہن میں بارہا دفعہ آچکا ہے۔۔ پچھلے سال جب وہ سپین کے ٹرپ پر گئی تھی ، تب بھی یہی سوال اس نے خود سے پو چھا تھا ۔ اس سے پہلے جب وہ اٹلی گئی تھی تب بھی یہی سوال اس کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا تھا ۔ایسے سب سفر وہ اکیلے ہی شروع کیا کرتی تھی اورپھر اسے کوئی اجنبی” ہمسفر” مل ہی جاتا ، جو اس کے سفری اخراجات اٹھانے کو تیا ر ہو جایا کرتا ،جس میں ہو ٹل کے کمرے کا کرایہ ، کھانا اور شراب پینا ، بلکہ بعض اوقات شاپنگ بھی شامل ہو تا تھا ،تو وہ سب بھول بھال کر زندگی کے وہ مزے اٹھانے میں گُم ہو جاتی ، جو زندگی نے اس سے بہت دیر دورکئے رکھے تھے۔ ۔۔ اب وہ د نیا دیکھنا چاہتی تھی،زندگی سے لطف اٹھانا چاہتی تھی ، خوش ہونا چاہتی تھی اور اس کے لئے اسے ہر دفعہ اپنے گورے لون ان پارٹنر سے کوئی نہ کوئی جھوٹ بول کے گھر سے نکلنا پڑتا تھا اور وہ جھوٹ کچھ یوں ہوتے تھے کبھی امریکہ میں مقیم اپنے بچوں کو ملنے جانا ہے یا اپنی ساؤتھ انڈین کمیونٹی کے ساتھ کوئی بحری جہاز کاکرووز وغیرہ وغیرہ۔۔
وہ جب اس سیدھے سادے،مجبور بلکہ ایک حد تک معذور انسان سے جھوٹ بولتی تو وہ احساس جرم میں مبتلا نہیں ہو تی ہے تو کیا وہ ایک بدکردار،دھوکے باز اور مکار عورت ہے ؟اس کا فیصلہ کرنے کے لئے ہمیں شیری کے جسم کو نیویارک کی اسی سڑک پر چھوڑ کر اس کی روح کی انگلی تھام کر کنیہا کماری کے اس گاوں تک جانا ہو گا جہاں وہ پیدا ہو ئی تھی اور جہاں اس کا بچپن اور لڑکپن گذرا تھا ۔
شیری کا باپ اس کے ہو ش سنبھالنے سے پہلے ہی دنیا سے جا چکا تھا ،ترکے میں وہ اپنی جوان بیوہ کے لئے غربت اور تین چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا تھا ۔ شیری نے جب ہو ش سنبھالا تو گھر میں جو ماحول دیکھا وہ یہ تھا کہ ہفتے میں ایک آدھ بار کوئی مردانہ اجنبی چہرہ ،ماں کے ہمراہ گھر میں گھومتا پھرتانظر آتا ۔اور اس شخص کے جانے کے بعدکچھ دنوں تک اچھا کھاناپکتا رہتا اور کبھی کبھار تو ان مسکین بہن بھائیوں کو کھیلنے کو ایک دوسرے کے علاوہ کھلونے بھی مل جایا کرتے تھے ۔ ان اجنبی چہروں میں ایک شخص بہت کثرت اورتواتر سے آیا کرتا تھا ،اس کی عمر لگ بھگ تیس سال ہو گی ،توند نکلی ہو ئی اور چہرے پر گھنی مونچھی مگر سر پر بال نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس وقت شیری ، عمر کی گیارہ منزلیں طے کر کے بارہویں میں لگ چکی تھی، اس نوجوانی میں ہی، اس کے قدرے فربہ جسم نے جوانی کی بہار سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا شروع کردیا تھا ۔ جب اس کی ماں ادھر ادھر ہو تی تو،وہ شخص جس کا نام رام پرشاد تھا ، اسے اپنے ساتھ بھینچنے کی کوشش کرتا ،جسم کے کچھ حصوں پر جب اس کے ہاتھ اسے نوچتے تو تکلیف سے شیری کی آنکھوں میں پانی آجاتا مگر وہ اس خوف سے کہ وہ اس کی ماں کا دوست ہے ، یا اس کی وجہ سے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں آتی ہیں ،وہ خاموش رہتی اور چیخ کو سینے کے اندر ہی دبا لیتی تھی۔ مگر اس کے جانے کے بعد وہ دبے دبے لفظوں میں اپنی ماں کو بتانے کی کوشش ضرور کیا کرتی تھی مگر وہ یہ کہہ کر اسے ڈانٹ دیتی کہ” وہ اونچی ذات کے ہندو ہیں ، اور ہم لوگ عیسائی اور غریب ہونے کی وجہ سے اس ملک کے گھٹیا شہری ہیں، ایسی باتیں ایسی بچیوں کے ساتھ ہونا کوئی انہونی نہیں ، شکر کرو مفت میں نوچ کھسوٹ نہیں ہو رہی ، کچھ دے دلا جاتا ہے ورنہ تو ہمارے جیسیوں کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے ، پولیس میں رپٹ تک درج نہیں ہو سکتی ۔۔ سنا ۔۔؟” اور وہ کان کھول کر سن کر یہ سوچ لیتی کہ اب کے وہ کمینہ آیا تو وہ کہیں کسی لوہے کی پیٹی میں چھپ جائے گی جہاں سے اسے کوئی نہیں ڈھونڈ سکے گا ۔
وہ اپنے بچاؤ کے طریقے سوچتی رہی اور ایک وہ دن بھی آگیاجب اس شخص کے آتے ہی ، اسکی ماں اس کی حسبِ معمول خاطر مدارت کرنے کی بجائے شیری کو اس کے لئے چائے بنانے کا کہہ کر چھوٹے بھائی رابرٹ کی انگلی تھامے گھر سے یہ کہتے ہو ئے باہر چلی گئی تھی کہ اسے کوئی بہت ضروری کام یاد آگیا ہے۔ اتفاق تھا یا پلاننگ کہ اس وقت اس کی چھوٹی بہن ماریہ بھی گھر پر موجود نہیں تھی ۔شیری خوفزدہ سی رسوئی میں چائے بنانے کے بہانے جا چھپی تو رام پرشاد نے اسے آواز لگادی :”پانی تو لانا ذرا ۔”
وہ رسوئی سے کانپتی ہوئی آواز میں بولی :” چائے بنا رہی ہوں ۔۔۔۔ ”
“تو خود ہی لے لیتا ہوں ۔۔اپنا ہی گھر ہے ۔۔ اپنا ہی راشن ۔۔” یہ کہتے ہو ئے وہ رسوئی میں اس کے پیچھے آکھڑا ہو ا ؛ “جوانی تو خوب اتری ہے “ہیں ؟ ہیں ؟ یہ کہتے ہو ئے رام پرشاد نے اس کے کچے سینے کو اپنے کالے بھدے ہاتھوں میں مسلنا شروع کردیا،ایسا کرتے ہو ئے اس کی آنکھیں ایک دم لال بوٹی ہو گئیں اور ان سے ہوس بلا روک ٹوک ٹپکنے لگی ۔ شیری کی آنکھوں کے آگے اس سانپ کا پھن لہرانے لگا جسے کچھ دن پہلے گلی کے بچوں نے مل کر مارا تھا ، اور شیری ان بچوں کی سردار بنی ہو ئی تھی ، اسے نہ سانپ کے پھن سے نہ اس کی آنکھوں سے ڈر لگا تھا مگر اب اس شخص کی آنکھوں کو دیکھ کروہ تھر تھر کانپ رہی تھی اور اس کے اوسان خطا ہو چکے تھے وہ مڑ کر دوسری طرف جانے کو ہی تھی کہ رام پرشاد نے اپنی موٹی توند سے اس کے جسم کو ایسا دبایا کہ وہ پیچھے دیوار کے ساتھ کسی چھپکلی کی طرح چپک گئی ۔اس کے بعد اس سانپ سے بھی زیادہ ڈروانے شخص نے اُس لڑکی کو وہاں سے ہلنے نہ دیا اور کھڑے کھڑے اس کے سارے کپڑے اتار کر پھینک دئیے ۔۔۔
وہ اس قدر سہم گئی تھی کہ آواز اس کے حلق میں پھنس چکی تھی ، چیخنا تو دور کی بات اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر اس کی آواز ہمیشہ کے لئے دبا دی ہو ۔۔۔
اس دن ہوس کے اس کھیل کا سلسلہ نہ جانے کتنے گھنٹے اور چلتا رہتا کہ اچانک پیچھے سے اس کی ماں کی آواز آئی:
“ہائے ہائے !! رام پرشاد یہ کیا غضب کر رہے ہو ، یہ کیا غضب کر دیا “۔اس کے ساتھ ہی وہ ماتھا پیٹنے لگ گئی ، رام پرشاد ایک جھٹکے سے ،شیری سے الگ ہوگیاحالانکہ ابھی تک اس کے اعضاء اسی طرح تنے ہو ئے تھے ، اور شیری کسی مردہ کی طرح بے حس و حرکت کھڑی کی کھڑی تھی ۔ اس نے دیکھا اس کا بھائی اس کی ماں کے ساتھ ہی تھا ۔ دس سال کا تو تھا ، مگر بڑی بہن کومکمل برہنہ حالت میں ایک ادھ ننگے آدمی کے نیچے دبے دیکھ کروہ کیا سمجھا کیا نہیں مگر ماں کے واویلے سے یہ ضرورجان گیا کہ مہربان انکل ، جو، ان کے لئے تحفے تحائف لایا کرتے تھے ، جو، ان کی ماں کو کبھی کبھار سیر و تفریح پر لے جا یا کرتے اور واپسی پر ان کے لئے بڑھیا ہوٹل سے کھانا بھی لایا کرتے تھے ،اور جن سے ماں ہمیشہ نرمی اور محبت کا سلوک کیا کرتی تھی ، آج ضرور کوئی بہت بڑی شرارت کر بیٹھے ہیں اور اب اماں انہیں مارے گی ، جیسے ہر چھوٹی بڑی شرارت پر اس کی ماں اس کا منہ تھپڑوں سے لال کر دیا کرتی تھی ۔۔۔ ۔ اس سے پہلے کہ انکل کو مار پڑے یہاں سے کھسک لیا جائے اور وہ خاموشی سے اس ڈر کو سینے میں دبائے جا کر چھت پر چھپ گیا ۔
رام پرشادکو شیری کی ماں سے اس ہنگامے کی امید نہیں تھی ۔ وہ چلایا : “کیا ہواہے تم کیوں اتنا شور مچا رہی ہو ۔۔؟”
“رام پرشاد کوئی شرم ہے میری بھولی بھالی بچی کو گندا کر دیا ۔۔۔۔” ماں روتے ہوئے چلائی مگر یہ کیسا رونا تھا کہ آنکھیں ،آنسوؤں سے خالی تھیں ۔
“بھولی بھالی ؟۔۔۔ گندا ؟ رام پرشاد حیرت سے بولا ۔۔ ان میں سے کچھ بھی سچ نہیں ۔ یہ بچی نہیں ہے پو ری عورت ہے ، ایک دفعہ بھی نہیں چیخی ، نہ جانے کب سے تُو نے اسے اس کام میں لگایا ہوا ہے ۔۔۔ ”
“شرم کرو رام پرشاد ۔۔ یہ بالکل کنواری تھی ۔۔۔۔۔ ہائے میں لٹ گئی میں برباد ہو گئی ۔۔۔”ماں آنسوؤں کے بغیر ہی روئے جا رہی تھی ۔
میں سمجھ گیا ، شور کیوں مچا رہی ہو ۔۔ ایک لاکھ کے دو دے دیتا ہوں ۔ ڈیل ڈن کرو ، لڑکی میرے حوالے کردو ، کہو تو شادی رجسٹر بھی کروا دیتا ہوں ۔”
اپنی اور اس کی عمر کا فرق دیکھو ۔۔ تمھیں میں کا فی نہیں تھی کہ میری بچی کو بھی ڈکار گئے ہو ۔۔۔”ماں کی بے جان آنکھوں میںآنسو ابھی بھی نہیں تھے ، خالی شور ہی شور تھا ۔۔بے ہنگم شور ، جوشیری کو رام پرشاد کی انگلیوں سے زیادہ تکلیف دہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔
مگروہ نہیں جانتی تھی کہ یہ “فائدہ مند شور” تھا, اسی سے دب کر تو رام پرشاد نے دو لاکھ سے تین کر دئیے تھے، اسی وجہ سے اسی دن شیری کی اس ادھیڑ عمر کے مرد سے چپکے سے شادی بھی ہو گئی اوروہ انہی کپڑوں کو پہن کر ، جو فرش پر گرے پڑے تھے، اپنے چھوٹے سے گھر سے اٹھ کر رام پرشاد کے بڑے سے گھر میں آگئی تھی۔راپ پرشاد کی بری شہرت کی وجہ سے کوئی شریف اور نارمل خاندان اسے لڑکی دینے کو تیار نہیں تھا مگر شیری جیسی کم سن نے زندگی کے چھ سال اسی جانور کے ساتھ گذارے اور اُس کے دو بچوں کی ماں بھی بنی ۔رام پرشاد کا اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک تھا ، جیسا ایک خریدی ہو ئی چیز کے ساتھ ہو تا ہے جوشروع شروع میں اچھی لگتی ہے اور بعد میں اس مال کی کاٹھ کباڑ سے زیادہ کی ہستی نہیں رہ جاتی ۔۔مار پیٹ اور جنسی تشدد روز کا معمول تھا ، مگر یہ سب ناقابلِ برداشت تب ہوا جب اس نے شیری کو گھر اور بچوں کے اخراجات کے لئے پیسے دینا بھی بند کر دئیے ۔ شیری مار پیٹ کی عادی ہو چکی تھی ، مگر پیٹ کی بھوک اور بچوں کی بھوک ۔۔۔۔ ۔ رام پرشاد چونکہ طبعا ایک عیاش اور خود غرض مرد تھا ، اس لئے شیری کے جسم سے اوبتے ہی ، باہر کثرت سے منہ ماری کرنے لگا تھا ، ان عیاشیوں کے بعد اس کی جیب میں اتنے پیسے نہ بچتے کہ شیری اور بچوں کا خرچہ بھی نکال سکے ۔۔ اس کمزور ی کو چھپانے کے لئے اس کی مار پیٹ میں اور اضافہ ہو گیا تھا ۔
پھر ایک دن شیری کی اس چھ سالہ زندگی کا با ب بھی بند ہوا کسی نے اسے خبر دی کہ اس کا شوہر فلاں ہو ٹل کے کمرے میں عورتوں کو عیاشی کے لئے لے کر گیا ہے تو وہ جو بھوک سے نڈھال ہو تے بچوں کو دیکھ کر خود بھی نڈھال بیٹھی تھی ، آنا فانا ، گھر سے قریب اس ہوٹل میں ،جا پہنچی ۔ اتفاق سے وہ اسی وقت دو عدد عورتوں کے ساتھ وہاں سے نکل رہا تھا ۔ شیری ، کسی بھوکی شیرنی کی طرح اس کی طرف لپکی اور اس کا گریبان پکڑ کرچلائی: “تیری پیٹ کے نیچے لگی آگ سے میرے بچوں کے پیٹ بھوکے ننگے پڑے ہیں ، خدا تجھے غارت کرے ۔۔ تجھ پر یسوع مسیح کا قہر نازل ہو ۔۔۔ ”
یہ سننے کی دیر تھی کہ رام پرشاد نے اسے گھونسوں ، مکوں اور لاتوں پر رکھ لیا ۔۔ ذرا سی دیر میں مجمع اکھٹا ہو گیا مگر مجال ہے کسی نے آگے بڑھ کر چھڑانے کی ہمت کی ہو ، بلکہ اکثر تو اس ہاتھا پائی کے نتیجے میں شیری کے پھٹے کپڑوں سے جھانکتے اس کے جسم کو دیکھ کر باقاعدہ لطف اندوز ہورہے تھے کہ ایسے میں ایک خوش پوش، لمبا چوڑا شخص ، مجمعے کو چیرتا ہوا ، شیری کو بچانے آگے بڑھا ۔۔ شیری نے پٹتے پٹتے اسے دیکھا تو سوچا شائد اوتار ، زمین پر اتر آیا ہے ۔۔ وہ تھا ہی ایسا دلکش اور ہنیڈ سم ۔۔ سب سے بڑھ کر وہ باقی مجمعے کی طرح بُت بنا نہیں کھڑا رہا بلکہ اسے بچانے آگے بڑھا تھا ۔ اس نے شیری کو اپنی باہوں میں بھر لیا اور اس کے شوہر کو للکارا ۔۔
“خبردار!! اب ایک بھی قدم آگے بڑھایا۔۔ میں وکیل ہوں اور ابھی پولیس کو بلا کر تمھیں ڈومیسٹک وائلینس میں اندر کرا دوں گا ۔ انسان ہو کہ جانور۔ قانون ہے اس ملک میں ۔۔ اندھا راج نہیں ۔۔ “رام پرشاد وہیں تھم گیا ۔ کچھ اس وکیل کی شخصیت کا رعب ، کچھ اس کا اندازِ گفتگو ۔۔ رام پرشاد منہ سے اڑتی جھاگ کو ہتھیلی کی پشت سے صاف کرتے ہو ئے اپنی مردانگی سنبھالتے ہو ئے وہیں سے چلایا ۔۔
” اتنا ہی ہمدرد ہے تو ساتھ لے جا اس کتیا کو اور اس کے پلوں کو ۔۔ جا کے پال ۔۔ انسانیت انسانیت ۔۔ لے جا اس انسانیت انسانیت کو اپنے ساتھ ۔۔ بن جا انسان ۔۔ میں حیوان ہی بھلا ۔۔۔۔ “پھر شیری کی طرف دیکھتے ہو ئے غرایا ،” گھس جا اس کے بازوؤں میں ۔۔ اب اس کے ساتھ ہی مر ۔۔ میرے گھر گھسی تو ٹانگیں توڑ دوں گا ۔۔”
اس وکیل نے رام پرشاد کو جیل بھی بھجوا دیا تھا ۔۔ اور شیری کو اس سے طلاق بھی دلوا دی تھی۔۔اور اس کے دونوں بچوں کو اس کے گھر سے
برا مد کروا کے شیری سے ملوا بھی دیا تھا ۔ شیری کا رام پرشاد سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھے ۔ ۔۔
اس دن سے شیری کی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوا ۔ وہ خوش پوش، جو شیری سے عمر میں بیس سال بڑا تھا ، مگر نرمی اور عزت سے اسے اپنے گھر لے آیا تھاجہاں پر اسے ، وکیل کے پہلے سے شادی شدہ ہو نے کی وجہ سے بیوی کا درجہ تو نہ مل سکتا تھا ، مگر ایک رکھیل بن کر وہ ،نارمل لوگوں کی طرح زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے لگی ۔۔ وکیل کی بیوی کوبھی اس رشتے کی خبر تھی ، مگر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا ،کیونکہ وہ خود کسی بیماری کی وجہ سے حقِ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ تھی ۔ یہ سب زندگی کے تماشے ، شیری نے بارہ سے انتیس سال کی عمر تک دیکھ لئے تھے۔ جب وہ وکیل اسے اپنے گھر لایا تھا تب اس کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔ مگر اس عمر تک اسے مرد کو لبھانے کے سب طریقے آچکے تھے ۔ وکیل اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا تھا ۔وہاں پر شیری کا معیارِ زندگی بہت بہتر ہو گیا، اچھا کھانا ، پینا اور بچوں کو اچھے سکول میں داخلے کی سہولت ۔ یہاں آکرمالی حالات تو کچھ بدلے مگر اس گھر سے باہر کی دنیا میں اس کے اور اس کے بچوں کے لئے ویسی ہی ذلت اور رسوائی تھی۔ رکھیل کا سٹیٹس کتنا بھی بلند ہو جائے وہ رہتی رکھیل ہی ہے ۔ وہ خود تو سب سہتی رہی مگر جب اس کی بیٹی کو سکول میں کسی بچی کی ماں نے آکر اس بات پر پیٹا کہ وہ ایک گندی عورت کی بیٹی ہو نے کے باوجود اس کی بیٹی کے ساتھ کیوں کھیل رہی تھی توبات بڑھتے بڑھتے سکول انتظامیہ تک جا پہنچی اور اس طرح اس کے بچوں کا نام سکول پر ایک دھبہ سا بنتا گیا اوراسطرح ان پر سکول چھوڑنے کا دباؤ بڑھنے لگا۔ اس دن شیری کو لگا کہ ان سب سہولتوں کے باوجود ، وہ ابھی تک ویسی ہی غریب کی غریب ہی ہے اور جتنی بھی مہنگی ساڑھی باندھ لے ،کتنا ہی اچھا کھاناکیوں نہ کھا لے ،یہاں، اس ملک میں ایک اچھوت اور ایک بدکار عورت ہی سمجھی جائے گی ۔۔ بات اس تک ہی رہتی تو وہ یہ سب مرتے دم تک بھی سہہ سکتی تھی ۔ مگر سکول کے اس واقعے کے بعد وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر یہی سوچتی رہی کہ اس کی بیٹی کا اس ملک میں کیا مستقبل ہے ؟ وہ جب ٹی وی پر لوگوں کو یہ چیخ چیخ کر کہتے سنتی کہ انڈیا ، میں سب مذاہب کے لوگ برابر ہیں اور وہ بہت بڑی جمہوریت اور معشیت ہے تو وہ یہ سوچ کر پریشان ہو تی رہتی کہ کیا وہ جس انڈیا کے بارے میں ٹی وی پر سن رہی ہے وہ اسی انڈیا کی باسی ہے یا کہیں اور رہتی ہے ؟ ورنہ غریب اور عیسائی ہو نے کی وجہ سے اس کی ماں یہ کیوں کہتی کہ:
” شکر کرو ریپ کے بدلے شادی کا تحفظ اور پیسے مل رہے ہیں ، ورنہ کوئی مفت میں یہ کام دکھا جاتا تو یہاں کوئی تمھاری رپورٹ تک نہ کاٹتا”۔
کیا اس کی ماں کا بتایا ہوا یہ سچ اس کی بیٹی پر بھی لاگو ہو گا ، کوئی بھی آئے گا اور اسے اپنے موٹے وجود تلے کچل دے گا اور کہیں کوئی رپورٹ بھی درج نہ ہو گی ۔ کیا وہ اپنی ماں کی طرح یہی حساب کتاب لگاتی رہے گی کہ جسم کچلنے کی قیمت کتنی ملی ہے ، شکر ہے کوئی مفتا نہیں لگا گیا ؟ ۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس کا دماغ پھٹنے لگتا ۔
وکیل کے گھر رہتے ہو ئے اس نے خود کو بھی کافی اپ گریڈ کر لیا تھا ۔ اچھے کپڑوں کے ساتھ ساتھ اسے نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنے کا بھی موقع ملا تھا ، جن میں سے ایک انٹر نیٹ کا استعمال تھا ۔۔ سنا ہے جن کے بچپن تکلیفوں میں گزرتے ہیں ، ان کے دماغ کافی تیز ہو جاتے ہیں ۔ وہ بھی سب کچھ جلدی سیکھ جاتی تھی۔ ۔۔مگر ان سب ترقی کے راستوں کی طرف جاتے ہوئے بھی وہ اس سوچ میں غرق رہنے لگی کہ اپنے ماضی کو اپنی بیٹی کا حال اور مستقبل بننے سے کیسے بچائے ۔ یہی سوچتے سوچتے وہ انٹر نیٹ پر مختلف سائٹیس کھولتی رہتی تھی اور ایکدن اسے ایک ویب سائٹ نے منزل دکھا دی ۔وہ تنہا لوگوں کے ملاپ کی کوئی سائٹ تھی وہاں اس نے اپنا ضرورتِ رشتہ کا اشتہار ڈالا اور ایک دن اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ کینڈا کے ایک شخص نے اس میں دلچسپی لینی شروع کر دی ، وہ بنیادی طور پر تو دہلی شہرکا رہنے والا تھا مگر بہت سالوں سے کینڈامیں ہی مقیم تھا ۔بقول اس کے ، اس کی بیوی کو مرے ایک سال ہوچکا تھا اور وہ اپنی تنہائی سے گھبرا چکا تھا ۔ پنتالیس سال کے ڈھلتی عمر والے شخص کو اتر پردیش میں بیٹھی ایک انتیس سالہ غریب ، معمولی شکل کی ،کم ذات مگر جوان لڑکی کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں کو ئی نقصان نہیں نظر آرہا تھا ۔ ان کی روز بات چیت ہو نے لگی ، اس شخص نے شیری کو مستقبل کے وہ سارے سنہری خواب دکھائے جو وہ دیکھنا چاہتی تھی ، ہر اس خدشے کا علاج بتا دیا جو اس کے دماغ میں اپنے بچوں کے حوالے سے آتا تھا ۔۔رفاقت بڑھتی رہی اور یوں ایک دن وہ اسے ملنے کنہیا کماری گاؤں تک آگیا ۔اسے خوش کرنے کوشیری نے اپنا تن من دھن سب لگا دیا ۔۔ وہ اس سنہری موقعے کو ہر حال میں اپنے فائدے کے لئے استعمال کر نا چاہتی تھی ۔ وکیل ،جس نے اسے نہ صرف سڑک سے اٹھا کر گھر کی چار دیواری میں عزت سے رکھا ہوا تھا بلکہ اس کے بچوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتا تھامگر صرف اس ایک رکھیل کے لیبل سے جان چھڑانے کے لئے وہ وکیل اور اس ملک کو چھوڑ نے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔اسے اپنے بچوں کو اپنے ماضی کے آسیب سے بچانے کے لئے ایک مضبوط اور پکا نام چاہیئے تھا اسی لئے جیسے ہی وہ کینڈین اس کے سامنے آیا اور شیری میں اس کی دلچسپی برقرار رہی تو اس نے پہلا مطالبہ شادی کا اور دوسرا بچوں کو ساتھ کینڈا لے جانے کا کیا ۔ اس کے بدلے وہ اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھی ۔
اس انڈین کینڈین کا نام مورتھی تھا “بھگوان کی مورت”۔۔شیری کو لگا ، شائد وکیل کے بعد اب ایک اور بھگوان اس کی زندگی میں آگیا ہے ، جو اس کو اور اس کے بچوں کو اپنا نام دے گا ۔۔ اور رام پرشاد جیسے جانور سے اور رکھیل کے سٹیٹس سے اس کی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان خلاصی کرا دے گا ۔شیری کو کسک تھی کہ شائد وہ وکیل کو دھوکہ دے رہی ہے سو اس نے اپنے ضمیر کو مطئمن کرنے کے لئے وکیل کو اعتماد میں لیااور مورتھی کے بارے سب کچھ بتا دیا ۔۔ وکیل نے رکنے کو کہا ،نہ جانے کو کہا ،بس یوں چلا گیا جیسے وہ، سالوں سے ایک ذمہ داری نبھاتے نبھاتے تھک کر خود بھی اس سے جان چھڑانا چاہتا ہو یا یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ شیری اور اس کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے خاموشی سے اس تبدیلی کو قبول کر چکا ہو ، جو بھی تھا وہ وہاں سے بس چپ کر کے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورتھی کے ساتھ کینڈا تک پہنچنے کی داستان میں اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ شیری کینڈا پہنچ گئی اور وقتی طور پر بچے اپنی ماں کے حوالے اس وعدے کے ساتھ کر آئی کہ جب تک وہ انہیں کینڈا بلا نہ لے ، اس کی ماں ان کے ساتھ کچھ برا نہ ہو نے دے گی ، اس کے بدلے اس نے مورتھی کی یقین دہانی پر اپنی ماں سے ہر مہینے باقاعدگی سے پیسے بھجوانے کا وعدہ کیا تھا ۔
پئیرسن ائیرپورٹ کینڈا اترتے ہی شیری کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے ۔۔
اب دیکھتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ،انڈیا ۔۔کے ایک چھوٹے سے گاؤں کنہیا کماری سے اٹھ کر آنے والی ایک تھرڈ کلاس شہری کی نئی زندگی کا آغاز دنیا کے مہذب ملک میں نئے انداز یا پرانے انداز سے ہوتا ہے؟
مورتھی ، بھگوان کی مورت ہی تھا یا اس کے پہلے ظالم شوہررام پرشاد کادوسراروپ نکلا ؟
شیری کوائیر پورٹ سے نکلتے ہی لگا جیسے وہ کہیں جنت میں آگئی ہو۔۔یہ کشادہ سڑکیں ، ان پر فراٹے بھرتی چمچماتی کاریں ،نہ کہیں دھول نہ مٹی ، اس نے ٹیکسی میں بیٹھتے ہی شکرانے سے سر ، مورتھی کی گود میں جھکا دیا۔وہ ٹیکسی ڈرائیور کی موجودگی میں کسمساکر رہ گیا ، اسے کندھوں سے پکڑ کر سیدھا کیا ، اور کہنے لگا : “دیکھو باہر آسمان کیسا نیلا اور شفاف ہے ۔۔۔”
شیری کی نظریں جو صاف شفاف آسمان پر پڑیں تو خوشی سے بچوں کی طرح وہ چلا اٹھی :
“اوہ خدا میں نے تو ایسا آسمان کا حسین رنگ آج تک نہ دیکھا تھا ۔۔ وہ دیکھو ۔وہ دیکھو ۔۔ وہاں جامنی ، نیلا ، لال ، سب رنگ اکھٹے ہو رہے ہیں ۔۔ ایسا پیارا آسمان یہاں کا ۔۔ میں تو ایسا سوٹ بناؤں گی ، اسی رنگ کا ۔۔”
شیری نہ جانے کیا کیا بولتی رہی ۔۔مورتھی مونچھوں تلے چپکے چپکے ہنستا رہا ۔۔
ہنسی اور باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ مورتھی کے گھر پہنچ گئے۔
“باپ رے اتنا بڑا گھر ۔۔۔۔” شیری کا تو خوشی اور حیرت سے دم سینے میں گھٹنے لگا ۔
مورتھی نے اس کا ہاتھ پکڑا اسی دوران ڈرائیور نے گاڑی کے ٹرنک سے ان کے سوٹ کیس نکال کر ان کے قدموں کے پاس رکھ دئیے۔
“چلو ایک بکسہ تم اٹھا لو ایک میں ۔۔ “شیری نے مورتھی کی ہدایات سنتے ہی جلدی سے ایک سوٹ کیس اٹھا لیا ، اسے ذرا بھاری لگا مگر اس خوشی کے سامنے ہلکا ہو گیا جو اسے اتنے بڑے گھر کو دیکھ کر ہو رہی تھی ۔ کیا اس کی قسمت اس پر اس قدر مہربان ہو سکتی ہے ؟
“آج کنہیا کماری کی تھرڈ کلاس عیسائی شہری دنیا کے ترقی یافتہ ملک میں فرسٹ کلاس شہری بن گئی۔۔”یہ سوچتے ہی اس کے خوشی کے مارے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے ۔۔۔
مگریہ کیا مورتھی نے گھر کے فرنٹ دروازے کی طرف جانے کی بجائے ، پچھلی طرف چلنا شروع کر دیا ۔شیری نے کچھ بولنا چاہا لیکن سوٹ کیس سنبھالتے سنبھالتے ،وہ اس کے پیچھے چپ چاپ لڑکھڑاتی یہ سوچتی چلتی رہی کہ شائد کینڈا میں گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا جاتا ہو ۔ سامنے والے خوبصورت اور عالیشان دروازے کے برعکس ، مورتھی نے لکڑی کے ایک خستہ حال دروازے کو کھولا ،جس کے کھلتے ہی شیری کو نیچے جاتی ٹوٹی پھوٹی اوربے ڈھب سی سیڑھیاں نظر آئیں ، اُسے ان پر سوٹ کیس اٹھائے قدم رکھنا کافی دشوار محسوس ہو امگر یہاں اس کی وہی اس کی ذات کا حصہ ،سخت جانی کام آرہی تھی ، وہ بڑی مہارت سے مورتھی کے پیچھے پیچھے چپ چاپ اپنی سوچوں میں گم ،سیڑھیوں سے نیچے اتر آئی ۔ نیچے پہنچتے ہی تاریکی اور سیلن زدہ سی بو اس کی آنکھوں اور نتھنوں سے ٹکرائی ۔
مورتھی نے ایک بٹن کلک کیا تو روشنی سے کمرہ نہا گیا ، ساتھ ہی وہ چہکا ۔۔ “لو جی ویلکم ٹو کینڈا ۔۔۔۔ویلکم ٹو یور ہوم ۔۔”
“ہوم ؟ شیری نے حیرت سے پلکیں جھپکیں ۔۔ وہ ابھی تک یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ یہاں سامان رکھنے آئے ہیں کیونکہ مورتھی نے اسے اپنی دولت کے بہت قصے سنا رکھے تھے ،اس لئے اس کے تصور کی دنیا میں ابھی تک یہ نہیں آرہا تھا کہ یہ تہہ خانہ سا ہی ان کا گھر ہے ۔
“بیڈ روم ، اوپر ہیں ؟ یہ ۔۔۔۔۔شیری نے بڑے اعتماد سے مورتھی سے پو چھا ۔۔
“وہ دیکھو بیڈ روم ۔۔ “مورتھی نے انگلی سے ادھر اشارہ کیا جہاں ایک بیڈ پڑا تھا ۔۔
“مگر یہ تو ۔۔ تہہ خانہ ۔۔ شیری کی آنکھوں میں ائیر پورٹ سے اب تک پہلی دفعہ ایک پریشانی کی جھلک ابھری ۔۔
“سنو سلوچنا !! یہ شیری کا وہ نام تھا جسے وہ خود بھی بھول چکی تھی ۔۔اب یہ تمھارا گھر ہے ۔ اسے یہاں بیسمنٹ کہتے ہیں ۔۔ وہ جو اوپر بڑا سا گھر اس بیسمنٹ پر کھڑا ہے ، وہ ایک مطلقہ گوری کا ہے اور ہمیں اس نے یہ بیسمنٹ اپارٹمنٹ کرائے پر دے رکھا ہے ، اسے یہاں تہہ خانہ نہیں “بیسمنٹ اپارٹمنٹ” کہتے ہیں ۔۔ وہ دیکھو ۔۔ وہاں ۔۔ ہماری رسوئی ہے جسے کچن کہا جاتا ہے ۔ بیڈ روم میں ٹی وی بھی ہے اور ادھر لاؤنج میں صوفہ بھی نظر آرہا ہو گا ، پھٹا ہوا ہے تو کیا مگر بیٹھا تو جا سکتا ہے نا ، وہ دیکھو واش روم ،، یہاں اسے واش روم ہی کہتے ہیں جہاں آپ نہانے دھونے سے لے کر سب قسم کے کام کر سکتی ہیں ۔۔۔ ؟ اور کیا چاہیئے انسان کو ؟ ہے نا ؟”
“مگر یہاں ہوا ۔۔ آسمان ؟ شیری کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ ،مورتھی کی گنوائی جانے والی تمام “سہولتوں ” کے بعد کیا کہے تو اس نے آسمان اور ہوا کا ہی پوچھ لیا ۔
“ارے آسمان جب دیکھنا ہو تو چار سیڑھیاں پھلانگ کر باہر جاؤ اور دیکھ لو ۔۔۔ ہوا بھی مفت ۔ یہ کینڈا ہے میری جان ۔۔ کینڈا ۔۔ آزاد ہوا ، آزاد پانی ۔”
مورتھی نے اپنے پیلے دانتوں کی بھر پو ر نمائش کرتے ہوئے کہا ۔”اور ہاں انڈیا میں جو نخرے دکھا چکی وہ دکھا چکی ، چھونا نہیں جب تک کینڈا نہ پہنچ جاؤں ۔۔ اب تو آگئی نا ۔۔ چلو آجاؤ ۔۔۔ ”
اور شیری کو دھکیلتا ہوا بیڈ روم میں لے گیا ۔۔۔۔ شیری ابھی حیرت سے بت بنی کھڑی تھی کہ مورتھی کے روپ میں اس کے سامنے کوئی بھگوان کی مورت نہیں بلکہ رام پرشاد ( اس کا پہلا شوہر ) ہی بیٹھا تھا ۔۔ روپ بدل کر مورتھی اسے اسی طرح نوچ رہا تھاجیسے بہت سالوں پہلے رام پرشاد نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور وہ آج بھی تیس سال کی ہونے کے باوجود بھی، اسی بارہ سال کی بچی کی طرح سہمی، تھر تھر کانپ رہی تھی ۔۔ اوشوا کے اس ڈی ٹیچڈ ہو م کی بند بیسمنٹ میں جہاں نہ ہوا کا گزر تھا اور نہ جہاں سے کھلا آسمان نظر آتا تھا،وہاں سے ،اس جنسی تشدکے ساتھ اس کی زندگی کا نیا باب شروع ہوچکا تھا،۔ ظاہری گھٹن ، روح کی آزادی کو بھی سلب کر رہی تھی ۔ وہ یہ کیسے بھول گئی تھی کہ” اس جیسی” کا کینڈا تک پہنچنا اتنا آسان اور سستا کیسے ہو سکتا تھا۔ اس کی قیمت اسے ، مورتھی کے جنسی تشدد اور مار پیٹ کی صورت روز ادا کر نا ہوتی۔
مورتھی ، ایک انتہائی غلیظ شخص ثابت ہوا بلکہ وہ تو باقاعدہ ایک جنسی مریض تھا ۔ اور اس نے شیری سے بہت سے جھوٹ بولے تھے جن میں سے سر فہرست یہ تھا کہ اس کی بیوی مر گئی تھی ، وہ مری نہیں تھی بلکہ وہ دو تین طلا قیں دے چکا تھا ۔مورتھی نے جو بڑے بڑے خواب شیری کی آنکھوں میں جگائے تھے ان کی تعبیر یہ بند بیسمنٹ ،مار کٹائی، جھوٹوں کے لاتعداد پلندے اور یورنیری انفیکشن کے تحفہ کی صورت ، اس کی آنکھوں کے آگے ناچ رہے تھے۔ شیری ،انفیکشن کی درد سے بے حال ہو کر تڑپنے لگتی اور ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہتی تو اسے جواب ملتا کہ: “ہیلتھ کارڈ کا انتظار کرو ،مر تو نہیں جا و گی ، میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ تمھارے لئے فضول ڈاکٹرز کو دوں ۔۔” ۔
شیری سے جتنا ہو سکا اس نے درد برداشت کیا ۔۔ مگر کب تک کرتی ؟ایک دن مورتھی گھر پر نہیں تھا ، تو وہ درد سے نڈھال اوپر والی منزل پر چلی گئی۔مالک مکان ایک اٹیلین ادھیڑ عمر کی عورت تھی،وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی ۔ اس عورت نے اسے مشورہ دیا کہ:
” اگر تمھارا خاوند تمھیں ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر جا تا تو 911 کو کال کر دینا ،وہ خود ہی تمھاری صحت کو اور تمھیں دیکھ لیں گے ۔۔۔۔”
اوریہاں سے شیری نے 911کے طلسم میں قدم رکھ دیا تھا مگر اس سے پہلے اس نے اپنے شوہر سے ایک دفعہ پھر التجا کی کہ درد حد سے بڑھ گیا ہے اور ہیلتھ کارڈ کے انتظار میں و ہ کہیں مر ہی نہ جائے ۔ اسے اپنے بچوں کا واسطہ دیا کہ وہ وہاں اس کے انتظار میں اس امید پر بیٹھے ہیں کہ ایک دن ان کی ماں انہیں کینڈا یا امریکہ بلا لے گی ۔
مورتھی!! میں جینا چاہتی ہوں ، مجھے یوں نہ مرنے کے لئے چھوڑ دو ورنہ میں 911 کو کال کرنے پر مجبور ہو جاوں گی ، وہ خود ہی مجھے ہسپتال لے جائیں گے ۔۔ ”
911کا لفظ ، گویا مورتھی کے کانوں پر انگارے کی طرح جا لگا ، وہ تڑپتا ہوا اٹھا؛
911″کو کال کر ے گی ۔۔ ایک زمین پر رینگنے والی ، جسے میں نے آسمان پر لا بٹھایا ، وہ مجھے پو لیس کی دھمکی دے گی ؟ ”
“پو لیس نہیں مورتھی ۔۔ پولیس نہیں ۔۔ مدد ۔۔ ایمبولنس آجائے گی ، مجھے ہسپتال لے جاؤ ۔۔ تم لے جاو ۔” وہ گڑگڑانے لگی ۔۔ مگر مورتھی کا غصہ حد سے بڑھنے لگ جتنا وہ سسکتی ، اتنا وہ آپے سے باہر ہو تا گیا یہاں تک کہ ، وہ روتی ہوئی اس کے پاؤں میں گر گئی:
“خدا کے لئے مجھے ہسپتال لے جاؤ ۔۔” اسے بے بس دیکھ کر مورتھی کو وہ اور ہی حقیر اور کمزور لگنے لگی ،اس نے نفرت سے شیری کو دھکا دے کر زمین پر گرایا اور اس کے منہ پر مکے برسانے لگا،غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہو رہا تھا ،آخر کار اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا ، یوں لگ رہا تھا جیسے اس رذلیل مخلوق کو وہ کسی کیڑے ہی کی طرح کچل دے گا ،ہاتھ بڑھا کر پلنگ سے تکیہ پکڑا اور اس کی ناک پر رکھا کہ اُس کا دم گھٹنے لگا اورشیری کو کئی سال پہلے والی وہی کیفیت یاد آئی جب رام پرشاد کے نیچے دبے اسے اپنا سانس اسی طرح گھٹتے محسوس ہوا تھا ۔
مورتھی ،اسے سچ مُچ جان سے مارنا چاہتا تھا تھا یا غصے سے حواس کھو بیٹھا تھا ، جو بھی تھا یہ منظر یاد کرتے ہو ئے وہ بتاتی ہے کہ نہ جانے اپنے انڈیا بیٹھے منتظر بچوں کا خیال آیا یا خودبے موت نہ مرنے کی خواہش اتنی شدید ہو ئی کہ اس کے اندر ایک ان دیکھی طاقت سی بھر گئی اور اسے نہیں پتہ کہ اس نے کیسے اپنے سے چار گنا طاقتوربندے کو اپنے اوپر سے ہٹا کرنیچے گرا دیااور خودپاگلوں کی طرح سیڑھیاں چڑھنے لگی، اس کے اندر ایک انجانی سی پھرتی بھر چکی تھی۔شائد اسی کو کہتے ہیں جسے رب رکھے اسے کون چکھے ۔۔ وہ اپنی جان بچا کر باہر کو بھاگ تو آئی مگر اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ اب جانا کدھر ہے ۔۔جیسے ہی اسے احساس ہوا کہ اس کا شوہر اس کے پیچھے نہیں آرہا اور وہ اس سے بہت دور آچکی ہے تو ایک دم اس کی ٹانگیں جواب دے گئیں اور وہ وہیں سائیڈ واک پر بے سدھ سی گر گئی ۔ایک گوری بوڑھی عورت نے اسے گرتے دیکھا تو اس کے پاس بھاگی آئی ۔۔یہاں سے وہ یلیو برک ہاؤس( وومن شیلٹر ہوم ) جا پہنچی اور اس کی زندگی کے ایک اور نئے باب کا آغاز ہوا ۔۔۔اس شیلٹر ہوم میں وہ دنیا تھی جو ، شیری کے خوابوں کی دنیا تھی ۔” برابری کی دنیا “۔۔ جہاں زندگی میں پہلی دفعہ اسے لگا کہ وہ باقی انسانوں کی طرح ایک انسان ہے ۔ نہ رنگ ، نہ مذہب ، نہ جنس ، اور نہ ذات ، وہ کسی بنیا د پر تحقیر کا نشانہ نہیں بن رہی ۔ وہ کم شکل تھی ، مگر جب سے وہ اس چار دیواری میں آئی تھی ، اسے ہر دوسرے منٹ یہ سننے کو ملتا:
“اوہ یو آر لکنگ سو پریٹی” ۔۔۔۔” یو آر سو نائس” ۔۔ “یو آر لکنگ گار جئیس” ۔۔”اوہ دس کلر از لکنگ امیزنگ آن یو” ۔۔۔ یہ سب سن کر وہ خوشی سے پھولی نہ سماتی اور اس کی شخصیت میں اعتماد آنے لگا ۔اس شیلٹر ہوم میں نہ صرف اُس کا علاج ہوا بلکہ انگلش لینگوئج کی کلاسوں کے ساتھ ساتھ وہ وہاں پر کمپئیوٹر کے کورسز بھی کر نے لگی ۔
جس دن اسے ، ایک عورتوں کے حقوق والی این جی او میں جاب مل گئی ، اس دن اسے لگا کہ وہ ایک بااعتماد اور خود پر انحصار کرنے والی ایک مضبوط عورت ہے ۔ زندگی کی خوشیوں پر اس کا بھی حق ہے ۔ وہاں موجود دوسری عورتوں نے اسے جینے کے ڈھنگ بتائے جیسے کہ :
” اپنے لئے جیؤ ۔۔” ۔ “پہلے اپنا آپ پھر کچھ اور یا کوئی اور ۔۔۔۔۔””خود خوش اور مضبوط ہو گی تو باقی کی دنیا بھی عزت کرے گی ، ورنہ سب پیروں نیچے رونددیں گے ۔۔۔”وغیرہ وغیرہ ۔
شیری، خود انحصاری کا یہ سبق پڑھتے پڑھتے بہت دور تک نکل گئی ۔ اس نے خوشی کبھی دیکھی نہیں تھی ۔ وہ تو خود کو لوگوں کی خوشی اور تسکین کا بس ایک سامان سمجھتی تھی ۔۔ خوشی پر اس کا بھی حق ہے ؟ جب اس چاردیواری کے اندر اسے یہ احساس دلایا گیا کہ خوشی پر اس کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا رام پرشاد ، یا اس وکیل کا یا ا س مورتھی کا ہے تو اسے شروع شروع میں تو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا اور جب یقین آیا تو یہ سمجھ نہ آیا کہ خوشی ہے کہاں ۔۔ اس کی تلاش میں وہ پھر ایک ساتھی ڈھونڈنے لگی ۔اور وہ گورا مل گیا جس کے ساتھ وہ آجکل رہ رہی ہے ، جسے ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا اور جس نے اُسے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دی ہو ئی ہے۔
اس لونگ ارینجمنٹ میں جب شیری کو یہ خیال آتا ہے کہ وہ کینڈا آکر بھی اسی وکیل کی رکھیل کی طرح رہ رہی ہے تو وہ خود سے الجھ جاتی ہے ۔ کیا میں ابھی بھی دوسروں کی خوشی اور آسانی کی خاطر گھر میں ڈالا ہوا ایک سامان ہوں ؟ کیا یہ میری خوشی ہے ؟ کیا میں وہی زمین پر رینگنے والا کیڑا ہوں ؟ کیا یہ گورا جو میرا محسن ہے ، آنکھوں والا ہوتا تو مجھ پر ایسی مہربانی کرتا ؟ کیا اس کو موقعہ ملتا تو یہ بھی میرے ساتھ دھوکہ نہ کرتا ؟
وہ کہتی ہے کہ وہ پیسے کی خاطر نہیں بس اپنی یہی طاقت آزمانے گورے پارٹنر کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نگر نگر کی سیر کو کسی بھی اجنبی کا ہاتھ تھامے نکل پڑتی ہے اس خوشی کی تلاش میں جس پر سب انسانوں کا حق ہو نا چاہیئے ۔ اس کا کہنا ہے کہ :
“وہ اپنے پارٹنر سے جھوٹ بول کر، مردوں کے دئیے پرانے زخموں کا حساب اس ایک بچارے مرد کی معذوری یا مجبوری سے نہیں لے رہی بلکہ محض اپنی خوشی کی خاطر کلب میں ڈانس کر نے جاتی ہے، ڈرنک کرتی ہے اور دنیا کی سیر کو نکل پڑتی ہے۔۔۔وہ اپنے حصے کی ، اور صرف اپنی خوشی کی تلاش کا حق رکھتی ہے جیسے کوئی بھی امیر ذادہ،کوئی بھی خوبصورت شکل یا اعلی ذات کا مرد ،یا کوئی وکیل ، کوئی ڈاکٹر یا کوئی گورایا کوئی بھی صرف مرد ۔۔یہ حق رکھتا ہے ۔۔اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔ ”
شیری ، دنیا کی عدالت میں ملزم ہے یا مظلوم ؟ وہ اس دنیا سے فیصلہ لینا بھی نہیں چاہتی ۔۔ وہ کہتی ہے اس دنیا کو میں نے اپنی جوتی پر لکھ لیا ہے ۔۔۔۔ اس دنیا کی کس کو پروا ۔۔۔۔شیری یہ سب باتیں انگلش میں کرتی ہے اور اسے ہندی ، مراٹھی یا تامل بولنے والوں کی رتی برابر پرواہ نہیں ۔۔۔۔اس کے پاس اس کی ہر حرکت کا ایک مضبوط جواز موجود ہے ۔۔ اور اس کے گہرے سانولے چہرے پر ایک عجیب سی چمک ہے نہ خوشی کی نہ اطمینان کی ۔۔۔۔۔نہ جانے کس چیز کی ۔۔۔ مگر وہ بضد ہے کہ یہ خوشی کی چمک ہے جو کینڈا نے اسے دی ہے ۔۔۔ تھینکس ٹو کینڈا کہتے اس کا منہ نہیں خشک ہو تا ۔۔۔۔
کہانی پڑھنے والے شیری کے بارے میں جو بھی رائے قائم کریں ، اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس لئے رائے قائم کرنے پر وقت
ضائع نہ کیا جائے ۔بس اس کی یہ بڑ بڑاہٹ دھیان سے سن لی جائے جو وہ اکیلے میں اپنے آپ سے کرتی ہے :
” آج میں اتنی مضبوط ہو گئی ہوں کہ ایک مرد کو دھوکہ دینے کی طاقت رکھتی ہوں ۔۔ میرا سفر رائگاں نہیں گیا ۔۔ میری سفرنگز بھی رائگاں نہیں گئیں ۔۔ “اس کے ساتھ ہی وہ ایک بھیانک سا قہقہ لگاتی ہے ۔ جس سے اس کے چہرے پر خوشی یا سکون نہیں بلکہ ایک ناسمجھ آنے والی چمک، دھویں میں ملفوف نظر آتی ہے ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شیری کا انتقام….روبینہ فیصل

Leave a Reply to FAISAL MIRZA Cancel reply