مولا جٹ۔۔۔رانا لیاقت خاں

کچھ سال پہلے رانا صابر علاقے کی ایک مسجد میں یہ کہہ کر نماز جمعہ کیلئے لے گیا کہ ہماری مسجد میں ایک شعلہ بیاں خطیب آیا ہے، بہتر ہے کہ آپ بھی اُن سے کچھ سیکھ لیں ۔
علم کی طلب میں صابر کے ساتھ چلا گیا ۔
مولانا صاحب کے خطاب کا موضوع تھا ، فلم، کیبلز ،انٹر نیٹ ،موبائل فون۔
مولانا صاحب نے ان چیزوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔انہیں اسلام سے منافی، اور دین سے متصادم قرار دینے کیلئے بھر پور زور لگایا۔
بعداز نماز جمعہ مسجد کی لائبریری میں چائے کا انتظام تھا۔۔۔
مولانا صاحب سے میرا تعارف کروایا گیا ۔وہاں اور بھی کچھ علما تشریف فرما تھے، مولانا صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ جناب میرا موضوع اور خطبہ کیسا تھا؟
میں نے بجائے جواب دینے کے سوال کیا کہ جناب آپ نے فلم مولا جٹ دیکھی ہے؟
جو جہاں تھا وہیں رک گیا۔۔۔۔
سب مجھے حیرت سے دیکھنے لگے، مولانا صاحب تو مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں ۔
لاحول ولاقوة ۔۔۔۔
مولوی صاحب قدرے ناراضی سے کہنے لگے
” آپ مسجد میں بیٹھ کر کوئی اور مثال نہیں دے سکتے تھے ؟”
میں نے کہا کہ مولانا صاحب آپ نے اپنے سارے خطبے میں فلموں کا ہی تو ذکر کیا ہے، میں کردوں گا تو پھر کون سی قیامت آجائے گی،
کچھ دیر بحث  کے بعد مجھے بات کرنے کی اجازت مل گئی
میں نے کہا۔۔
” فلم مولاجٹ ایک ایسی فلم تھی جس نے گو کہ ہمارے معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا کیا، مگر میں نے آج تک موضوع کے اعتبار سے ایسی کوئی فلم نہیں دیکھی جو ایک نقطے سے شروع ہو، اور ساری فلم اسی نقطے پہ چلتی جائے۔”
مولوی صاحب، نظر آرہا تھاکہ مجھے برداشت کر رہے تھے، میں نے اپنی بات جاری رکھی ۔
“اس کے علاوہ یہ ایک ایسی فلم ہے جو قرآن کے اصل پیغام کے بالکل قریب ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔۔۔

“اے ایمان والو تم تقوی اختیار کرو۔۔
جو تم میں تقوی والے ہیں وہ سب سے بہتر ہیں ”
“پر تقوی ہےکیا ؟ ”
“اس کی تشریح ہر کوئی اپنے حساب سے کرتا ہے ،مگر ایک بات طے ہے  کہ دین کی بنیاد اللہ تقوی کو قرار دے رہا ہے ۔پھر اللہ تعالی تقوی کا معنی خود ہی بیان کرتا ہے ۔
“اے ایمان والو انصاف کیا کرو یہ تقوی کے سب سے قریب ہے “( المائدہ8)
مطلب یہ ہوا کہ انصاف دین کی پہلی سیڑھی ہے
اور دوسری بات یہ کہ تم اللہ کے نظام کے لئیے ٹکرا جاؤ یہاں تک کہ ان کو یہ نظام تسلیم کرنا پڑے۔

“اے نبی تم ان مشرکوں کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک کہ صلوۃ کا اور زکواۃ  کا نظام تسلیم کر لیں ( توبہ5)

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آتے ہیں پھر فلم کی طرف ،فلم شروع ہوتے ہی ایک ٹائٹل چلتا ہے،جس میں حدیثِ قدسی بیان کی جاتی ہے کہ
“میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا ۔۔۔۔۔
پھر بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے قیام سے لے کر آج تک انسان کے صرف دو گروہ ہیں ایک شیطان کا گروہ اور ایک رحمان کا گروہ
مولا جٹ انصاف کرنے والا تھا اور نوری نت فساد مچانے والا ۔
فلم شروع ہوجاتی ہے مولاجٹ جو کہ پچیس گاوں کا نمائندہ ہوتا ہے وہ ایک فیصلہ جاری کرتا ہے،اس کے بعد ساری فلم اسی ایک نقطے پہ چلتی ہے۔
نوری نت کہتا ہے کہ میں نے تیرا فیصلہ نہیں ماننا ، مولا جٹ کہتا ہے کہ میں نے ایک منصف ہونے کے ناطے یہ فیصلہ دیا ہے لہذا تم کو یہ ماننا پڑے گا ۔
ساری فلم اسی کشمکش میں چلتی رہتی ہے پھر آخر میں نوری نت کو اس کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے ۔
اور وہاں مولا جٹ جو فقرہ بولتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ دین کی بنیاد بیان کرتا ہے۔
وہ کہتا ہے
“دفن کردیو ایس گنڈاسے نوں اور ایدی قبر تے لکھ دیو کہ انسانیت انتقام نئیں  انصاف چاہندی اے ۔۔۔۔اگر انصاف ہندا رئے تے کوئی مولا پیدا نئی ہوسکدا ”
مولانا صاحب میں نے تو اس سے بہت سبق سیکھا ہے ۔
فلم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے آپ کوئی اچھا پیغام لوگوں تک پہنچا سکتے ہو۔
کوئی چیز بھی حرام نہیں ہوتی ہر چیز کا استعمال ہی اسے حرام یا حلال قرار دلواتا ہے۔۔
اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔
وہ گھمسان کا رن پڑا کہ نکلنے میں ہی عافیت تھی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply