تنظیم اسلامی کا زوال اور اس کے اسباب۔۔۔عمران بخاری/قسط5

انسان جب اپنی انفرادی زندگی کے دائرے سے خود کو نکال کر کسی اجتماعیت کو وجود دیتا ہے یا اس کا حصہ بنتا ہے تو اس کے پیشِ نظر کوئی نا کوئی بلند تر مفاد پیشِ نظر ہوتا ہے۔ اگر اس بلند تر مفاد کا رُخ دوسروں کی فلاح یا بھلائی ہو تو اصول پسندی جنم لیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان کا بلند تر مفاد اس کی اپنی ذات کے گرد گھوم رہا ہو تو مفاد پرستی جنم لیتی ہے۔ اصول پسندی انسان کو سچ کے ساتھ چپکے رہنے کا درس دیتی ہے جبکہ مفاد پرستی انسان کو موقع پرستی اور جھوٹ کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔ اصول پسند انسان بڑی سے بڑی تکلیف تو برداشت کر سکتا ہے لیکن جھوٹ بول کر ضمیر کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ لہٰذا سچ بولنا اصول پسندی کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس کے برعکس مفاد پرست انسان جھوٹ بول کر ضمیر کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے لیکن سچ بول کر کسی بھی قسم کی تکلیف یا ناکامی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اسی طرح دانشمند اور چالاک آدمی میں بھی بنیادی فرق یہ ہے کہ دانشمند آدمی دور رس نتائج کو دیکھتے ہوئے اصول پسندی کے راستے کو چنتا ہے جبکہ چالاک آدمی وقتی مفاد کو دیکھ کر جھوٹ کا راستہ چنتا ہے۔

جھوٹ کا ایک المیہ یہ ہے کہ انسان کو بولا گیا جھوٹ یاد نہیں رہتا۔ نتیجتاً انسان کچھ ہی عرصے بعد اپنے بولے گئے جھوٹ کا بھانڈا خود ہی پھوڑ بیٹھتا ہے۔ ایسی صورت بہر حال کسی بھی انسان کے لیے باعثِ ندامت اور بے سکونی کا باعث ہوتی ہے۔ انسان خود کو اس ندامت اور بے سکونی سے بچانے کے لیے پہلے بولے گئے جھوٹ کو ڈھانپنے کے لیے ایک نیا جھوٹ گھڑتا ہے۔ اور اس طرح جھوٹ کا نہ ختم ہونے والا شیطانی چکر وجود میں آ جاتا ہے۔ انسان ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولتا ہے۔ اگرچہ جھوٹے انسان کے پیشِ نظر خود کو ندامت اور اس سے پیدا ہونے والی بے سکونی سے بچانا ہوتا ہے لیکن جھوٹ کے شیطانی چکر میں پھنس کر وہ اپنے ہاتھوں ہی اپنے سکون کا گلا گھونٹ بیٹھتا ہے۔ ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کے جھوٹ کا بھانڈا ہی نہ پھوٹ جائے۔ شروع شروع میں بے سکونی کی وجہ ضمیر کی ملامت اور جھوٹ کے پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے لیکن ایک خاص وقت کے بعد ضمیر کی ملامت ختم ہو جاتی ہے۔ جسے ہم ضمیر کے مردہ ہونے سے تشبیہ دیتے ہیں۔

تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اصول پسندی کی بنیاد پر کھڑی کی گئی اجتماعیت بھی ایک خاص وقت گزرنے کے بعد مفاد پرست اجتماعیت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اجتماعیت کے اصول پسندی سے مفاد پرستی کے سفر کا آغاذ بھی اجتماعیت کی چوٹی پر بیٹھے شخص سے شروع ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ زہر اجتماعیت کی رگ رگ میں اترنے لگتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ پوری اجتماعیت جھوٹ کو اپنی اسٹریٹیجی کا حصہ بنا لیتی ہے اور اسے فکری طور پر جائز بھی سمجھنے لگتی ہے۔ تنظیمِ اسلامی میں مفاد پرستی کا یہ سفر جماعت کے امیر حافظ عاکف سعید سے شروع ہوا اور درجہ بدرجہ اس نے پوری جماعت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حافظ عاکف سعید کی شخصیت میں پائی جانے والی مفاد پرستی اور موقع پرستی کو جانچنا ہو تو اُن کی زندگی کے گذشتہ پچیس تیس برس کے واقعات اور وارداتوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ نوے کی دہائی میں اگر موصوف کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں دو پہلو یا واقعات انتہائی اہم ہیں۔ وہ پہلے تنظیمِ اسلامی کے ماہانہ رسالے “میثاق” کے مدیر تھے۔ چنانچہ رسالے کا اداریہ عاکف سعید صاحب ہی لکھتے تھے۔ کوئی بھی تحقیق کرنے والا اگر نوے کی دہائی کے میثاق کے اداریے پڑھے تو ان میں وہی انقلابی رنگ نظر آئے گا جو کہ ان کے والد ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔ عام رفقاء میں حافظ عاکف سعید نے اپنا وہی فکری امیج پیدا کیا جو ان کے والد کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اپنے جانشین کے لیے تنظیم میں مشاورت کی تو تنظیم ہی کے چند سینئر رفقاء نے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو حافظ عاکف سعید کا نام امارت کے امیدوار کے طور پرتجویز کیا، حالانکہ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی ایک کتاب میں خود لکھا ہے کہ وہ حافظ عاکف سعید کو امارت کے لیے موزوں امیدوار تصور نہیں کرتے تھے۔ جو سینئر رفقاء حافظ عاکف سعید کے انقلابی کیموفلاج کو نہیں بھانپ سکے انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمد پر بھرپور زور ڈالا کہ وہ اپنے بیٹے کی مخالفت میں ہتھیار ڈال دیں۔ میری رائے میں ڈاکٹر اسرار احمد پر پدرانہ شفقت کی کمزوری بالآخر غالب آ گئی اور انہوں نے بیٹے کی مخالفت میں ہتھیار ڈال دیے۔ دوسرا اہم پہلو حافظ عاکف سعید کی شخصیت کا یہ ہے کہ آج کل موصوف لوگوں کو بتاتے پھرتے ہیں کہ ان کا شروع سے ہی تصوف کی طرف بھرپور جھکاؤ ہے۔ لیکن اپنی یہ سوچ انہوں نے کمال ہوشیاری سے اپنے والد اور باقی رفقاء سے چھپائے رکھی۔ نوے کی دہائی میں ڈاکٹر اسرار احمد کی جانشینی کے لیے جب چھ افراد کو شارٹ لسٹ کیا گیا، اُن سے انٹرویو اور پریزینٹیشن لی گئی تو اس وقت بھی موصوف نے کسی کے کانوں تک کو بھنک نہیں لگنے دی کہ وہ تصوف کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ ان چھ نامزد افراد میں سے ایک نام ڈاکٹر عبداسمیع کا تھا۔ رفقاء کی اکثریت نے انٹرویو کے بعد انہیں صرف اس بنیاد مسترد کر دیا کہ وہ فیملی پلاننگ کے جدید ذرائع استعمال کرتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسمیع کو اگر اتنی سی بات پر تنظیم کے رفقاء کی اکثریت نے امارت کے لیے مسترد کر دیا تو کیا حافظ عاکف سعید تصوف کی طرف اپنا رجحان بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر عبداسمیع کی طرح امارت کی دوڑ سے باہر ہونے سے خود کو بچا سکتے تھے؟ یقیناً نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے رفقاء کو اپنی اس سوچ کے بارے اندھیرے میں رکھا۔ مفاد پرستی اور موقع پرستی کے فرد سے شروع ہونے والے اس سفر نے آج جماعت کو اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے کہ تنظیم کے ہفتہ وار رسالے “ندائے خلافت” کے سرورق پر حکمتِ عملی کے تحت بولے گئے جھوٹ کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں سلیم صافی نے ملا عمر کی وفات کی خبر کو دو سال تک چھپائے رکھنے پر طالبان پر تنقید کی تو تنظیمِ اسلامی کے عالمی اور داخلی سیاسی معاملات پر پروجیکٹ کیے جانے والے ماہر جناب ایوب بیگ مرزا صاحب نے ندائے خلافت کے اداریے میں تنظیم کا مؤقف کچھ یوں لکھا کہ “ہم قطعی طور پر اس بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ طالبانِ افغانستان نے ملا عمر کی موت کو کیوں چھپایا۔ کس کتاب میں لکھا ہے کہ کسی کی بھی موت کا خصوصاً اپنے قائد کی موت کا لازماً ڈھنڈورا پیٹو۔ افغان طالبان ایک جابر اور غاصب قوت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ ان پردیسیوں اور خارجیوں کو اپنے دیس سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں جو افغانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ اُن کی موت کو صیغۂ راز میں رکھنا ایک اسٹریٹیجی تھی”۔ اناللٰہ وانا الہ راجعون۔ بقول شاعر پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج تنظیمِ اسلامی جس بحران سے گزر رہی ہے اُس میں اگر تنظیم کے ذمہ داران کا کردار دیکھیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مفاد پرستی اس جماعت کی رگوں میں کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔ امیر سے لے کر نیچے ذمہ داران تک جھوٹ کو اپنی اسٹریٹیجی کا حصہ بنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں بیدار ذہن اور زندہ ضمیر رکھنے والے رفقاء اپنے امیر اور تنظیم کے باقی ذمہ داران کے جھوٹوں سے تنگ آ کر تنظیم کو خیر باد کہہ چکے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ لیکن تنظیم کی مفاد پرست قیادت کسی بھی طور اپنے مفادات سے دستبردار ہونے کو تیار نظر نہیں آتی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مفاد پرستوں کے اس ٹولے نے طے کر لیا ہے کہ اب اس جماعت کو اصول پسندوں سے پاک کرنا ہے۔ اس تمام صورتحال سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تنظیم کی قیادت چالاک لوگوں کے ہاتھ میں ہے یا دانشمندوں کے ہاتھ میں ہے۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply