مہمان۔۔۔مرزا مدثر نواز

حضرت معروف کرخیؒ کے گھر جو بھی آتا ‘آپ اس کی خدمت ایک خادم کی طرح کرتے۔ ایک دن ایسا مہمان آیا جو قریب المرگ تھا‘ اس کی جان معلوم نہیں کہاں اٹکی ہوئی تھی‘ رات کو وہ خود سویا نہ کسی اور کو سونے دیا۔ وہ اس قدر تند مزاج تھا کہ میزبان کا ناطقہ بند کر دیتا تھا۔ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس قریب المرگ کے چیخنے چلانے سے وہاں سے بھاگ گئے۔ اب صرف معروف کرخی اور وہ بیمار رہ گئے تھے‘ انہوں نے رات بھر اس کی خدمت کی اور اسے برداشت کیا۔ وہ کئی روز تک ان کا مہمان رہا۔ ایک رات حضرت ذرا سی دیر کے لئے سو گئے تو مہمان نے بد اخلاقی اور بد زبانی کی انتہا کر دی‘ وہ بار بار یہ الفاظ دہرا رہا تھا کہ لوگ صوفیانہ لباس پہن کر لوگوں کو پھانستے ہیں‘ بھلا جو شخص پیٹ بھر کر کھائے اور گھوڑے بیچ کر سوئے‘ بیمار اس کے گھر میں موجود ہو ‘ وہ اللہ والا کیسے ہو سکتا ہے۔ حضرت معروف کرخیؒ کی آنکھ کھل گئی اور یہ سب اپنے کانوں سے سن لیا‘ انہوں نے اسے کوئی اہمیت نہ دی مگر گھر سے ایک عورت نے قریب آ کر کہا: ’’ تم نے کچھ سنا؟ یہ بیمار کیا کہہ رہا ہے‘ مر جائے ایسا مہمان‘ کھاتا بھی ہمارا ہے‘ آرام سے کئی روز سے اس گھر میں نوابوں کی طرح پڑا ہے اور کوستا بھی ہمیں کو ہے‘ کمینے کو تکیہ نہیں دینا چاہیے‘ بدو کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہوتی ہے‘ نا اہل کے ساتھ نیکی کیوں کرکے ضائع کی جائے‘ بد مزاج کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا تو ایسے ہی ہے جیسے پیار سے کتے کی پشت سہلائی جائے‘‘۔ حضرت نے مسکرا کر فرمایا ’’ نیک بخت! اس بیمار کی باتوں کا برا نہ مان‘ وہ تکلیف میں ہے‘ اسی لیے وہی بک رہا ہے‘ مجھے اس کی باتیں اچھی لگتی ہیں‘ اس سے ہمیں ناراض نہیں ہونا چاہیے‘ اسے معذور سمجھ کر ہم اس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کریں گے‘ تجھے یہ نہیں معلوم کہ ایسے انسانوں کے خدمت گزاروں کو حیاتِ ابدی مل جاتی ہے‘‘ (حکایتِ سعدیؒ )۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زمانے کے رسم و رواج بڑی تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائی تک میرج ہالز اور مارکی کا کاروبار بہت زیادہ پھلا پھولا نہیں تھا‘ پیسے کی ریل پیل بھی اتنی نہیں تھی‘ ایکدوسرے کے ہاں مہمانوں کی آمد عام سی بات تھی‘ شادی کے موقع پر رشتہ دار کئی دن پہلے آ کر کام کاج میں ہاتھ بٹاتے تھے اسی طرح غمی کے موقع پر بھی کئی کئی دن لوگ ایک دوسرے کے ہاں قیام فرماتے تھے۔ معاشی سبقت کی دوڑ‘ انٹر نیٹ کی موجودگی میں وقت کی بے برکتی ‘ اخلاص و چاہت کی کمی اور دیگر وجوہات کی بناء پر اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی مہمان و میزبان جیسی کئی دوسری روایات نے دم توڑنا شروع کر دیا ہے۔ لہٰذا موجودہ نظام تمدن میں مہمانداری  کی زحمت ہوٹلوں اور ریسٹورانوں نے اپنے سر لے لی ہے مگر اب بھی مہمان نوازی مشرقی تمدن کے خمیر میں داخل ہے اور مغربی تمدن نے بھی اس کی رسمی حیثیت کو باقی رکھا ہے‘ ہر انسان کسی نہ کسی وقت کسی کا مہمان ہوتا ہے اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ سوسائٹی کے نظام میں اس کی حیثیت مبادلہ اخلاق کی ہے‘ آج ہم اپنے مہمان کے ساتھ نیک سلوک اور عزت کا برتاؤ کریں گے تو کل وہ ہمارے ساتھ کرے گا۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرف فرشتوں کا مہمان بن کر آنے والی حکایت سے آداب مہمان داری کے متعلق حسب ذیل نتیجے نکالے جا سکتے ہیں‘ مہمان اور میزبان میں کلام کی ابتداء باہمی سلام سے ہونی چاہیے‘ مہمان کے کھانے پینے کا فوراََ سامان کرنا چاہیے‘ مہمانوں کے کھانے پینے کا سامان مخفی طور پر ان کی نگاہ سے بچا کر کرنا چاہیے‘ کسی بہانے سے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے الگ ہو جانا چاہیے تا کہ ان کو آرام کرنے یا دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو‘ مہمانوں کے سامنے عمدہ سے عمدہ کھانا پیش کرنا چاہیے‘ ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے‘ مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ کھانے سے مغموم ہونا چاہیے‘ نہ کھانے کی حالت میں مہمانوں کو عمدہ الفاظ میں عذر کرنا چاہیے۔
احادیث میں مہمان نوازی کو ایمان کامل کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے‘ فرمایا کہ ’’ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کا جائزہ عزت کے ساتھ دے‘‘۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس کا جائزہ کیا ہے؟ فرمایاکہ ’’ ایک دن اور ایک رات اور مہمانی تین دن کی ہے‘ اس کے آگے مہمان پر صدقہ ہو گا‘‘۔ نیز فرمایا کہ ’’ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے قرابت کے تعلقات کو جوڑے رکھے‘‘۔ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن کو روزہ رکھتے ہو؟انہوں نے کہا بے شک‘ فرمایا ایسا نہ کرو‘ نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی‘ روزہ بھی رکھو اور بے روزہ بھی رہو‘ کیوں کہ تمہارے اوپر تمہارے جسم کا حق ہے‘ تمہاری آنکھ کا حق ہے‘ تمہارے مہمانوں کا حق ہے اور تمہاری بی بی کا حق ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’ ایک شب کی مہمانی تو واجب ہے‘ پھر اگر مہمان کسی کے یہاں رہ جائے تو مہمانی اس پر قرض ہے‘ چاہے وہ لے لے‘ چاہے چھوڑ دے‘‘۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مہمان۔۔۔مرزا مدثر نواز

Leave a Reply to Mansoor Pasha Cancel reply