عورت کی سماجی و حقیقی حیثیت تاریخ کے آئینے میں

 

اس مہینے میں عورت مارچ منایا گیا، سوچا کہ کوئی مضمون لکھ دیا جائے لیکن جب عورت مارچ پر ہر حلقے سے شدت سے حمایت اور مخالفت پر سوشل میڈیا شدید تنقید یا حمایت کا میدان بن گیا اور ہر مکتبہ فکر نے اس پر خوب خوب آراء دی ، مخالفت یا حمایت کے بیچ، بینرز پر لکھے گئے جملوں پر گالی اور جگت کے درمیان مجھے ایسا لگا عورت کے حقوق کی اصل بات تو واقعی کہیں گم ہی ہوگئی، عورت کے حقوق پر واقعتا بہت ہی کم مثبت تحریریں دیکھنے کو ملیں ۔ اسی دوران کچھ واقعات بھی سامنے آئے ، جس کے بعد سوچا کیوں نہ کچھ لکھ ہی لیا جائے۔

جیسے دو کمسن ہندو اقلیت برادری کی بچیوں کے قبول اسلام اور شادی کا واقعہ، جسے میں ذاتی طور پر اسلام قبولیت سے ذیادہ معاشی دولہا قبولیت سمجھتا ہوں، میرے نزدیک یہ اسلام یا شادی کے حق سے زیادہ ان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں نے شائد اپنی زندگی کی معاشی تبدیلی کا فیصلہ تھا۔

اس ہفتے سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ڈسکس ہونے والا ایک اور واقعہ جس میں ایک عورت کے بال مونڈ دئیے گئے کہ اسے زبردستی ناچنے پر مجبور کیا گیا تھا، بعد میں اس عورت کی نجی محفل میں رقص کرنے کی ویڈیو نے ایک بڑے حلقے کو بال کاٹنے کے اقدام کے جائز ہونے کا عندیہ دے دیا، باوجود اس خاتون کا مرضی سے رقص کرنا ، اور جبری رقص کرانے سے جسٹیفائی تو نہیں ہوسکے گا۔ اس ظلم کو اس خاتون کے کسی اور موقع پر ڈانس کرنے سے اس کے بال کاٹنے اور مارنے پر کیا قابل قبول سمجھا جائے گا؟

دو دن پہلے پشاور میں ایک شوہر نے شادی کی تقریب میں خاتون کے سر سے دوپٹہ گرنے پر بیوی کے سر کے سارے بال کاٹ دیئے۔شوہر نے اپنی بیوی کو معمولی تکرار پر اس کے سر کے بال کاٹنے کے بعد تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔مزکورہ خاتون جس کے بال کاٹنے گئے اس کا کہنا ہے کہ جھگڑا شادی کی تقریب میں سر سے دوپٹہ گرنے پر شروع ہوا تھا، جس پر شوہر نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔متاثرہ خاتون نے کہا کہ رپورٹ کرنے کی صورت میں شوہر نے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں، سوال تو یہ کے کہ کیا اس کے شوہر نے اس عورت کے بال مونڈھ کر اس عورت کے گناہ کو پاکیزہ کیا ہے یا واقعی ظلم کیا ہے ؟

یہ سب واقعات کا ایک ایسا تسلسل ہے جو دہائیوں سے ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے ، اور ہم وقتی طور پر انہیں ایک واقعے کی حیثیت سے مذمت کرکے خود اسی معاشرے میں عورت پر جبر کے تسلسل کا حصہ بنتے رہتے ہیں ، اس کی روک تھام کے لئے پورا سماجی و روایتی، قبائلی و مذہبی رحجانات کو ازسر نو دیکھنا ہوگا۔
معاشرتی لحاظ سے ہماری پوری تاریخ میں ایسے بہت کم موضوع پائے جاتے ہیں جو عورت کی شخصیت یا ہیئت کے موضوع کی نسبت زیادہ تنقید وغیرہ کا نشانہ بنے ہوں یا ان کے بارے میں متعدد اور مختلف تشریحات کی گئی ہوں ابھی بھی یورپی اور مشرقی دنیا میں عورت کے بارے میں غلط، بے ڈھنگ اور گمراہ کن نظریات پائے جاتے ہیں

تاریخ بشریت میں ہی عورت کے شر ہونے کا نظریہ اور عقیدہ بہت پرانا ہے قریب قریب ماضی کی تمام ہی انسانی تہذیبوں نے عورت کے لئے یہی رویہ روا رکھا ہے ۔پروفیسرمیاں انعام الرحمن اپنے مضمون’’غیرمادی کلچرمیں عورت کے سماجی مقام کی تلاش‘‘ میں لکھتے ہیں :تاریخ کے قدیم دور سے لے کر ہمارے اپنے عہد تک صنف ِ نازک کے سماجی مقام کی نوعیت ہمیشہ زیربحث رہی ہے ۔اس ضمن میں معلوم تاریخ کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ صنف ِ نازک ہردور میں مرد کے زیر نگیں رہی ہے۔
عورت کی مظلومیت اور بے بسی کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے August Bell نے لکھا تھا کہ:

’’قدیم دور میں عورت کی حیثیت انتہائی درجہ کے استبداد سے دوچار تھی ۔اسے جسمانی طورپر مغلوب کرکے قبضے میں رکھاجاتا اور ذہنی طورپراس سے بھی زیادہ ظلم روارکھا جاتا تھا ۔خانگی معاملات میں اس کی حیثیت نوکروں سے صرف ایک درجہ بہترتھی ۔اس کے اپنے بیٹے اس کے آقا ہوتے تھے ‘ جن کی فرمانبرداری اس پر لازم تھی۔‘‘

مختلف اقوام میں عورت کا مقام

یونان:

یونان انسانی تاریخ میں تہذیب و تمدن اور علم و فن کا سب سے قدیم گہوارہ ماناجاتاہے۔ لیکن تہذیب وثقافت اور علم و ادب کے اس مرکز میںعورت کو کوئی احترام حاصل نہ تھا ۔ یونانیوںکے نزدیک عورت ایک ادنی درجہ کی مخلوق تھی اور عزت واحترام کے لائق صرف مرد تھا‘ سقراط جو اس دور کامشہور فلسفی تھا‘اس کا یہ خیال ہے :
’’عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں ‘وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔‘‘
یونانی (Mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا(Pandora)کو تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا۔
لیکی نے اپنی کتاب ’’تاریخ اخلاق یورپ میں لکھا ہے:

’بحیثیت مجموعی باعصمت یونانی بیوی کا مرتبہ انتہائی پست تھا ‘اس کی تمام زندگی غلامی میں بسر ہوتی تھی‘ لڑکپن میں اپنے والدین کی‘ جوانی میں اپنے شوہر کی‘ بیوگی میں اپنے فرزندوں کی‘ وراثت میں اس کے مقابلے میں اس کے مرداعزہ کا حق ہمیشہ راجح سمجھا جاتا تھا۔ طلاق کا حق اسے قانوناًضرورحاصل تھا تاہم عملاً وہ اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتی تھی‘ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس وحیاء کے منافی تھا ۔افلاطون نے مردوعورت کی مساوات کا دعویٰ کیاتھا لیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی ۔عملی زندگی اس سے بالکل غیرمتاثررہی۔ازواج کا مقصدخالص سیاسی رکھاگیا تھایعنی اس سے طاقتور اولاد پیداہوجو حفاظت ِ ملک کے کام آئے اور اسپارٹا کے قانون میں یہ تصریح موجود تھی کہ ضعیف القوی شوہروں کو اپنی کم سن بیویاں کسی نوجوان کے حبالہ ٔعقد میں دے دینی چاہئیں تاکہ فوج میں قوی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔‘‘
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے الفاظ میں’’قدیم یونانی تہذیب میں عورت کامقام اتنا گرا دیا گیا تھا کہ اس کی حیثیت بچے پالنے والی لونڈی کی ہوگئی تھی‘عورتوں کو ان کے گھروں میں قید کردیا گیا تھا، وہ تعلیم سے محروم تھیں‘ان کے شوہر انہیں گھریلو سامان کی طرح سمجھتے تھے۔
عام طور پر عورت گھر اور گھر کے سامان کی حفاظت پر مامور ایک ملازم کی حیثیت رکھتی تھی اس کے اور اس کے شوہر کے غلاموں کے رتبہ میںکچھ زیادہ فرق نہ تھا ‘وہ اپنی مرضی سے نکاح نہیں کر سکتی تھی‘ بلکہ اس کی رائے جانے بغیر اس کا نکاح کیاجاتاتھا‘ وہ خود بمشکل طلاق لے سکتی تھی‘ لیکن اولاد نہ ہو نے یاناپسندیدگی کی صورت میں شوہراسے طلاق دے سکتا تھا۔ مرد اپنی زندگی میں جس دوست کو چاہتا‘ وصیت میں اپنی زوجہ کو بطورنذرانہ پیش کر سکتا تھا۔ عورت کو خود کسی چیز کے فروخت کرنے کا اختیار نہ تھا۔یونانی معاشرے میں بھی لڑکے کی پیدائش فرحت کا تو لڑکی کی ولادت غم کاباعث ہواکرتی تھی۔

روم:

یونانیوں کے بعد دنیا میںجس قوم کو عروج نصیب ہوا، وہ اہل روم تھے، رومی معاشرے کو تہذیب و تمدن کا مرکز تصور کیا جاتا تھا، لیکن اس معاشرے میں بھی عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا تھا‘اس کی کوئی قابل احترام حیثیت نہ تھی ۔عورت کے معاملے میں رحم اورنرمی کابرتائو بالکل نہ تھا ‘ وہ سنگدلی اور شقاوت قلبی کی بھینٹ چڑھ جاتی تھی ۔ اگر مرد کو اپنی بیوی کے کردارپرکچھ شبہ بھی ہوتا تو وہ اسے قانونی طور پر موت کے گھاٹ اُتار دینے کا حق رکھتا تھا۔ مزید یہ کہ اپنی خواہش کے مطابق اسے مارڈالنے کا طریقہ کاراپنانے کابھی مرد مکمل اختیار تھا۔

روم کے حوالے سے مولاناسیدجلال الدین عمری روم میں عورت کی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
غلاموں کی طرح عورت کا مقصد بھی خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا‘ مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ بیوی سے فائدہ اُٹھا سکے گا‘ وہ کسی عہدہ کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی‘ حتی کہ کسی معاملے میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ رومی سلطنت میں اسے قانونی طور پر کوئی حق حاصل نہ تھا۔

حتی کہ بابل کی تہذیب کے عروج کے دوران بھی عورت کو خریدا اور بیچاجاتاتھا۔ اسے جائیداد کے حق سے بھی محروم رکھاجاتاتھا۔ ضرورت پڑنے پرباپ اپنی بیٹیوں کو فروخت کردیتے تھے۔
غرض یہ کہ تہذیب وتمدن کے عظیم مراکز مانے جانے والے یونان وروم عورت کو اس کا جائز مقام اوربحیثیت انسان عزت و احترام دینے سے قاصر تھے۔

یورپ:

انیسویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب سے قبل وہاں عورت‘ مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی ۔کوئی ایسا قانون نہیں تھا جو عورت کو مرد کی زیادتیوں سے پناہ دیتا ۔ انگلستان کے قانون کے مطابق شادی کے بعد عورت کی شخصیت مرد کی شخصیت کا ایک جز بن جاتی تھی ‘یہ اصول بھی وہاں رائج تھا کہ شادی کے بعد عورت کے ذمہ جو قرض ہوگا وہ مرد ادا کرے گا اور اس کی جائیداد‘ مال و دولت کاوہ حقدار ہوگا‘نان و نفقہ کا بھی کوئی مناسب قانون نہ تھا ‘عورت مرد کے خلاف مقدہ دائر نہیں کرسکتی تھی ‘ مرد چاہتاتو عورت کو حق ِ وراثت سے محروم کردیتا لیکن بیوی کی جائیداد کا وہ جائز حقدارماناجاتا تھا۔

جان اسٹارٹ مل ( John Stuart Mill) نامی مصنف اپنی کتاب ’’محکومیت ِ نسواں‘‘ میں لکھتا ہے :
انگلستان کے قدیم قوانین میں مرد کو عورت کا مالک تصورکیاجاتا تھا بلکہ وہ اس کا بادشاہ ماناجاتا تھا ‘ یہاں تک کہ شوہر کے قتل کا اقدام قانونی اصطلاح میں بغاوت ِ ادنیٰ کہلاتا تھا اور عورت اس کا ارتکاب کرے تو اس کی پاداش میں اسے جلادینے کا حکم تھا۔
رابرٹ بریفالٹ کا کہنا ہے :’’پانچویں صدی سے لے کر دسویں صدی تک یورپ پرگہری تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔اوریہ تاریکی آہستہ آہستہ زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی اس دور کی وحشت اوربربریت زمانہ قدیم کی وحشت اوربربریت سے کئی درجہ بڑھی چڑھی ہوئی تھی ‘کیوں کہ اس کی مثال ایک بڑے تمدن کی لاش کی تھی ‘جوسڑگئی ہو ‘اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے ‘ اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی ۔ ’’قدیم یورپ بلکہ دنیابھر میں عورت کوکوئی قدرومنزلت حاصل نہیں تھی۔قدیم علما ء اور فلاسفہ عرصہ دراز تک اس کے بارے میں کچھ اس قسم کے موضوعات پر سرکھپاتے رہے کہ کیاعورت میں بھی روح ہوتی ہے ؟ اگر اس میں روح ہوتی ہے تو یہ انسانی روح ہے یا حیوانی روح؟ اوراگر انسانی روح ہے تومرد کے مقابلے میں اس کا صحیح معاشرتی مقام کیا ہے؟کیاعورت پیدائشی طورپر مرد کی غلام ہے یا غلام سے اس کا مقام کچھ اونچا ہے؟

ایران

ایرانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور اگر کسی درجے پر اُسے اہمیت دی بھی جاتی تو صرف ایک غلام کی ۔ شوہرکویہ اختیار تھا کہ اپنی بیوی یا بیویوں میں سے ایک کوچاہے وہ بیاہتا بیوی ہی کیوں نہ ہو‘ کسی دوسرے بے روزگار شخص کو اس مقصد کے لیے دے کہ وہ اس سے ذریعہ ٔمعاش میں مدد لے‘ اس عمل میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں ہوتی تھی‘ عورت کو شوہر کے مال و اسباب پر تصرف کاکوئی حق نہیں تھا‘ اور اس عارضی ازدواجی زندگی میں جو اولاد پیداہوتی تھی‘ وہ پہلے شوہر کی تسلیم کی جاتی تھی‘ یہ مفاہمت ایک باضابطہ قانونی اقرار نامے کے ذریعے انجام پاتی تھی ۔ ایرانیوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ عورت ناپاک ہے اوراُس کی نظر بد کا اثر ہوتا ہے، اور خاص طور پر اگر کسی بچے پر اُس کی نظر بد پڑ گئی تو بچے پر کوئی نہ کوئی بدبختی ضروری آئے گی ‘اس لیے بچے کو نظر بد سے بچانا نہایت ضروری سمجھا جاتا تھا‘ بالخصوص اس بات کا خیال رکھاجاتا تھا کہ کوئی عورت بچے کے پاس نہ آئے تاکہ اس کی شیطانی ناپاکی بچے کے لیے بدبختی کا باعث نہ ہو۔
مشہورچینی سیاح ہیون سانگ کا کہنا ہے کہ ایرانی قانون معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے لیے کسی رشتہ کا بھی استثناء نہیں تھا۔جن رشتوں سے ازدواجی تعلقات متمدن سماجوں میں ہمیشہ غیرقانونی رہے ہیں‘ایرانیوں کوان کی حرمت کا پاس و لحاظ نہ تھا۔
اس شدید شہوانی رجحان کے خلاف مانی نے تجرد کی تحریک چلائی تھی اورنکاح کو حرام قراردے دیا تھا ۔پھر مانی کی تحریک کے خلاف مزدک نے آوازاٹھائی اور اس نے تمام عورتوں کو سب کے لیے حلال ٹھہرایا۔اس تحریک کے نتیجہ میں ایران جنسی انارکی اورشہوانی بحران میں ڈوب گیاتھا۔

قدیم ہندوستان میں عورت

قدیم ہندوستان میں عورت کے مقام ومرتبہ سے متعلق اختلافات بھی رہے ہیں ‘جس کی اصل وجہ معلومات کی کمی اور قدیم سنسکرت کی کتابوں سے ناواقفیت اوران میں پایاجانے والا تضاد بھی ہے۔ ہندوستانی خواتین کی حیثیت کو Encyclopaedia Brittanica میں اس طرح بیان کیاگیا ہے :’’ہندوستان میں محکومی ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی تھی‘منو کے مطابق عورت رات دن اپنے سرپرستوں کے تحت حالتِ انحصاری میں ہونی چاہیے۔‘‘
مختلف مصنّفین اور مقالہ نگاروں کا یہ احساس ہے کہ ویدک عہد میں عورت کا سماجی رتبہ کافی بلند تھا۔عورتوں کو مکمل آزادی حاصل تھی‘وہ پورے اختیار کے ساتھ اپنے شوہر کے انتخاب میں حصہ لیتی تھیں‘جیون ساتھی منتخب کرنے کی اس رسم کو’ سوئمبر‘کہاجاتا تھا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا ویدک عہد میں مرداورعورت کومساوی حقوق میسر تھے ‘لیکن ذرائع سے منکشف ہوتا ہے کہ عورت کے تئیں آزادانہ رویہ اورطرزِعمل پایا جاتا تھا۔خواتین مذہبی اور سماجی امور میں سرگرم رہا کرتی تھیں۔ بیوائوں کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ ابتدائی ویدک دور میں خواتین کو جو اعلیٰ موقف حاصل تھا وہ آخری ویدک دور میں بتدریج زوال پذیر ہوتا گیا۔ویدک سماج کا ڈھانچہ پدرانہ تھا‘یہ لوگ بیٹوں کی شدت سے خواہش کرتے تھے۔رام شرن شرماکے مطابق :’’یہ سماج پدری تھا۔اس لیے لوگوں کی تمنا ہوتی تھی کہ ہرباربیٹا ہی پیداہو۔لوگ دیوتائوں سے خاص طورپرالتجاکرتے تھے کہ ایسے بہادر بیٹے پیدا ہوں جو جنگیں لڑسکیں۔رگ وید میں اگرچہ بچوں اور مویشیوں کی افزائش کے لیے جگہ جگہ دعائیں ملتی ہیں‘مگرکسی ایک جگہ بھی بیٹی کی پیدائش کے لیے دعا نہیں ملتی۔‘‘
دھرم شاسترا (مابعدویدک عہد )کے دور میں عورت کی حیثیت نہایت پست تھی۔ کمسنی کی شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بیوائوں کی شادی کو نظر انداز کیا جانے لگا ۔ لڑکیوں کی پیدائش کو اس حد تک منحوس سمجھا جانے لگا کہ بے شمار والدین ‘ نومولود لڑکیوں کو ہلاک کردیا کرتے تھے ۔ بیوائوں کے ساتھ بے انتہا بدسلوکی کے نتیجہ میں ستی کی رسم عام ہوگئی۔
سمرتیوں‘پرانوں اور رزمیہ داستانوں (رامائن‘مہابھارت )کے عہدمیں عورت کی حالت مزید ابتر ہوگئی تھی‘اسے تمام تربرائیوں کا مجموعہ سمجھاجانے لگاتھا۔اس عہدمیں منو کے قوانین لوگوں کے لیے ندائے خداوندی کا درجہ رکھتے تھے۔ منو کے اصول کے تحت عورت کو شودر کے زمرے میں رکھا گیا تھا اورقتل کے معاملے میں دونوں کی ایک ہی سزامقرر کی گئی تھی۔
ہندو مذہب میں دھرم شاسترکی بنیاد پرکئی سمرتیاں لکھی گئیں‘جن میں منوسمرتی سب سے زیادہ مشہور اوراہمیت کی حامل رہی ہے۔اسی سمرتی کی بنیاد پر ہندو قانون بنایاگیاہے۔منوسمرتی کو ہندو سماج کے معاشرتی وعائلی قوانین کا ماخذسمجھاجاتاہے۔
منوسمرتی میں عورتوں سے متعلق یہ بیانات ملتے ہیں :
٭عورت کو باپ یا بھائی اپنی مرضی سے کسی بھی شخص کے حوالے کردے تواسے زندگی بھر اس کی تابعدار رہنا چاہیے۔
٭بیوی کو اپنے شوہر کی اردھانگنی یعنی آدھا بدن یا نصف بہتر قرار دیاگیا ہے چنانچہ عورت کا اپنا کوئی انفرادی وجود نہیں ہے۔
٭منو نے بیوہ کو دوبارہ شادی کی اجازت اس طرح دی ہے کہ وہ اپنے متوفی شوہر کے سب سے چھوٹے بھائی کے سوائے کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی ۔ اگراسے متوفی شوہر سے بچے ہوں تو اسے کبھی دوبارہ شادی نہیں کرنی چاہیے۔
ہندودھرم کی مقدس مذہبی کتابوں میں بھی عورت کو وہ عزت و احترام نہیں دیاگیا جومردوں کوحاصل تھا۔مہابھارت‘پران اوررامائن جیسی اہم اور مقدس کتابوں میں عورت سے متعلق اچھے خیالات نہیں ملتے۔
بنجامن والکرنے اپنی کتاب Hindo World ’’ہندوورلڈ‘‘ میں رامائن اورمہابھارت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے : ’’اس زمانے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ عورتیں ناپاک اورمکروہ ہیں‘اورمرد کی روحانی نجات میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔یہی نہیں‘بلکہ ان میں ساری برائیاں بھری پڑی ہیں۔جھوٹ ‘فریب‘ دھوکہ ‘ہوس پرستی ‘مکر اور عقل کی کمی ۔غرض دنیا کی ساری برائیوں کا وہ مجموعہ ہیں۔‘‘
مقدس پران میں بھی عورتوں سے متعلق ناپسندیدہ خیالات ملتے ہیں:
’’شراب کی تین قسمیں ہیں۔لیکن سب سے زیادہ نشہ آور عورت ہے۔اسی طرح زہرکی سات قسمیں ہیں۔لیکن سب سے زیادہ مہلک عورت ہے۔‘‘
قدیم ہندوستانی معاشرے میں عورت کی مظلومی اور بے بسی کی یہ انتہاء تھی کہ اسے شوہرکی چتا پرنذر آتش کردیا جاتا تھا۔بیوائوں کو یہ باور کروایاجاتا تھا کہ ’ستی‘ ہوجانے ہی میں ان کی فلاح اورنجات ہے۔مہابھارت اوررامائن میں بھی ستی کا ثبوت ملتاہے۔ جوبیوائیں خود کو آگ کے سپرد نہیں کرتی تھیں‘ ان پر زندہ رہنے کے لئے کئی پابندیاں اور سخت اصول و قواعد لاگو تھے۔بیوہ کا حسن مسخ کیاجاتا تھا اور سرمنڈوایاجاتا تھاتاکہ وہ پرکشش نہ لگیں۔
اے ایس ایلٹیکر (A S Altekar) کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل کا دور(500 ق م تا1000 عیسوی)عورتوں کے مقام و مرتبہ میں مسلسل انحطاط اور پستی کا دور تھا۔یہ عہد تاریخ ِ ہند میں تنگ نظری‘ عدم مساوات اورناانصافی کا تاریک عہدتھا۔
عہد وسطیٰ کے بارے میں اے پریما لکھتی ہیں:عہد وسطی میں ہندوستانی عورت کی سماج میں حیثیت مزید بگڑگئی تھی‘کچھ طبقوں میں ستی کا رواج‘ بچوں کی شادی اور بیوہ کی دوسری شادی پرپابندی جیسی برائیاں سماجی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں ۔ برصغیرہندوستان پر مسلم راج نے ہندوستانی سماج میں پردے کو رواج دیا۔راجستھان کے راجپوتوں میں جوہرکا رواج تھا۔ہندوستان کے کچھ حصوں میں دیوداسیوں کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔تعدد ازدواج کاخاص طورپر ہندو اور مسلم خاندانوں میں عام چلن تھا ۔ کئی مسلم خاندانوں میں عورتوں کو زنانہ رقبہ تک محدود کردیا جاتا تھا۔ دور وسطیٰ میں(آٹھویں صدی عیسوی سے آٹھارویں صدی عیسوی تک ) بھی عورتیں عام طورپر ظلم و ستم کا شکار بنتی رہیں لیکن راجپوت‘ سلاطین ِ دہلی یامغل شہنشاہوں کے عہد کی چند شہزادیوں اور امیرزادیوں کی سماجی حیثیت کافی بلند تھی۔

مصر:

قدیم مصری عورت کو تمام حقوق حاصل تھے‘ اسے احترام کی نظر سے دیکھاجاتاتھا‘لیکن پھر اس سے اس کا یہ رتبہ بتدریج چھین لیاگیا۔مصری قانون عورت کو اس وقت تخت و تاج کا وارث بناتا تھا جبکہ شاہی خاندان میں کوئی مرد وارث موجود نہ ہو ‘ لیکن ملکہ ٔ مصرعورت کے لباس میں ظاہر نہیں ہوسکتی تھی ‘وہ مردانہ لباس استعمال کرتی تھی ۔اس لیے کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ عورت حکومت اور سرداری کی اہل نہیں ہوسکتی۔
مصر میں بھی کئی ایسی رسمیں رائج تھیں جو عورت کو نہایت پستی میں ڈھکیل دینے کے لیے کافی تھیں۔نکاح کے بعد عورت ‘مرد کی ملکیت قرار پاتی تھی ‘بلکہ شادی کے بعد عورت کا سارا مال بھی مرد کے نام ہوجاتاتھا، اولاد پربھی عورت کا حق بالکل نہیں تھا ‘وہ مرد کی غلام بن کررہ جاتی تھی۔ قدیم مصر میں عورت کا سماجی مرتبہ بہت بلند تھا۔نکاح نامہ کی سب سے پہلے ایجاد قدیم مصر میں ہوئی تھی ۔

عرب:

عرب کے مختلف قبائل نے عورت کی سماجی زندگی اور اس کے حقوق کو نہ صرف پامال کیا بلکہ وحشیانہ سلوک کا رویہ اپنایا۔ اس سماج میں عورت ایک جائیدادکی حیثیت رکھتی تھی ۔شوہر کے انتقال کے بعد اسے فروخت کردیاجاتا تھا ‘بیوی کو زمین اور جوئے میں دائو پرلگادینے کا رواج تھا۔سوتیلی ماں سے شادی رچانے اور اپنی بیوی کو خاص مدت تک دوسروں کو کرایہ پردینے کی رسم بھی تھی، عورت ہر طرح کی پستی اور زبوں حالی کی حق دار تھی اور انسان کی حیثیت سے ملنے والی خداداد شرافت و کرامت اور بزرگی میں اس کا کوئی حصہ نہیں تھا۔‘‘ لیکن اس کے علاوہ خطہ عرب میں کچھ عورتیں اپنے عہد میں خود مختار رہیں، اس کی ایک بڑی وجہ ان کا معاشی حیثیت سے مضبوط ہونا تھا ۔

مذاہب میں عورت کا تصور :

اگر دیکھا جائے تو مذاہب عالم میں بھی کچھ ایسے ہی تصورات ملتے ہیں ، مذہب ایک اہم سماجی ادارہ ہے ‘جوانسانی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے ‘اس کے اصول ونظریات ہی سماج کے لیے قدروں کومتعین کرتے ہیں ۔مذہب جہاں انسانی زندگی کی فلاح و بقاء کے لیے لائحہ عمل مرتب کرتا ہے ‘وہیں مرد اور عورت کے مقام و مرتبہ کا بھی تعین کرتا ہے۔ دنیا میں مختلف مذاہب نے مرد اورعورت کے متعلق جونظریات پیش کیے اس کا راست اثر مختلف اقوام میں ان کی سماجی زندگی پر پڑتا ہے ۔مختلف زمانوں میں خدا کی طرف سے نیکی وشرافت ‘عفت و عصمت کی جو تعلیم پہنچتی رہی ‘رفتہ رفتہ اس کا یہ مطلب اخذ کیا جانے لگا کہ عورت سے تعلق گناہ سے قریب کرتا ہے لہٰذااس سے کنارہ کشی اختیارکی جائے۔جوں جوں اس تصورکوتقویت ملتی گئی عورت سے نفرت میں اضافہ ہوتاگیا۔

یہودیت میں عورت کا تصور:
یہودی روایات کے مطابق عورت ناپاک وجود ہے ‘ اور اس کائنات میں مصیبت اسی کے سبب ہے ۔ان کے نزدیک مرد نیک سرشت اور حسن کردار کا حامل ‘اورعورت بدطینت اورمکار ہے ‘کیونکہ اس نے آدم ؑ کوبہلاپھسلاکر پھل کھانے پرآمادہ کیا جس سے اللہ نے منع کیا تھا۔
یہودی شریعت میں مرد کا اختیاراورعورت کی محکومیت نمایاں ہے‘عورت باپ کی رضامندی کے بغیر خدا کو راضی کرنے کے لیے منت اور نذربھی نہیں مانگ سکتی ۔ عورت کودوسری شادی کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
عائلی زندگی کے علاوہ عورت وصیت‘ شہادت اور وراثت جیسے حقوق سے بھی محروم تھی۔یہودی قانون کے مطابق مرد وارث کی موجودگی میں عورت وراثت سے محروم ہوجاتی تھی۔ ان کے قانون وراثت میں بیٹی کا درجہ پوتوں کے بعد آتا ہے‘ اگر کسی مرنے والے کا لڑکا نہ ہو تو وراثت پوتے کی ہوجاتی ہے، اور اگر پوتا بھی نہ ہو تو اس صورت میں وراثت لڑکی کی ہوتی ہے۔

عیسائیت میں عورت کا تصور:
عورت کی بابت عیسائیت کا بھی وہی نظریہ ہے جو ہمیں یہودیت میں دکھائی دیتا ہے۔عیسائی مذہب کا بنیادی خیال یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے اور جہنم کادروازہ ہے۔ ترتولیان جو ابتدائی دور کے آئمہ مسیحیت میں سے تھا، اُس کے عورت کے بارے میں نظریات ہیں: ’’ وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے‘ وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی ‘خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر‘ مرد کو غارت کرنے والی ہے۔‘‘
کرائی سو سسٹم جوایک بڑا مسیحی امام شمار کیا جاتا ہے‘ وہ عورت کے بارے میں کہتا ہے: ’’عورت‘ ایک ناگزیر برائی‘ ایک پیدائشی وسوسہ‘ ایک مرغوب آفت‘ ایک خانگی خطرہ‘ ایک غارت گرد لربائی‘ ایک آراستہ مصیبت ہے۔‘
چونکہ مسیحی اخلاقیات میں تجرد اورصنفی تعلقات سے کنارہ کشی ہی اصل کمال تھا‘اس لیے نکاح اور صنفی تعلقات بذات ِ خود نجس اور ناقابل ِ التفات تھے۔چونکہ صنفی تعلق میں عورت ہی بنیادی کردار ہے ‘ اس لیے اسے پست ‘ذلیل اور گناہ کا ذریعہ قرار دیاگیا ۔مسیحی شریعت میں جتنے قوانین بنے اس میں عورت کی حیثیت کو پست رکھنے کی کوشش کی گئی۔وراثت اور ملکیت میں اس کے حقوق محدود تھے ‘وہ خود اپنی کمائی پر بھی اختیار نہیں رکھتی تھی ۔ہرچیزکامالک مرد تھا۔ طلاق اور خلع کی اجازت نہ تھی ۔مسیحی دنیا کے ملکی قوانین اس بارے میں سخت تھے گویا مسیحی مذہب نے عورت کی تحقیر اور اسے پابندیوں میں جکڑے رکھنے کی پوری کو شش کی ۔مسیحی دنیا میں عورت کی زندگی ایک بے بس مخلوق اور مرد کے ہاتھ میں کھلونے کے سوا کچھ نہ تھی۔

ہندومت میں عورت کا تصور :
ہندودھرم میں عورت کو سرکشی کی صفات کامجموعہ ‘متلون مزاج‘مردوں کو بہکانے والی ‘جھوٹی ‘مکار‘ احمق اورظالم قرار دیاگیا ہے۔عورت کو شودروں کے زمرے میں شامل کیاگیا ہے اوران کے ساتھ اسے بھی ’پاپایانی‘یعنی گناہ گار قرار دیاگیا ہے کہ وہ پیدائشی گناہ گار ہے اور زندگی میں اس کاپست مقام طئے شدہ ہے۔ہندودھرم کے نظریہ میں عورت کی شخصیت کا بحیثیت مجموعی کوئی تذکرہ نہیں ہے۔اسے صرف مخصوص فرائض اداکرنے والی ہستی کی نظرسے دیکھاجاتا ہے ۔اس کی سب سے اہم ذمہ داری بیٹے کوجنم دینا ہے ‘عورت کے لیے مناسب کردار صرف بیوی اورماں کی حیثیت سے ابھرکرسامنے آتے ہیں۔

بدھ مت میں عورت کا تصور :
بدھ مذہب ‘جدید مذہب میں شمار کیاجاتا ہے۔ اس کے باوجود اس نے بھی عورتوں کو نجس ہی قرار دیا۔ اس کاثبوت ہمیں گوتم بدھ کی تعلیمات میں ملتا ہے۔ گوتم بدھ نے اپنے پیروئوں سے کہا تھا کہ اگر تم نجات پاناچاہتے ہو تو تمہیں اپنی عورتوں سے تعلق قطع کرناچاہیے اور سب سے پہلے خود انہوں نے اپنی عورتوں سے رشتہ توڑلیا۔ بدھ مت کے نزدیک عورت سے تعلق رکھنے والا کبھی نروان حاصل نہیں کرسکتا۔بدھ مت میں مرتبہ کے اعتبار سے عورت ہمیشہ مردسے کم تر ہی سمجھا گیا ہے ، لیکن ہندودھرم کے مقابلے میں بدھ دھرم میں عورتوں کوسماجی اور مذہبی آزادی حاصل رہی ۔

جین مت میں عورت کا تصور :
جین مت کے نزدیک عورت خیرسے عاری اورتمام برائیوں اورمنکرات کی اصل جڑہے ۔اس لیے یہ مذہب مردوں کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات استوارنہ کریں۔نہ عورت کی جانب دیکھیں‘ نہ اس سے محوگفتگوہوں۔ جین مت میں اگرچہ ہندومت کے برعکس عورتوں کو مذہبی حقوق حاصل ہیں، لیکن وہ عورتوں اورمردوں کو راہبانہ زندگی کی ترغیب دیتاہے۔جین مذہب میں کثیر زوجگی ممنوع ہے اور بیوہ کودوسری شادی کی اجازت بھی نہیں ہے۔

اسلام میں عورت کا تصور:
اسلام اپنی مذہبی تعلیمات میں تو عورت کو ایک مکمل قانونی اوراخلاقی تشخص عطاکرتا ہے ۔اسلام کی رو سے عورت کا ایک علیحدہ قانونی وجود ہے ۔چنانچہ اس کے قانونی حقوق ہیں۔عورت کی اپنی ذاتی ملکیت ہوسکتی ہے اوروہ اپنی اس ملکیت میں تصرف کا کامل اختیار رکھتی ہے ۔لہٰذاعام انسانی حقوق کے اعتبار سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ کاروبار زندگی اور علم و تربیت میں حصہ لے سکتی ہے۔
قرآن مجید کی آیات اس بات کی عکاس ہے کہ اسلام عورت کو ایک محترم اورمعتبر وجود مانتاہے اورکوئی امتیازنہیں برتتا‘۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ عورتوں کی محکومی اورمردوں کی بالادستی کی جو تصویر قدیم عالمی سماج کے مطالعے سے ابھرتی ہے وہی ہمارے ملک کی تاریخ میں بھی نمایاں نظر آتی ہے ۔ جیسے قدیم ہندوستان میں عورت کی سماجی حیثیت اور انفرادی شخصیت محرومی ‘ کم مائیگی‘ذلت ورسوائی اورظلم وجبرسے مجروح دکھائی دیتی ہے، امر افسوس ہے کہ یہ فکر دینی ثقافت میں بھی رسوخ کر گئی ہے. یہاں تک کہ بعض لوگ خواتین کو تعلیم و تربیت سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صراحت سے یہ کہتے ہیں کہ عورت کیلئے بہتر ہے کہ گھر کی چار دیواری میں بند رہے ۔
لیکن اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عورت کو کنٹرول کر کے اسے سیاسی، اجتماعی، تربیتی، علمی میدانوں میں ترقی سے محروم کیا جائے. کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو عورت کے وجود میں پوشیدہ شر اور فساد کھل کر سامنے آئے گا .جس سے معاشرے میں فساد کا ڈر ہے اس نظریہ کا مطلب عورت کو کمزور اور ضعیف رکھنا اور قدم قدم پر اسے لگام دے کرکنٹرول کرنا ہے اسی نظریہ کے مطابق عورت کیلئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل یہ ہے کہ اپنے آپ کو مرد کا خادم اور وسیلہ سمجھے اور اپنے شوہر اور بچوں کی چار دیواری سے تجاوز نہ کرے ۔
حالانکہ اسلام کے ظہور اور قبل از ظہور عرب میں عورتیں معاشی طور پر خاصی فعال تھیں، انہیں معاشی تگ و دو کی مکمل آزادی حاصل تھی ۔وہ اپنی عفت کی حفاظت اور گھریلو ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے معاشرے میں ایک فعال اورسرگرم کردار ادا کرتی تھیں، حتی کہ اس وقت بچوں کو دودھ پلانے کا کام بطور اجرت کیا جاتا تھا ، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی والدہ نے دودھ پلانے کے لئے دائی حلیمہ کو سونپا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ خود تجارت کرتی تھیں، انیوں نے اپنی مرضی سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام دیا تھا ، ایک عورت جو خود نکاح کا پیغام صرف اسی صورت دے سکتی ہے جب وہ خود، معاشی طور پر مستحکم و خود مختار ہو، اس دور میں اسلام پانی والی کئی صحابیاتؓ ،تجارت ،زراعت ،گلہ بانی، دستکاری اور دباغت وغیرہ سے وابستہ تھیں‘اوروہ اپنی آمدنی سے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔
حضرت زینب بنت حجش ؓ‘دباغت اور سلائی کا کام کرتی تھیں۔
حضرت ام ایمن چرخہ کاتنے کا کاروبار کرتی تھیں، اسی عہد میں خواتین خابزہ (اجتماعی تندور پر روٹیاں ) لگانے کا بھی کام کرتی تھیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ہم نے جنس مونث کے لئے جو لفظ ” عورت ” کی اپنی اصطلاح استعمال کی ہوئی ہے کیا وہ واقعی عربی زبان میں ایسے ہی ہے، اردو ایک لشکری زبان ہے جس میں فارسی یا عربی کے کثیر الفاظ شامل ہیں ، اکثر عربی زبان کے الفاظ ہمارے ہاں مستعمل ہونے کے باوجود اپنی ترکیب یا لغوی، معنویت اور اصطلاح میں عربی سے حد درجہ مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں ,جیسے اردو لغت میں تو یہ تمام الفاظ عورت کا لغوی معنی میں آتے ہیں جیسے “اندامِ نہانی ،انسان کی مادہ ،جنسِ لطیف، حوّا کی بیٹی، شرم گاہ، نازک مقامِ، پوشیدہ، ناف سے ران کا حصہ، وغیرہ وغیرہ ، لیکن عورت (انسانی جنس مونث) کو ہم نے اصطلاحی معنویت میں بھی فقط یہی سمجھ لیا ہے ۔
عورت کی عربی زبان میں جس لفظ سے منسوب کیا جاتا ہے وہ “عورہ ” ہے ۔ عورہ کے لفظی معنی عربی میں آتے ہیں ۔ ”چھپا ہوا “ پوشیدہ “ ” مستور “ اس سے مراد بلا تخصیص مرد و عورت کا ستر ہے یعنی یہ فقط جنس مونث کے لئے ہر گز مخصوص نہیں ہے، لیکن ہم نے عورہ یعنی ستر کو فقط جنس مونث سے تعبیر کر لیا ورنہ عربی زبان میں ہمیشہ انسانی جنس مونث کو ” نساء” کہہ کر مخاطب کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی ہمیشہ عورتوں کے لئے نساء کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے ۔ ہمارے ہاں “عورت” لفظی اور اصطلاحی ھر دو لحاظ سے ایک متعصب لفظ ھے “مرد “ بمعنی “بہادر” اور عورت کا متضاد ہے جبکہ لفظ عوره  کا  ایک مطلب ستر ہے جبکہ عربی ادب میں یہ لفظ مرد کی شرمگاه  کے لیے بھی کثرت سےاستعمال کیا جاتا رہا ہے، عربی  کے اس لفظ کی اصطلاحی معنویت اردو کے استعمال میں صنفی امتیاز اورحقارت سے بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ یہ لفظ اب مستعمل ہے جو کہ میں سمجھتا ہوں خواتین کے لیے  انسانی عظمت کے  منافی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مرد اور عورت دونوں انسانی صفات کے حامل ہیں اور ان کی خلقت میں کسی قسم کا فرق نہیں پایا جاتا. بلکہ اگر فرق ہے بھی تو ان کے کردار اور ان کی تولید مثل (نسل کشی)میں اس بنا پر خاندانی، اجتماعی، فکری، روحی مسائل اور حقوق یا مختلف کرداروں میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور معاشرے میں ہر طرح کا موجود فرق، ہماری نامناسب تربیت کا نتیجہ اور معاشرے میں غلط افکار کا اثر ہے جہاں پر بھی ایک فکری یا ثقافتی انقلاب وجود میں آیا ہے یا جب بھی عورتوں میں ایک تغییر و تحول وجود میں آیا ہے وہاں پر اس قسم کے تمام اختلافات کو مٹایا گیا ہے، اس کی تازہ مثال نیوزی لینڈ کے واقعے کے بعد وہاں کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کا کردار ہے ، اور ہمارے مسلم معاشرے اور حتی کہ پاکستان کے معاشرے میں بھی عورتوں نے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ اچھی تعلیم و تربیت اور مضبوط معاشی حیثیت سے عورت معاشرے کا ایک فعال کردار ادا کرسکتی ہے، پاکستان میں بھی سینکڑوں خواتین نے دنیا کے ہر علم و فنون اور دیگر شعبہ ہائے جات میں نمایاں مقام بنایا ہے ، ایسی تمام خواتین کے پیچھے آپ کو علم و اگاہی، شعور اور معاشی طاقت کا ارتکاز نظر آتا ہے ، یقینا تعلیم اور مختلف شعبوں میں عورت کو مساوی کردار دینے والے معاشرے میں عورتیں اعلی مقام و منزلت ہر فائز ہوئی ہیں اور صاحب نظر بھی بنی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply