قصہ “روغن و ماہی “۔۔۔علی اختر

راقم لڑکپن میں شکار کا شوقین رہا۔ یاد رہے کہ کراچی میں شکاری ، “شیر افگن” یا “چڑی مار” کو نہیں بلکہ ماہی گیر کو کہا جاتا یہ ہے کہ آسانی و سہولت کے ساتھ “مچھی” ہی وہ حیوان ہے جو کہ ابھی تک “ہذا موجود” ہے ۔ باقی حیوانات یا تو بہت دور “کھیر تھر” وغیرہ میں موجود ہیں یا ناپید ہو چکے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ شکار پر پابندی، گاڑیوں اور بندوقوں کا خرچہ وغیرہ کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ عزت سے ساحل سمندر پر یا لانچ میں بیٹھ کر مچھی مار کر شکاری کی سند حاصل کرنے کو تر جیح دیتے ہیں ۔

تو صاحبو! یہ قصے اس زمانے کے ہیں جب “عرب ساگر” میں مچھلیوں کی بہتات تھی ۔ “کیماڑی” سے لانچ شکاریوں کو بٹھا کر نکتی تو آگے نیوی، کوسٹ گارڈ اور کے پی ٹی کی تین چیک پوسٹوں پر رکتی جہاں شکاریوں کے شناختی کارڈ چیک کیئے جاتے ۔

اگر وہاں بھی ڈور ڈالو تو پاؤ بھر کے “کپرتان” اور ” گھینگڑے” لگنا شروع ہوتے ۔ لانچ چلتی تو “کھگے” ، “مشکے” اور “کنگھے” ساتھ سفر کرتے ۔رکتی تو “سرمئی ” “کیپٹن””کند” اور “ٹونے” طواف کرتے ، ساگر کی تہ میں بیٹھے “ڈامے”، “گھسر” “دندیے””ہیرے”بھی باہر نکل آتے ۔ کبھی کبھار سطح پر موجود ہلچل سے متاثر ہوکر سمندر کا شکاری “منگرا” (بل شارک) بھی چلا آتا پر اسی شام پلیٹ میں ہری چٹنی کے ساتھ “کٹاکٹ” کی صورت میں موجود اس وقت کو کوس رہا ہوتا جب لانچ کے قریب آیا تھا۔

تو بھائی  لوگ! وقت بدلا ، راقم کے شکاری دوست یکے بعد دیگرے بیگمات کو پیارے ہونا شروع ہو گئے ۔ دوسری جانب تمر کے جنگلات کی کٹائی اور سمندری آلودگی کی وجہ سے “ماہی گیری” گھٹ کر “جھینگا گیری ” میں تبدیل ہوئی ۔کبھی شکار میں منافع ہوا کرتا تھا یعنی خرچہ سے زیادہ مچھی ماری جاتی تھی جو گھٹتے گھٹتے “بریک ایون” اور بعد ازاں خسارے تک پہنچنا شروع ہو گئی ۔

ان سب معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے راقم نے مچھی مارنے کے بجائے عزت کے دائرے میں رہتے ہوئے مچھلی خریدنے پر اکتفا کرنا شروع کر دیا اور اسی سلسلے میں چند دن قبل کیماڑی پر موجود بلوچ ماہی گیروں کے درمیان موجود تھا ۔

“بھائی  یہ کھگا کس حساب سے ہے ” راقم نے زمین پر رکھی مچھلی کی جانب اشارہ کیا ۔
جواب میں مکرانی بلوچ مچھلی فروش نے نظر اٹھا کر راقم کی جانب سرخ انگارہ آنکھوں سے دیکھا ” جاؤ ڑے جوان ! تم مچھی لینے والا لئی نہیں ۔ ہمارا ٹیم خراب نہ کرو ۔ بھاگو ڑے ”
“کیا ہو گیا بھائی ؟” راقم اس برہمی پر حیران تھا ۔
“آڑے تمہارا آنکھ ہے کے بٹن ؟ سرمائی کا دانہ تم کو کھگا دکھتا ہے”
“ارے سوری یار ! اصل میں پہلے صرف کھگا ہی اوپر سے ایسا گندہ گندہ سا ہوتا تھا ” راقم کو منہ سے بات نکلنے کے بعد مچھلی فروش کے ہاتھ میں موجود بڑے سے چھرے کو دیکھ کر حالات کی سنگینی کا احساس ہوا “وہ میرا مطلب تھا ۔۔۔۔ ” راقم کی بات اُدھوری رہ گئی
“اڑے تمہارا ہمت کیسے ہوا ہمارا مچھی کو گندہ کہنے کا ۔ تم خود گندا اے ۔ اب بھاگو ورنہ ہم اٹھتا ہے ”
“ابے بیٹھ” راقم نے  بھی جواب میں آنکھیں دکھائیں ۔ “بھرم بازی بند کر اور بتا مچھی کس حساب سے دے رہا ہے ” راقم کا اصلی رنگ دیکھ کر مچھلی والا بھی کچھ سنبھل گیا اور بولا۔
“صاحب! بارہ سو روپے کلو ”
“ابے کیا سونے کے پانی سے پکڑ کے لایا ہے مچھی ، بارہ سو روپے وہ بھی اتنی گندی مچھلی کے ”
“اڑے صاب ! مچھی تازہ ہے بالکل ” اس نے گلپھڑا کھول کے دکھاتے ہوئے کہا ۔ ” وہ سمندر میں تیل کی وجہ سے مچھی آئل والا ہو گیا ہے ”
“اب یہ آئل کا کیا ڈرامہ ہے” راقم نے بیزاری سے پوچھا ۔
“اڑے آپ خبریں نہیں دیکھتا ، ابھی سمندر میں تیل ہی تیل ہے ۔ مچھی میں پہلے ہی آ ئل بھرا ہے۔ ابھی اسکو پھرائی  کاواسطہ بھی آ ئل کا ضرورت نہیں” مچھلی والے نے لاجک پیش کی ۔

تو صاحبو ! یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب تیل کی دریافت کے بعد سعودی عرب کی مانند پاکستان میں بھی پیٹرول پانی سے سستا ہوگا ۔ راقم بھی سو سو روپے کے پیٹرول کے بجائے اب سیدھا موٹر سائیکل کی ٹنکی فل کرنے کا حکم دیا کرے گا ۔ جیسے ” ریکو ڈک” میں سونا ملنے پر سونا لوہے کے مساوی آ گیا ہے۔ یا سی این جی ، آکسیجن سے سستی ملتی ہے۔ جیسے تھر کے کوئلے سے بنی بجلی نے بجلی کا بل چار سو روپے فی گھر کر دیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہر کوئی  اس مچھلی فروش کی طرح حرامخور تو ہے نہیں جو مفت کی مچھلی سمندر سے دریافت کرے اوربارہ سو روپے کلو میں فروخت کرے ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply