بچا لو اپنی بستی میں سبھی کو یاروں۔۔۔حسین مرزا

بچا لو اپنی بستی میں سبھی کو یاروں

کوئی امیر ہو، غریب ہو یا ہو کوئی ضرورت مند 

کوئی ہو مسیخا، مفکر دین یا علم کا خواشمند 

علی با با فاؤنڈیشن

خون سبھی کی رگوں میں دوڑتا ہے، اور ہر کسی کو تقریباً  تقریباً  خون کی ضرورت زندگی میں کبھی نہ کبھی پڑ ہی جاتی ہے۔ اور زیادہ تر دیکھا یہ گیا ہے کہ میرے ملک کے لوگ اس معاملے میں بہت فراخ دل ہیں اور ان کے  دل میں دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بخوبی پایا جاتا ہے۔ میرے ملک کے  نوجوان جس طرح اس کارِ خیر میں بڑھ  چڑھ  کے حصہ لیتے ہیں دنیا کے کسی بھی اور ملک میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

یہاں پر لوگ خلوص نیت سے اس طرح آتے ہیں کہ  دوسرے کا اُن کو خون لگنا ہی شائد اُن کے لیے باعث بخشش بن جائے اور یہ امید ہزار سوچوں پر غالب آتی ہے اور اس احساس کی طرف لے جاتی ہے کہ انسانیت کی خدمت کا درس جو ہمیں اسلام نے،ہمارے بڑوں نے اور ہمارے قومی ہیروز نے جیسے عبداستا ر ایدھی صاحب نے سکھایا ہے وہ ایک تو قومی یکجہتی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ باعثِ تسکین ضرور بنتا ہے۔ یہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ  ہما رے رب نے ہمیں اس قابل بنایا کہ  ہم کسی کے کام آسکے۔۔

علی بابا فاونڈیشن بھی میرے ملک کے نوجوانوں کی بنائی ہوئی ایک فلاحی تنظیم ہے۔ یہ فلاحی تنظیم پچھلے دس سالوں سے روزانہ پانچ لوگوں کو خون مہیا کرنے میں اپنی خدمات  فراہم  کر رہی ہے۔ اور اپنی خدمات کا صلہ وہ خدا باری تعالی سے ہی مانگتے ہیں، عوام الناس سے اس کا کوئی معاوضہ نہیں طلب کیا جاتا۔

علی با با فاونڈیشن کا مقصد ڈونر اور ریسیور کا رابطہ کروانا ہے۔ اس طرح جو اپنے خون کا عطیہ کرنے کے لیے تیار ہو وہ علی بابا فاونڈیشن کے فیس بک پیج پر دیئے گئے اس نمبر پر رابطہ کرتا ہے جو اُس کے میل کھاتے خون کا مطالبہ کر رہا ہو۔

اس طرح خون دینے والے کو بھی تسلی ہوتی ہے اور  حق دار کو بھی نہایت خیال کے ساتھ اس کا حق پہنچ جاتا ہے۔

زندگی اور موت تو منظورِ الہی ہے مگر ہم کسی کے پیاروں کو بچانے کے لیے اتنی کوشش تو کر سکتے ہیں کہ  بلڈ بنک میں لگنے والی سوئی کا درد برداشت کر لیں اور اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت اتنا نکال لیں جتنا ہسپتال آنے جانے اور تھوڑی بہت اس کی باگ دوڑ میں لگتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی کی مدد کرنے میں جو محنت لگتی ہے اس کے اجر سے وہ لوگ بخوبی واقف ہوتے ہیں وہ لوگ اس کے اجر سے بخوبی آشنائی رکھتے جو ہر تین ماہ بعد یا جہاں تک ان کو ان کی صحت اجازت دے اس کارِ خیر سے منسلک رہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply