کیا کافر مائیں صرف تین دن ماتم کریں ؟۔۔۔محمد داؤد خان

دوستو وسکی کی یہ بات کتنی اچھی ہے کہ
“خدا تو نہیں ہے۔پر خدا کو ہونا چاہیے تھا”۔۔

خدا کو اور کہیں بھی نہیں تو کم از کم اس بستی میں تو ضرور ہونا چاہیے تھا جو کافروں کی بستی ہے جہاں پر بہت سی کافر لڑکیاں گھوما کرتی ہیں جہاں پر مدرسے کے بدمعاش آتے ہیں اور بہت سی ماؤں کو رُلاتے ہیں!
ہری داس میگھواڑ پو ری عمر لوگوں کے تن کا ناپ لیتا رہا!
ہری داس میگھواڑ پو ری عمر اپنے ہاتھوں سے کپڑوں کے تھان پھاڑتا رہا!
ہری داس میگھواڑ اپنی عمر میں بس کپڑوں کے تکڑوں کو ایک دو سرے کے ساتھ جوڑتا رہا!
ہری داس میگھواڑ اپنی عمر میں ان دھاگوں کو جوڑتا رہا جو بہت کچے ہو تے ہیں
جوڑتے جوڑتے ٹوٹ جا تے ہیں۔اور توٹتے ٹوٹے جُڑ جا تے ہیں۔

آج وہی ہری داس سندھ کے بہت ہی چھوٹے سے شہر ڈھرکے  جس شہر میں یا تو سرداروں کی ہبیت چلتی ہے یا مسجدوں اور مدرسوں کی دردیلی زور دار آواز! وہاں پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے پر اس ھری داس درزری کے من کاکوئی ناپ نہیں لے رہا۔کوئی اس کے ان کپڑوں کو نہیں دیکھ رہا جو کپڑے مسلسل احتجاج سے پسینہ پسینہ ہو چکے ہیں۔کوئی اس کے قریب آکر یہ نہیں پوچھ رہا کہ۔۔۔چاچا کیا ہوا ہے؟
جب کہ سندھ تو سندھ پر اب تو سوشل میڈیا کی معرفت دنیا کو معلوم ہو چلا ہے کہ ڈھرکی کے ہری داس کے ساتھ ڈھرکی میں کیا ہوا ہے؟
وہ  ہری داس جس نے ہمیشہ اپنے من کو مندر سمجھ کر ان لوگوں کی خدمت کی جو مندر اور مسیت کا فرق نہیں جانتے۔وہ ہری داس جس نے مختلف رنگوں کے کپڑے سیے پر اپنے من کو کبھی میلا نہ ہونے دیا!وہ ہری داس جو ہری رام،ہری کرشنا کو ورد کرتا پر  اذان پر اپنے سر پر رومال رکھ لیتا!وہ ہری داس جس نے گیتا پڑھی پر جس کا ایمان تھا کہ قرآن بھی مولا کی کتا ب ہے۔وہ ہری داس جس نے دیوالی پر دئیے جلائے پر محرم پر اپنے تن پہ  کالے کپڑے پہن کر حُسینی ماتم بھی کیا اور لنگر بھی!
وہ ہری داس جو رمضان کے احترام میں روزہ نہ ہونے پر بھی پو رہ دن دکان پر بھوکابیٹھا رتا۔
وہ ہری داس جو ہولی کے رنگ بھی کھیلتا اپنے کپڑوں کو ان رنگوں سے رنگتا اور عید کے دن سفید نئے کپڑے پہن کر ان دوستوں سے عید بھی ملتا جو اس کے شہر کے ہوتے۔اس کے گوٹھ کے ہو تے۔اس کے محلے کے ہو تے حتیٰ  کہ اس کی گلی کے ہو تے!
وہ  ہری داس جو راہ چلتے خواتین  کو دیکھ کر اپنی آنکھیں نیچے کر لیتا تھا۔آج اس ہری داس کی آنکھیں سراپا احتجاج ہیں،سراپا سوال ہیں اور سرپا اشک بار ہیں!
جب سندھ سمیت پو ری دنیا میں ہولی کے رنگ کھیلے جا رہے تھے۔ہر طرف رنگوں کی بہار تھی۔گاؤں اپنے طریقے سے اور شہر اپنے طریقے سے ہولی کے رنگ کھیل رہے تھے۔جب گاؤں کی گلیاں پانی ملے رنگوں سے گیلی ہو رہی تھیں۔اور شہر کے فائیو اسٹار ہوٹل کے مخصوص ہالز میں ہو لی کے رنگ سجا ئے  جا رہے تھے۔امیر سفید کپڑوں کو رنگوں سے رنگ رہے تھے اور غریب میلے اور پرانے کپڑوں پر ہولی کے رنگ سجا رہے تھے۔سورج ہولی کے تمام رنگوں کو لیکر ڈوب رہا تھا۔گھروں میں ہولی کے پکوان پکائے جا رہے تھے۔ہوٹلوں میں بیرے لذیذ کھانوں کے بوفے لگا رہے تھے۔جب  شام کو سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی اور ان سب اکاؤنٹوں کو جلانے لگی جو یہ جانتے ہیں کہ ڈھرکی میں میاں مٹھو کا مدرسہ کس تیزی سے ہندو لڑکیوں کو ایمان کے دائرے میں لا رہا ہے۔اور اس میاں مٹھو کے پر کوئی بھی نہیں کاٹ رہا۔
ہولی ختم ہوئی۔سورج ڈوب گیا۔ہولی کے رنگ پھیکے پڑ گئے جب سے وہ ہری داس میگھواڑ اس تھانے کے باہر سراپا احتجاج ہے جہاں وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر اس کے ساتھ انصاف ہوا تو انصاف کی پہلی سیڑھی یہی تھانہ ہوگا جہاں اس کی رپورٹ درج کی جائیگی جہاں کے سرکا ری کاغذوں میں اس بات کا اندراج ہوگا کہ ڈھرکی کے ایمان والوں نے ڈھرکی کے اک کافر کے ساتھ ظلم کیا ہے!
اب تو ہری داس کو اس تھانے کے باہر بیٹھے بہت سے دن بیت گئے ہیں کبھی وہ اپنے آپ کو جلانے کی کوشش کرتا ہے۔کبھی ان مدرسے والوں کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اسے گولی ما ردی جائے اس پر وہ ہری داس بار بار اپنا گریبان کھولتا نظر آتا ہے۔ کبھی تھانے والوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ان سے ہاتھ جوڑے عرض کرتا ہے کہ اس کی دو جوان بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ درج کیا جائے۔پولیس بھی تو مظلوم ہے اگر وہ چاہیے بھی تو کس کے خلاف اغوا کا پرچہ کاٹے؟!
کیا میاں مٹھو کے خلاف؟کیا آپ کی نظروں سے نہیں گزری وہ تصاویر جن تصویروں میں میاں مٹھو خان صاحب کے ساتھ شکا ر کرتے نظر آ رہے ہیں۔آپ کو نظر نہیں آ رہا کہ میاں مٹھو کن کن کے ساتھ اپنے جلوے بکھیر رہے ہیں۔وہ فرشتے بھی خوش۔میاں مٹھو بھی خوش اور اللہ بھی خوش!
پھر وہ  ہری داس اپنے مُکھی کے پاس جا تا ہے اور ہاتھ جوڑے اسے عرض کرتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سائیں انصاف ہوگا؟۔۔۔
وہ مُکھی جواب دیتا ہے کہ آج تو وہ کراچی جا رہا ہے کل پرسوں آئیگا تو اس پر بات ہوگی
وہ مُکھی ایسے کیس کو یوں ہی ڈھرکی میں چھوڑ کر کراچی کیوں جا رہا ہے جب کہ وہ جانتا بھی ہے کہ اس بوڑھے درزری ہرداس میگھواڑ کا کوئی نہیں تو وہ کراچی کیوں جا رہا ہے؟!!
ڈھرکی میں میاں مٹھو کا مدرسہ دہشت اور وحشت کی علامت بنا ہوا ہے۔اکثر  و  بیشتر وہاں پر ہندو لڑکیوں کو لایا جاتا ہے۔ان کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے۔رنکل کماری کو عائشہ اور وینا اور ارینا کو فاطمہ اور حاجراں بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔بات اگر بس مذہب تبدیل کی ہو تی تو پھر بھی ٹھیک تھا۔پر جیسے ہی مذہب تبدیل کیا جاتا ہے تو ان کو کسی کے حوالے بھی کر دیا جا تا ہے ۔اور وہ انہیں اپنی بیوی کے طور پر میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور آگے سے کوئی شنوائی نہیں ہو تی۔
درزی ہری داس میگھواڑ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ہولی کے رنگوں والی رات اس کی دو بیٹیوں کو اغوا کیا گیا ہے جن کا مذہب تبدیل کر کے انہیں کسی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔اور وہ اسے پنجاب لے گئے ہیں
کراچی،لاہور۔اسلام آباد میں اس غوا کے خلاف احتجاج ہورہا ہے۔
پر یہ احتجاج کتنے دن چلے گا۔آکر وہ دن بھی آئیگا جب درزری ہری داس بھی اس تھانے کے سامنے سے اُٹھ جا ئیگا جہاں پر وہ اس وقت سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔
پر اس ماں کا کیا ہے جس کی ایک نہیں پر دو بیٹیوں کو اغوا کیا گیا ہے۔
وہ ماں جو مومن نہیں۔وہ ماں جو کافر ہے
وہ ماں جو مسیت نہیں جاتی۔وہ ماں جو مندر جا تی ہے۔
وہ ماں جو گھر میں کوئی لنگر نہیں کرتی۔وہ ماں جو پرشاد کھا تی ہے۔
وہ ماں جو اللہ ھوُ کی مالا نہیں جپتی۔وہ ماں جو ہری رام ہری کرشنا پکا رتی ہے۔
وہ ماں جس کے من کے اندر مندر ہے۔
اور اس مندر کی دو مورتیاں اُٹھا لی گئی ہیں!
کیا وہ ماں بس تین دن ماتم کرے اور خاموش ہو جائے؟
کیا روینا اور رینا بس ماں کے آنگن میں تین دن کھیلیں تھیں؟
کیا وہ ماں روینا اور وینا کے لیے تین دن ماتم کرے گی؟
کیا بہت دور روینا اور وینا ماں کو بس تین دن یاد کر کے روئیں گی؟
دوستو وسکی کی یہ بات کتنی اچھی ہے کہ
،،خدا تو نہیں ہے۔پر خدا کو ہونا چاہیے تھا!،،
خدا کو اور کہیں بھی نہیں تو کم از کم اس بستی میں تو ضرور ہونا چاہیے تھا جو کافروں کی بستی ہے !
جہاں پر بہت سی کافر لڑکیاں گھوما کرتی ہیں!
جہاں پر مدرسے کے بدمعاش آتے ہیں اور بہت سی ماؤں کو رُلاتے ہیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply