عشق ممنوع اور خانقاہی شیلٹر۔۔۔علی اختر

ابھی پچھلے برس کی  بات ہے ۔ کراچی کے علاقے پی آئی  بی کا لونی سے ایک دوشیزہ غائب ہو گئی  ۔ گھر والوں نے بین کیا۔ “ہائے ہائے ! بچی لے گئے کمینے ” ۔ “اغواء کر لیا معصوم کو ” ۔ “ہمیں انصاف چاہیے ” ۔

دیکھتے ہی دیکھتے اہل علاقہ جمع ہوئے اور “کمسن و نا بالغ” کے اغواء کے خلاف دھرنا دے دیا ۔ ہمارے ہر دل عزیز لیڈر فاروق ستار بھائی  اسی علاقے کے رہائشی ہیں سو دھرنے سے ایک پر جوش خطاب تو بنتا تھا ۔

دھرنے سے خطاب کے دوران فاروق ستار بھائی  نے شہر میں امن و امان کی ناگفتہ بہ صورت حال اور پولیس کی نا اہلی کو آڑے ہاتھ  لیا اور ساتھ ہی چیف جسٹس صاحب سے بھی اپیل کی کہ وہ از خود نوٹس لیں اور “بیچاری معصوم بچی” کو اغواء کاروں کے چنگل سے بازیاب کرائیں ۔

عوامی دباؤ کے تحت پولیس بھی خواب غفلت سے بیدار ہوئی  اور “معصوم ” کے فون کے ذریعے وہ سرجانی ٹاؤن کے اس گھر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی  جہاں وہ “کمسن دوشیزہ” دنیا کی تمام تر معصومیت چہرے پر سجائے ۔ اپنے ایک عدد “بوائے فرینڈ” کے ساتھ رہائش اختیار کیے ہوئے تھی ۔”کمسن” نے پکڑے جانے پر بیان دیا کہ  وہ خود اپنی مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ گھر چھوڑ کر آئی  ہے اور اب اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے ۔

بے شک اس “کمسنی” پہ کون نہ مرجائے اے خدا ۔ صاحبو! راقم کو اس سے غرض نہیں کہ  لڑکی نے محبت میں گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟ یا اس نے غلط کیا یا صحیح ۔ راقم صرف ان گھر والوں کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہے جو پہلے تو انجان بنے سارا سلسلہ چلتے رہنا دیتے ہیں ۔ جانے انجانے توجہ نہیں دیتے کہ انکی ناک کے نیچے کیا کچھ چل رہا ہے اور جب پانی سر سے اونچا چلا جاتا ہے تو “معصوم” “کمسن”،”اغواء”اور “نابالغ کو ورغلانے” جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں ۔

اسی طرح کے “اغواء” کاایک اور اندوہناک سانحہ اس وقت پیش آیا جب کراچی کے ایک بیوٹی پارلر سے دلہن تیار ہونے کے بعد گن پوائنٹ پر اغوا کر لی گئی  ۔ اس واقعے کا ڈراپ سین اگلی صبح ہی ہو گیا جب دلہن صاحبہ نے بعد از نماز فجر اغواء کار کے ساتھ نکاح کے بعد بیان دیا کہ  واقعے کی ماسٹر مائنڈ محترمہ خود تھیں ۔

دراصل گھر والے پسند کی شادی کرنے نہیں دے رہے تھے سو محترمہ نے بوائے فرینڈ کے ساتھ فرار کا منصوبہ بنایا لیکن آفرین ہے۔ وہ یہ جانتی تھیں کہ  عام حالات میں بھاگنے پر چھ سو والا لان کا سوٹ، امی کی چادر ، دو تنی والی چپل کی جوڑی، 3310 موبائل اور پتلی پن کے چارجر کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آنا ۔ سو پہلے اسی ہزار والا شادی کا ڈریس پسند کیا ، قیمتی زیورات پہنے اور اس پر بھی بس نہ کی بیوٹی پارلر سے تیار بھی ہو گئیں اور پھر بوائے فرینڈ کو “مس کال” دیدی کہ  آکر بیوٹی پارلر سے پک کر لو ۔ راقم مذکورہ بالا خاتون کی عمدہ پلاننگ اور “موقع پر چوکہ” لگا نے کی صلاحیت کو ایک بار پھر سلیوٹ پیش کرتا ہے ۔

قارئین کرام! راقم کراچی میں ہی پیدا ہوا اور پلا بڑھا ۔ وہ جانتا ہے کہ  یہاں کے گھروں کا حدود اربعہ اور اس میں رہنے والے لوگوں کی تعداد عام طور پر کتنی ہوتی ہے ۔ راقم کو کہتے شرمندگی ہوتی ہے کے وہ خود بھی گھر میں الگ  روم تو کجا الماری کی  الگ  دراز بھی حاصل نہیں کر سکا ہے۔

یہ بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ  جس سوسائٹی میں پرائیویسی نام کی چیز پانی کے زمین روز ٹینک کے علاوہ کہیں میسر نہ ہو وہاں یہ سب نین مٹکا، برقی خطوط ، موبائل پیکج پر لمبی لمبی کالیں ، آئسکریم پارلر کی ڈیٹس وغیرہ گھر والوں سے اس قدر خفیہ کیسے رہ سکتی ہیں کہ  لڑکی کے گھر چھوڑ کر جانے پر انہیں محسوس ہوتا ہے کہ بیچاری شاید اغواء ہو گئی ۔

دوسری جانب لڑکی بھی اپنے گھر والوں کو کوئی  اشارہ دیئے بغیریا کسی میں دلچسپی دکھائے بغیر محض خاموشی سے گھر چھوڑ جانے ہی کو ترجیح دیتی ہے یا پھر یہ آخری آپشن ہوتا ہے ؟ یقیناً  یہ قدم گھر والوں کے عزت سے مان جانے کے سارے امکان و امیدیں ختم ہو جانے کے بعد کا ہی آپشن ہوتا ہوگا ورنہ کون اپنے گھر والوں کو ایسے چھوڑنا چاہے گا ۔

تو پھر گھر والے اکثر یہ “نا بالغ ” اور اغواء کی بات کیوں کرتے ہیں ؟ تو بھائی  لوگ دو وجوہات اس عمل کی سب سے بڑی اساس  ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ سوسائٹی ہے جسے جواب دینا مشکل ہوتا ہے اور لڑکی غائب ہوتے ہی پہلا تاثر اغواء کا ہی دینا پڑتا ہے۔ دوسری وجہ انتقامی ٹائپ ہے کہ کسی طرح یہ واپس آ جائے اور اسکے ساتھ زندگی نہ گزار سکے جسکے لیئے ہماری برسوں  کی رفاقت و احسان دو منٹ میں بھلا کر چلی گئی ۔

درج بالاکیسز میں تو پھر بھی بچت کے کچھ چا نسز ہیں لیکن فرض کریں کہ  اگر ایک لڑکی کسی دوسرے مذہب کے لڑکے کو پسند کرلے تو اب کیا ہوگا ؟ پہلی بات تو یہ کہ  لڑکی  کی جانب سے اڑن چھو ہو جانے والا آپشن آخری  کے بجائے پہلا ہو جائے گا ۔ دوسری بات کے گھر والے ہر ممکن کوشش کریں گے ایسا نہ ہو سکے ۔ پاکستان کے معاشرہ کو دیکھ کر یہ بھی ممکن لگتا ہے کہ  لڑکی کے گھر والوں کی جانب سے تشدد اور جان سے مار دینے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے ۔ تو اب ایسی صورت میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو ایک مضبوط پشت پناہی  کی ضرورت پڑتی ہے جو آنے والی ممکنہ مشکلات کی صورت میں مدد کر سکے ۔

سندھ میں ہندو لڑکیوں کے قبول اسلام اور پھر مسلمان لڑکوں سے شادی کے معاملے میں کچھ خانقاہوں کا ذکر ہمیشہ سننے کو ملتا ہے ۔ ان میں ایک کردار “میاں مٹھو” نام کے سفید ریش مولوی صاحب کا مشہور ہے ۔ جو کہ  بیک وقت سیاسی اور مذہبی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں اور اس قسم کے مقدمات میں عدالتوں اور میڈیا پر پیش پیش رہتے ہیں ۔

کچھ حلقوں کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ  موصوف کے اشارے پر اقلیتوں کی لڑکیاں اغواء کرکے انہیں زبردستی مسلمان بنالیا جاتا ہے ۔ مولوی صاحب تو عالم دین اور بزرگ ہیں جبکہ اسلام کے بارے میں سطحی علم رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ  ایسا عمل خلاف اسلام ہے ۔ راقم کی ذاتی رائے یہ ہے کہ  کوئی  بھی اسلام کی خدمت و ثواب کمانے کی نیت سے اغواء جیسا کام نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کرتا ہے اور پھر اسے اجر و ثواب کا باعث اور جنت کی ضمانت کے طور پر بھی دیکھتا ہے تو بھائی پھر انکی عقل پر ماتم کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔

ہاں دوسری صورت حال یعنی عشق و محبت کے چکر میں گھر سے بھاگنا اور پھر خانقاہ میں پناہ لینے کے امکانات زیادہ ہیں ۔اب ایسی صورت میں “میاں مٹھو” یا اور کسی “مولوی صاحب” کا کردار محض ایک “سہولت کار” کے علاوہ کیا رہ گیا ۔

ابتداء میں بیان کردہ دو واقعات جن میں سرجانی ٹاؤن میں کرایہ کا گھر اور بیوٹی پارلر سے دلہن کے فرار کا قصہ بیان کیا گیا میں آپ “فراری جوڑوں ” کی چالبازیاں پڑھ  ہی چکے ہیں تو اسی تناظر میں کسی خانقاہ جا کر “قبول اسلام” کی کہانی سنا دینا بھی کیا ممکن نہیں ؟ ۔ چلیئے جی ، محبت بھی کامیابی سے ہم کنار ہوئی  ، خانقاہ میں شیلٹر بھی ملا ، مقدمہ کی پیروی بھی ہو گئی  یعنی پانچوں انگلیاں گھی میں۔

دراصل مذہب کے تناظر میں ہمارا رویہ مجموعی طور پر بہت عجیب سا اور خود ہماری ہی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے ۔ کبھی ہم آلو اور تربوز پر اللہ کا نام اور کلمہ طیبہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو کبھی فخریہ بتاتے ہیں کہ  “انڈرٹیکر” نے اسلام قبول کر لیا ۔ کسی زمانے میں مشہور با لی وڈ اسٹار “دھرمیندر” نے اپنی دوسری شادی کو لیگل کرنے کے لیئے پیپرز میں اسلام قبول کیا تھا ۔ ہم اس عمل کے پیچھے موجود نیت کو دیکھتے بھا لتے سمجھتے ہوئے بھی اس عمل کو آج تک سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں ۔

بے شک اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہم پر فرض ہے لیکن سب سے پہلے ہمارا اپنا کردار بھی تو ایسا مثالی ہو کہ  لوگ خود بخود  متاثر ہوں نا کہ  نفرت کرنے لگیں ۔ یاد رکھیں غیر مسلم ہماری نمازوں ، روزوں ، حج وغیرہ کے بجائے اگر متاثر ہونگے تو ہماری سچائی، ایمانداری، انسانیت اور دوسروں سے معاملات دیکھ ہونگے۔

ہم بحیثیت قوم انتہا پسند ہی واقع ہوئے ہیں اب وہ انتہا پسندی مذہبی ہو یا لبرل دونوں ہی صورتوں میں ہمیں ضرورت ہےکہ  اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں ۔

جس طرح اسلامی انتہا پسند اس واقعے کو اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر قبول اسلام کے تناظر میں دیکھتے ہیں ویسے ہی ہمارا لبرل طبقے نے بھی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا اور فوری طور پر اسے اغواء کا واقعہ قرار دے دیا ۔ ادھر “ریپ سٹی” کے حامل ملک کی وزیر خارجہ “سشما سوراج” کو بھی موقع مل گیا  کہ وہ تشویش کا اظہار کر سکیں ۔

اب جبکہ ان دونوں بہنوں کا وڈیو بیان آگیا ہے کہ  ہم دونوں نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا تو بھی لبرلز مختلف توجیہات پیش کر رہے ہیں کہ  دو بہنیں ایک ہی وقت دو بھائیوں کے ساتھ کیسے محبت کا شکار ہوئیں یا وہ لوگ جن سے نکاح کیا گیا پہلے ہی شادی شدہ تھے وغیرہ وغیرہ۔

چلیں  آپ کی بات مان کر اسے اغواء کا اور جبری مذہبی تبدیلی سین سمجھا جائے اور گھر والوں کو لڑکیاں واپس کردی جائیں اور گھر پہنچتے ہی گھر والے لٹھ لے کے بیٹھے ہوں اور کہیں “لڈن ! آگیا تو جوان ہو کر” تو بتائیں کہ ” لڈن ” کی موت کا  ذمہ دار کون ہوگا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے تو اس معاملے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ لڑکیوں کا عدالتی بیان آ نا باقی ہے ۔ لیکن پھر بھی راقم مؤدبانہ گزارش کرتا ہے کہ  کچھ بھی کہنے اور حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیئے کچھ وقت انتظار کیا کریں ۔ ممکن ہے یہ صرف محبت میں گھر سے بھاگنے کا ایک نارمل سا کیس ہو۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply