• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا داعش کو شام میں واقعی شکست ہو چکی ہے؟۔ ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

کیا داعش کو شام میں واقعی شکست ہو چکی ہے؟۔ ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

مارچ 2019ء کے اواخر میں سیئرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ داعش کی خودساختہ خلافت کا قلع قمع کر دیا گیا ہے اور یہ دولت اسلامیہ کے علاقے کی 100 فی صد شکست ہے۔ امریکی حمایت یافتہ افواج نے شام کے شمال مشرقی قصبے باغوز پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں اور اعلان کیا ہے کہ داعش کے دہشت گرد گروپ کی خود ساختہ خلافت آخر کار دفن ہو چکی ہے۔ یہ اعلان کرنے میں ایس ڈی ایف نے اُس وقت تک پس و پیش کا مظاہرہ کیا جب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے طیارے ’’ایئر فورس ون‘‘ میں اپنے ساتھ سفر کرنے والے اخباری نمائندوں کوبتا نہ دیا کہ داعش کو ’’100 فی صد شکست ہوچکی ہے‘‘۔ صدر ٹرمپ کو اس حوالہ سے قائم مقام امریکی وزیر دفاع، پیٹرک شناہان نے اس معاملہ پرتفضیلی بریفنگ دی تھی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز نے بھی اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ ’’شام میں خلافت کے علاقے کو شکست دی جاچکی ہے‘‘۔ اس اعلان سے قبل اتحادی فوج کی جانب سے متعدد فضائی حملے کئے گئے جن میں رات کی تاریکی میں ہدف کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کا نشانہ میدان جنگ کا تجربہ رکھنے والے چند سو داعش کے جنگجو بنے جو دریائے فرات کے کنارے اور قصبے کے مضافات میں پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ٹکڑے پر ڈیرہ جمائے ہوئے تھے۔ اور جونہی صبح کی روشنی ہوئی تو تباہ ہونے والا منظر نامہ دور سے دیکھا جانے لگا کہ داعش کے لڑاکوں کی مزاحمت دم توڑ چکی ہے۔ اس کے بعد ایس ڈی ایف کے ترجمان، مصطفیٰ بالی نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ’’باغوز کے گاؤں کو مکمل طور پر آزاد کرا لیا گیا ہے‘‘۔ بالی نے مزید کہا کہ ’’ہم دنیا کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں کہ خودساختہ خلافت کو نیست و نابود کر دیا گیا ہے‘‘۔

داعش کی اس شکست کے اعلان کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں عرب بہار نامی بیداری کی تحریک جنم لینے کے بعد شام میں بدامنی اور سیاسی و جنگی بحران نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا کہ مغربی قوتوں اور ان کی ہمنوا عرب ریاستوں کی جانب سے خاص منصوبے کے تحت داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی پیدائش کا مقصد عالم اسلام پر اپنی جاہلانہ سرگرمیوں کو مسلط کرنا تھا۔ یورپ کے بعض بڑے ممالک نے امریکی منصوبہ بندی اور سعودی عرب اور اس کی حامی دوسری عرب ریاستوں کی جانب سے بھرپور مالی امداد کے ذریعے شام میں بدامنی اور سیاسی بحران کے آغاز سے ہی اپنی تمام تر انٹیلی جینس، میڈیا اور فوجی سپورٹ کو تکفیری دہشت گرد عناصر کے ساتھ مخصوص کر رکھا تھا۔ ان تمام کاوشوں کا واحد مقصد صدر بشار اسد کی سربراہی میں شام کی موجودہ حکومت کو سرنگوں کر کے خطہ میں اپنی مخالف حکومتوں پر کاری ضرب لگانا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے 2011ء میں شام میں بدامنی اور سیاسی بحران کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک تکفیری دہشت گرد عناصر کو بھرپور مالی، سیاسی اور فوجی امداد مہیا کی اور انہیں اپنے اس کام کو کھلم کھلا بیان کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہوں کو ملنے والی مالی اور فوجی امداد اس قدر بڑے پیمانے پر تھی کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔ اسی طرح ان ممالک نے دنیا بھر کے ممالک سے تکفیری سوچ کے حامل افراد کو جمع کر کے شام کے ہمسایہ ممالک میں پہنچانے، انہیں منظم کرنے کے بعد ترکی، لبنان، اردن اور عراق کی سرزمین سے شام میں داخل کرنے کا کام بھی کھلم کھلا طریقے سے انجام دیا۔ اسی طرح امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، برطانیہ، فرانس وغیرہ کی جانب سے ان تکفیری ذہنیت کے حامل افراد کو ترکی اور اردن میں فوجی ٹریننگ دینا اور شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کو انٹیلی جنس معلومات اور فوجی سازوسامان فراہم کرنے کا کام بھی انجام پایا۔

یہ تمام اقدامات اس بڑی اسٹریٹجی کی بنیاد پر انجام پائے جس کی روشنی میں دشمن تراشی اور ایک فرضی دشمن کی ایجاد مغربی قوتوں خاص طور پر امریکہ کے توسیع پسندانہ منصوبوں کا لازمہ قرار پایا ہے۔ امریکہ کی جانب سے دشمن سازی پر مبنی اسٹریٹجی ’’میکیاولی‘‘ اور ’’اسٹراس‘‘ جیسے معروف مغربی سیاسی مفکرین کے نظریوں کے عین مطابق تھا جن کا عقیدہ ہے کہ اگر حقیقت میں ایک بڑا بیرونی خطرہ موجود نہ بھی ہو تو ایک مصنوعی بیرونی خطرہ ایجاد کر کے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت نائن الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے اپنائی جانے والی بنیادی پالیسی جس بنیادپرست سوچ پر استوار ہے اور اس کی تکمیل گذشتہ دو عشروں کے دوران انجام پائی، وہ تین اہم خصوصیات کی حامل ہے:

1۔ یہ کثیرالجہتی جارحانہ پن پر مبنی ہے،
2 ۔ یہ جنگ طلبی پر استوار ہے اور
3۔ یہ امریکی اقدار اور اخلاق کی مطلق العنانیت پر مبنی ہے۔

تکفیری دہشت گرد گروہوں کو مغربی امداد اور حمایت کے ثبوت:

مغربی، عربی بلاک کی جانب سے شام اور مسلم دنیا کے دوسرے ا حصوں میں سرگرم تکفیری عناصر کی حمایت اور مدد کی بنیاد اسلام اور مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے پر مشتمل امریکہ کی خفیہ سازش پر استوار ہے۔ یہ اگرچہ انتہائی خفیہ انداز میں انجام پاتی ہے لیکن اس کے بہت زیادہ ثبوت موجود ہیں۔ ان ثبوتوں کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامی مغربی اور عربی ممالک کا حقیقی مقصد اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کر کے دنیا والوں کے سامنے پیش کرنا، عالم اسلام میں تفرقہ اور دشمنی کے بیج بونا اور مشرق وسطٰی میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خطہ کی بعض عرب ریاستیں مغربی قوتوں کے ان حقیقی اہداف سے غافل ہیں اور اس غفلت کے نتیجے میں لاشعوری طور پر امریکہ کی پیادہ فوج کا کردار ادا کرنے میں مصروف رہیں۔

1991ء میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر گراہم نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا بھر میں موجود دہشت گردی کے اصلی حامی ہیں۔ اس کتاب میں پروفیسر گراہم نے بتایا کہ امریکہ نے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لئے لاطینی امریکہ، عراق اور شام میں ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دے رکھے ہیں لہذا مصنف کے بقول امریکی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ انتہائی منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے معروف محقق اور سیاسی تجزیہ نگار نوام چامسکی اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں، ’’اوباما کی حکومت نے دہشت گردی کو مزید فروغ دیا ہے اور اسے پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے‘‘۔ نوام چامسکی کے بقول امریکی صدر براک اوباما کے دور حکومت میں شاید تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گردانہ اقدام انجام پایا ہے جس میں امریکی ڈرونز کے ذریعے بڑے پیمانے پر بیگناہ بچوں اور عام شہریوں کا قتل عام کیا گیا ہے‘‘۔ چامسکی نامحدود ڈرون حملوں کو امریکہ کی جانب سے جنگی جرم کا ارتکاب قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں، ’’امریکہ کے اثرورسوخ سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات نے تیسری دنیا اور لاطینی امریکہ کے دس ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘‘۔ نوام چامسکی کی نظر میں عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی امریکی خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

یہ تمام مفروضے شام کی سرزمین پر سچ ثابت ہو چکے ہیں۔ بی بی سی نے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک رپورٹ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ مغربی طاقتیں شام کے ہمسایہ ملک اردن میں شام میں سرگرم مسلح باغیوں کو فوجی ٹریننگ دیتے رہے۔ مزید یہ کہ اردن میں موجود مذہبی شدت پسند عناصر شام میں جا کر حکومت کے خلاف لڑنے کا زیادہ رجحان رکھتے تھے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا نے اردن میں مسلح باغیوں کو فوجی ٹریننگ دینے میں اپنی فورسز کے ملوث ہونے کے الزام پر کوئی رسمی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور صرف اس نکتہ پر تاکید کرتا رہا کہ شام کی اپوزیشن کو دی جانے والی امریکی امداد فقط اور فقط غیرمہلک اشیاء تک محدود ہے لیکن صحافیوں کی غیرموجودگی میں اور رسمی بیانات سے ہٹ کر ہر دو ملک کے حکام نے اردن میں موجود ٹریننگ کے مراکز اور امریکی ٹرینرز کی موجودگی کا اعتراف کیا۔

اپریل 2013ء کے آغاز میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک خبر میں اعلان کیا تھا کہ شام کے جنوبی حصوں میں مسلح باغیوں اور تکفیری دہشت گرد عناصر کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے پیش نظریہ فیصلہ کیا کہ اردن میں ان کی ٹریننگ کے عمل میں بھی تیزی لائی جائے۔ مغربی انٹیلی جنس ذرائع کہا کہنا تھا کہ مسلح باغیوں کی فوجی ٹریننگ کی ذمہ داری امریکہ کی پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیز کو دی گئی۔ ایک باخبر سکیورٹی ذریعے نے ’جو شام کی خانہ جنگی پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا‘ لبنان کے ڈیلی البناء کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ:۔

’’مغربی ممالک نے شام کی آرمی کے خلاف فوجی کاروائی کے بارے میں بہت دقیق انداز میں کام کی تقسیم کر رکھی تھی۔ اس نے مزید کہا کہ اس ضمن میں ریڈار سے موصول ہونے والی معلومات کو جمع کر کے منظم انداز میں پیش کرنے، جاسوسوں سے حاصل شدہ معلومات اور فوجی مکالمات کی خفیہ شنود کی ذمہ داری جرمنی پر تھی۔ اسی طرح برطانیہ کی ذمہ داری اردن میں قائم کنٹرول روم سے شام کی فوج کے خلاف انجام پانے ولے آپریشنز کی منصوبہ بندی اور نظارت کرنا تھا جبکہ امریکہ کے ذمہ شام کے شمالی حصوں میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں انجام پانے والی مسلح کاروائیوں کی منصوبہ بندی اور ان پر نظر رکھنا تھا۔ اس باخبر ذریعے نے مزید کہا کہ اس ضمن میں فرانس کے ذمہ اپنے فوجی مراکز سے وابستہ گھاگ انٹیلی جنس افسران کی مدد سے شام کے مغربی حصے میں لبنان کی سرحد پر واقع علاقوں میں سرگرم مسلح باغیوں کو لاجیسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کرنا تھا۔ اسی طرح شام کے ان اعلی سطحی انٹیلی جنس افسران کے ذمے ایک اہم کام شام آرمی کے اعلی سطحی فوجی عہدیداروں کی ٹارگٹ کلنگ تھا۔ شام کی قومی سلامتی کے دفتر میں بم دھماکہ بھی انہی کی کارستانی تھا‘‘۔

امریکہ کے ایک معروف صحافی اور تجزیہ نگار سیمور ہرش شام میں امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک کی مداخلت کے بارے میں لکھا کہ کچھ عرصہ قبل شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شام آرمی کو ملوث قرار دینے کی کوشش میں ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی نے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ وہ London Review نامی مجلے میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں مزید لکھتے ہیں کہ جب شام آرمی نے مسلح باغیوں کے مقابلے میں واضح کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں تو ترکی کی انٹیلی جنس ایجنسی نے شام آرمی پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگانے کی منصوبہ بندی انجام دی تاکہ اس طرح شام پر امریکہ کی جانب سے فوجی حملے کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ سیمور ہرش نے اپنے اس مقالہ میں دمشق کے نواح میں واقع علاقے الغوطہ الشرقیہ میں انجام پانے والے کیمیائی حملے کے پس پردہ حقائق اور اس حملے میں استعمال ہونے والی زہریلی گیس ’’سیرائن‘‘ کی ترکی سے شام منتقلی کے بارے میں بھی بہت اہم انکشافات کئے۔

اس حملہ کے بارے میں سب سے مستند شواہد شام سے متعلق اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے اخضر ابراہیمی کی زبانی منظرعام پر آئے۔ اخضر ابراہیمی نے سنہ 2014ء پہلی بار انتہائی واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ حلب شہر پر انجام پانے والے کیمیائی حملے میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں جاری خانہ جنگی کا سب سے بڑا فاتح اسرائیل ہے۔ شام میں اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے اخضر ابراہیمی نے کہا کہ ’’سنہ 2013ء میں شام مخالف مسلح باغیوں نے حلب شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح خیال کیا جا رہا ہے کہ شام کے شمال میں واقع شہر ’خان العسل‘ میں پہلی بار کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ حملہ بھی حکومت مخالف مسلح دہشت گردوں نے انجام دیا تھا‘‘۔

مغربی ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم مسلح دہشت گردوں کی مالی، فوجی اور انٹیلی جنس سپورٹ کے علاوہ خطے میں مغربی طاقتوں کے ہمنوا ممالک نے بڑے پیمانے پر شام میں دہشت گرد بھی بھیجے۔ اس بارے میں لبنان کے ڈیلی المنار ایک امریکی تحقیقاتی ادارے کے بقول اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ شام میں تقریبا‘‘ 250 غیرملکی دہشت گرد موجود تھے جن میں ترکی کے دسیوں اعلی سطحی فوجی عہدیدار بھی شامل ہیں۔ ان غیرملکی دہشت گردوں میں سے کم از کم 60 ہزار دہشت گرد شام آرمی اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جبکہ مزید کم از کم 80 ہزار دہشت گرد شام سے فرار ہو کر دوسرے ممالک میں چلے گئے۔ اسی طرح شام میں جاری خانہ جنگی میں 300 ترک فوجی بھی ہلاک ہوئے جن کو ترک حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم کیا۔

شام کی خانہ جنگی کے دوران مغربی، عربی، ترکی، صہیونی محاذ کی جانب سے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کی غرض سے انجام پانے والے اقدامات اور بے پناہ مالی امداد دنیا بھر سے تکفیری سوچ رکھنے والے دہشت گرد عناصر کا شام کی جانب امڈ آنے کا باعث بنا۔ دنیا بھر سے تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام میں جمع کرنا ایک بڑا پراجیکٹ تھا جو مغربی طاقتوں اور ان کی پٹھو عرب ریاستوں کی جانب سے مکمل حمایت اور امریکہ نواز بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ڈیلی المنار کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس بارے میں یوں تفصیلات بیان کی گئیں:۔

’’کولمبیا میں واقع ایک امریکی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام میں مسلح بغاوت شروع ہونے سے لے کر 31 دسمبر 2014ء تک تقریبا 2 لاکھ 48 ہزار غیرملکی جنگجو شام میں داخل ہوئے۔ ان میں سے تقریبا’’58 ہزار جنگجو مارے گئے اور تقریبا’’82 ہزار جنگجو شام چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے گئے جبکہ تقریبا’’12 ہزار جنگجووں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور وہ گمشدہ ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں داخل ہونے والے ان غیرملکی جنگجووں میں سے تقریباًًً 96 ہزار جنگجو النصرہ فرنٹ، دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام یا داعش اور دوسرے باغی دہشت گرد گروہوں کے زیر پرچم حکومت کے خلاف لڑنے میں مصروف رہے۔ دنیا کی تاریخ میں شام میں غیرملکی جنگجوؤں کا سب سے بڑا اکٹھ معرض وجود میں آیا جس میں دنیا بھر کے 87 سے زیادہ ممالک سے دہشت گرد اس ملک میں داخل ہوئے‘‘۔

امریکی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے شائع کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اکتوبر 2013ء میں تقریبا 1 لاکھ 43 ہزار غیرملکی جنگجو ایک ساتھ شام میں موجود تھے لیکن اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں تیزی سے کمی دیکھنے کو ملی۔ اسی طرح اس رپورٹ میں آیا کہ شام میں موجود امریکہ اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلح تکفیری دہشت گردوں کی تعداد تقریبا’’12 ہزار 760 کے قریب تھی جن میں سے 2 ہزار 83 افراد شام چھوڑ کر واپس چلے گئے جبکہ ان میں سے 574 افراد کی شہریت منسوخ کر دی گئی۔ اس امریکی تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ شام میں مسلح دہشت گرد عناصر کی موجودگی کے اعتبار سے سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے جس کے تقریباًًً 19 ہزار 700 شہری تکفیری دہشت گردوں کے روپ میں شام میں موجود تھے جن میں سے 4 ہزار کے قریب دہشت گرد شام آرمی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت میں اسرائیل بھی انتہائی اہم کردار ادا کرنے میں مشغول رہا۔ انگلش زبان میں شائع ہونے والا اخبار ”نیشنل” نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ:۔
’’شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کے کم از کم تین گروہ ایسے تھے جو مسلسل اسرائیل کے انٹیلی جنس حکام کے ساتھ رابطے میں تھے‘‘۔

اس اخبار نے شام کے جنوبی حصے میں سرگرم ایک تکفیری دہشت گرد گروہ کے بقول لکھا کہ شام میں کوئی ایسا دہشت گرد گروہ نہیں جس نے کم از کم ایک بار اسرائیل سے لاکھوں ڈالر کی امداد وصول نہ کی ہو۔

اسی طرح ’’گارجین اخبار‘‘ نے ’’امریکہ شام کی حکومت مخالف اتحاد کے اراکین کو واشنگٹن میں غیرملکی سفارتکار کی حیثیت دے چکا ہے ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے ایک مقالے میں لکھتا ہے کہ امریکہ نے شام کے حکومت مخالف گروہوں کو 2 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا عندیہ دیا۔ اس مقالے میں مزید آیا کہ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ’’میری ہارف‘‘ نے اس بارے میں کہا کہ امریکی حکومت یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ شام کے حکومت مخالف گروہوں کو 27 ملین ڈالر کا امدادی سامان فراہم کرے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ بالا مواد مغربی ممالک کی جانب سے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کو مہیا کی جانے والی فوجی، مالی اور انٹیلی جنس سپورٹ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان اخراجات کا واحد ہدف مسلمانان عالم کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کی آگ بھڑکانا تھا۔ مغربی دنیا کی جانب سے عالم اسلام کے خلاف انسانی حقوق کے نام پر انجام پانے والی سازشیں اور فتنہ گری اگرچہ شام کے عوام کی مزاحمت اور ایران عراق، روس اور حزب اللہ کی حمایت کی وجہ سے زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکیں اور ان ناپاک منصوبوں کو ناکامی   کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی تکفیری دہشت گرد عناصر جنہیں مغربی ممالک اور خطے میں ان کی پٹھو عرب ریاستوں نے امت مسلمہ کے دامن میں تفرقہ کی آگ لگانے کے لئے پال پوس کر جوان کیا تھا، وہ خود انہیں کیلئے ایک بڑا خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

اس ضمن میں داعیان اتحاد نامی سٹڈی سرکل والوں کا کہنا ہے کہ ہمارے حقیقی دشمن وہ مغربی ممالک ہیں جو ان عناصر کی آڑ میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور لڑائی ڈالنا چاہتے ہیں اور یہ فریب خوردہ تکفیری دہشت گرد گروہ ہمارے حقیقی دشمن نہیں. یا یوں کہہ لیجئے کہ ہماری حقیقی دشمن وہ انٹیلی جنس ایجنسیز اور قوتیں مثلاًًً سی آئی اے، ایم آئی 6، موساد اور راء ہیں جو ان دہشت گرد گروہوں کو ہمارے خلاف اکساتی رہتی ہیں اور انہیں پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتی ہیں۔

اس صورتحال میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے حامی اور سرپرست ممالک کو اب احساس ہوتا جا رہا ہے کہ تکفیرییت کی اس حمایت کے عبرتناک اور بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ 2018ء میں کہا تھا کہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین (روس) کا مقابلہ کرنے کے لیے مغربی ملکوں کی سعوی عرب سے مدد کی د رخواست کے نتیجہ میں سعودی مالی امداد سے وہابیت کو فروغ دینے کے لئے اس کی عالمی پیمانے پر تبلیغ شروع ہوئی۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ سعودی عرب کے مغربی حلیف ممالک نے سرد جنگ کئے دوران سعودی مملکت کو تلقین کی کہ مسلم ممالک میں سوویت یونین کے تسلط اور مداخلت کو روکنے کے لئے بیرون ملک مساجد و مدارس کو کثیر چندہ دینا شروع کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہاکہ یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آنے والی سعودی حکومتیں اس مساعی کی راہ سے بھٹکتی رہیں اور ہمیں اسے واپس پٹری پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ بن سلمان نے یہ بھی کہا کہ اب جو بھی چندہ ان وہابی مساجد و مدارس کو دیا جاتا ہے وہ سعودی حکومت نہیں بلکہ ’’ادارے اور انجمنیں‘‘ دیتی ہیں۔ صرف سعودی ولی عہد ہی نہیں بلکہ یہ وہ ناقابل انکار حقیقت ہے جس کا اعتراف ان تکفیری دہشت گرد عناصر کے حامی مغربی ممالک اور خطے میں ان کے دوسرے پٹھو حکمران بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس بارے میں برطانوی اخبار ’’فائنینشیل ٹائمز‘‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں آیا ہے کہ برطانیہ کے وہ شہری جو تکفیری عناصر کے طور شام میں نام نھاد جہاد کی غرض سے گئے تھے وطن واپس آنے کے بعد وہ برطانیہ اور یورپ کے لئے ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔

مزید یہ کہ اخبار Independant نے گذشتہ 2018ء میں شائع والی اپنی ایک رپورٹ میں شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی ممکنہ واپسی سے درپیش خطرات کا جائزہ لیا اور کہا کہ اس بارے میں انٹرپول نے متعلقہ ممالک کو وارننگ بھی جاری کی۔ اس رپورٹ کے مطابق انٹرپول نے خبردار کیا کہ شام سے تکفیری دہشت گرد عناصر کی ممکنہ وطن واپسی اور دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے سے متعلق برطانیہ کو بہت زیادہ خطرات درپیش ہوں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سالوں میں برطانیہ میں درجنوں دہشت گردانہ منصوبے ناکام بنائے گئے جبکہ تمام یورپی ممالک کے درمیان برطانیہ وہ ملک ہے جو دہشت گرد عناصر کا اصلی نشانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں فرانس کی پوزیشن برطانیہ سے بھی زیادہ خطرناک بتائی گئی ہے اور کہا گیا کہ یورپی یونین کے 28 رکن ممالک کے درمیان تکفیری دہشت گرد عناصر سے درپیش خطرات کے اعتبار سے فرانس پہلے نمبر پر ہے۔

یہ اخبار انٹرپول کے سربراہ راب وائن رائے کے بقول مزید لکھتا ہے کہ شام اور عراق میں تکفیری دہشت گردوں کی ناکامی سے پیدا ہونے بحران سے موجودہ خطرات کو ایک نیا رخ ملے گا کیونکہ اس بحران کی وجہ سے نت نئے دہشت گرد گروہ دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے کیلئے یورپ کا رخ کریں گے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ انٹرپول کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک شام میں بدامنی اور خانہ جنگی جاری رہی دنیا بھر میں تکفیری دہشت گردانہ سوچ رکھنے والے افراد شام کی جانب رواں دواں رہے۔ 2013ء کے اواخر تک شام میں سرگرم مسلح شدت پسند عناصر کے درمیان غیرملکی افراد کی تعداد ایک ہزار تک جا پہنچی تھی جبکہ ان میں سے اکثریت برطانوی شہریوں کی تھی۔ ان میں سے تقریبا بیس افراد مارے جا چکے ہیں۔ اخبار میں کہا گیا ہے کہ انٹرپول نے خبردار کیا ہے کہ بعض این جی اوز خفیہ طور پر یورپی ممالک سے شام میں مسلح تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے جوانوں کو بھرتی کا کام کر رہی ہیں۔ ان جوانوں کو ترکی سے شام بھیجا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ترکی گذشتہ کچھ عرصہ سے شام جانے والے تکفیری دہشت گرد عناصر کی ایک اہم راہداری میں تبدیل ہو چکا ہے۔

دوسری طرف یورپین یونین کے کاونٹر ٹیروریزم کوآرڈینیٹر جیلیز دی کیرشوف (Gilles de KERCHOVE) نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یورپ ایک انتہائی سنجیدہ اور غیرمعمولی خطرے سے روبرو ہے کیونکہ اس کے 2 ہزار سے زائد شہری، 5 ہزار شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد، بلقان سے تعلق رکھنے والے 500 افراد اور خلیج عرب ریاستوں کے ہزاروں شہری شام اور عراق کی مسلح دہشت گرد سرگرمیوں میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد یورپ اور اپنے ممالک واپسی کے راستے ڈونڈھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے 20 سے 30 کے درمیان القاعدہ کے کمانڈرز شام گئے تھے اور فی الحال تو وہ افغانستان میں ہی طالبان کی حمایت یا اس کی مخالفت میں داعش سے لڑ رہے ہیں مگر وہ وقت دور نہیں ہے کہ یہ پاکستان واپسی کی راہ دیکھیں گے اور ملک کے مختلف حصّوں میں اپنا اثرورسوخ و تسلط قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔

مغربی ممالک کی جانب سے شام اور عراق میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت کا ایک اور بھیانک نتیجہ مغرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ڈھونگ کی قلعی کھل جانا ہے کیونکہ دنیا بھر میں شاید ہی ایسا کوئی سیاسی تجزیہ نگار ہو جو تکفیری دہشت گروہوں کی درندہ صفتی اور وحشیانہ پن کا اعتراف نہ کرتا ہو۔ دوسری طرف شام میں جمہوریت کی بحالی کے بہانے مغربی ممالک کی جانب سے ان تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت اور مدد کسی پر پوشیدہ نہیں۔ لہذا عالمی رائے عامہ اس وقت ایک بڑے سوال سے روبرو ہے کہ مغربی طاقتیں ان وحشی اور درندہ صفت دہشت گردوں کی حمایت میں کیونکر مصروف ہیں؟

امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت کا ایک اور منفی نتیجہ شدت پسندی اور فرقہ وارانہ منافرت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ جیسا کہ روسی اخبار رشیا ٹوڈے میں ایک امریکی تھنک ٹینک‘‘Rand Corporation’’ کی رپورٹ پر مبنی سٹوری کے مطابق مشرق وسطٰی خاص طور پر شام اور عراق میں گذشتہ چھ، سات سال کے دوران بین الاقوامی حالات خاص طور پر مشرق وسطی کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر دنیا کے مختلف حصوں میں شدت پسندی اور مسلحانہ اقدامات انجام دینے کی جانب رجحانات میں 50 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ رینڈ کارپوریشن کے ایک سرگرم کارکن سیٹ جونز نے دہشت گردانہ گروہوں کی سرگرمیوں اور ان کی جانب سے امریکہ کو درپیش ممکنہ خطرات کے بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کی ۔ وہ اپنی اس رپورٹ میں لکھتا ہے، ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شدت پسند گروہوں کے فروغ کا مناسب زمینہ فراہم ہو چکا ہے۔ ان شدت پسند گروہوں کی جانب سے پیدا کردہ خطرات کی وجہ سے امریکہ، شمالی افریقہ، مشرق وسطٰی اور جنوبی ایشیا میں معرض وجود میں آنے والے بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت کھو چکا ہے، لہذٰا ان علاقوں میں اپنی موجودگی کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتا‘‘۔

ماہرین کا کہان ہے کہ بلا شبہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) اب اپنے زیرقبضہ تمام علاقے کھو چکی ہے، مگریہ سمجھنا قبل ازوقت ہو گا کہ جہادی سوچ اور کارروائیاں اس پیش رفت سے ختم ہو جائیں گی۔ عسکری طور پر دیکھا جائے تو بین الاقوامی برادری خصوسا‘‘ ایران، عراق، روس اور شام پر مبنی اتحاد کے مشترکہ اور ٹھوس اقدامات اس تنظیم کی شکست کی اصل وجہ ہیں۔ تاہم یہ سوچنا ایک بے وقوفانہ عمل ہو گا کہ اسلامک اسٹیٹ کے زیرقبضہ آخری ٹھکانے کی آزادی کے بعد تمام چیزیں معمول کی طرف لوٹ جائیں گی اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس بارے میں محتاط رہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہادی سلفی ازم اس دہشت گردانہ نظریہ کے پس پردہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام قدامت پسند سلفی نظریات کے حامل افراد دہشت گرد ہیں، کیوں کہ بہت سے سلفی پرامن زندگی گزار رہے ہیں، تاہم ایسے افراد اب بھی واضح طور پر موجود ہیں جو تشدد کے ذریعے دنیا پر مسلمانوں کے راج پر یقین رکھتے ہیں۔
عسکری طور پر ’اسلامک اسٹیٹ‘ ممکنہ طور پر اپنے مکمل زوال کے قریب ہے، مگر نظریاتی طور پر ایسا نہیں۔ عسکریت پسند سلفی نظریات کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قریب 30 ہزار جنگجو پچھلے 2 برسوں میں روپوش ہو چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو یقینا‘‘ اپنے گھروں کو لوٹ کر ایک عمومی زندگی شروع کرنے کے خواہاں ہوں گے، مگر کچھ ایسے بھی ہوں گے، جو ایک نئے موقع کی تلاش میں رہیں گے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر عسکریت پسندی کا راستہ چن سکیں۔ ایسا اس صورت میں بھی ممکن ہے کہ اگر شام میں اس تنظیم کے خلاف لڑنے والی فورسز اگر یہ علاقہ خالی کرتی ہیں، تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والا عسکری خلا یہ جہادی پُر کر سکتے ہیں۔ جہادیوں نے سن 2014ء میں ایسے ہی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے شام اور عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

’’اسلامک اسٹیٹ‘ اور اس کی اتحادی تنظیموں سے متعلق اس سے قبل بھی نادرست اندازے لگائے جاتے رہے ہیں، سنہ 2008ء میں اسلامک اسٹیٹ کی شکست اور اس کے جہادیوں کے روپوش ہو جانے کے بعد بہت کم افراد یہ سمجھتے تھے کہ یہ تنظیم اچانک اتنی مضبوط ہو جائے گی۔ صرف 3 برس بعد ہی اس کے رہنما نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھا اور ایک نئے ماحول اور ترتیب کے ساتھ سامنے آ گیا اور اپنی تنظیم کو یک جا کر دیا تھا۔ اس بار بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ عسکریت پسند ایک روایتی گوریلا جنگ شروع کر سکتے ہیں اور دہشت گردانہ حملوں سے خوف کی فضا قائم رکھ سکتے ہیں۔ جن سے مغربی دنیا دہشت زدہ ہو سکے اس لئے نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کا فقط ایک موثر طریقہ ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے حالات مہیا کیے جائیں۔ انہیں بولنے کا حق دیا جائے اور ان کے ساتھ مناسب انداز سے پیش آیا جائے۔ دوسری صورت میں کسی اچھے مستقبل کے خواب کے بغیر نوجوان شدت پسندی اور دہشت گردی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے زیرقبضہ علاقے کی آزادی اس جہت میں پہلا قدم ہے، کیوں کہ اب اس علاقے کے پریشان حال نوجوان ایک خودساختہ خلافت میں ’اسلامی زندگی‘ گزارنے پر مجبور نہیں ہو پائیں گے۔ مڈل ایسٹ سیاست اور معاملات پر لکھنے والی نامورخاتون صحافی بدریا البشر کا کہنا ہے کہ خطے کے امریکہ نواز حکام کو چاہیئے کہ وہ وائٹ ہاوس کی جانب سے لگائی گئی اس آگ کے سنگین نتائج بھگتنے کیلئے خود کو تیار کریں کیونکہ یہ دہشت گرد شام اور عراق سے پلٹ کر وہاں ہی پہنچیں گے جہاں کا وہ خمیر تھے اور جہاں وہ پلے بڑھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان حکومت میں نیشنل سیکورٹی کونسل کے ذرائع کہتے ہیں کہ حال ہی میں ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی بعض عسکریت تنظیمیں داعش سے نظریاتی طور پر پہلے ہی منسلک ہیں کیونکہ دولت اسلامیہ بھی خراسان کا استعارہ استعمال کر رہی ہے اور یہاں سرگرم عسکریت پسند بھی وسیع تر خلافت کے قیام پر یقین رکھتے ہیں۔ ان تنظیموں سے وابستہ کئی لوگ شام میں داعش کے پلیٹ فارم پر لڑنے کے لئے گئے تھے۔ ان تنظیموں میں شدت پسند تنظیم جماعت الااحرار، سپاہ صحابہ، جند اللہ، جیش العدل وغیرہ شامل ہیں اور یہ سبھی تنظیمیں خراسان کے نظریہ پر یقین رکھتی ہیں یعنی وہ خلافت کا قیام پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی اشیا کے ممالک تک وسعت دینے کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ایجینسیاں اور ہمارے سیاست دان اس گھناؤنی صورتحال کا ادراک رکھتے بھی ہیں یا ان سارے مغربی دانشوروں کی ان رپورٹس کو غیر حقیقی سمجھنے کی کوشش جاری رکھیں گے؟۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply