فلم ریویو:کیسری۔۔۔شاہد کمال

ہمارا ملک انتہائی افسوس ناک صورت حال سے نبرد آزما ہے، اسوقت ایک منصوبہ بند سازش کے تحت تاریخ کو صرف بدلا ہی نہیں جارہا بلکہ اسے پکچرائز کرکے سنہری پردے پر دکھایا بھی جارہا  ہے۔ہم مشہور ایکٹر اکشے کمار (Akshay Kumar )کی فلم، کیسری،کی بات کررہے ہیں۔اس فلم میں 12 ستمبر 1897 میں ساری گڑھی میں انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی عکس بندی کی گئی ہے۔لیکن فلم سازوں نے اس جنگ کے اتہاس کے اصل ہیرو ان 10000 آفریدی پٹھانوں کو ولن بنا کر پیش کیا ہے۔جس کے بارے میں S.n. Lalصاحب نے اپنے ایک بلاگ میں یوں تحریر کیا ہے  کہ 8000 ہزار سے 10000 آفریدی پٹھانوں نے ساری گڑھ کے قلعہ پر حملہ کیا جہاں  36 ویں سکھ بٹالین کے 21 سپاہی موجود تھے۔یہ سکھ سپاہی پٹھانوں کے  جنگی تیور سے خوف زدہ ہوکر، قریب میں واقع قلعہ ،لاک ہارٹ  میں مقیم انگریزی فوجی افسر  کرنل ہاٹن کو آفریدی پٹھانوں  کے جنگی حملے  کی اطلاع دی۔

فوری اقدام کی صورت میں کرنل ہاٹن نے 36 سکھ ریجیمٹ کے 21 سپاہیوں کو حکم دیا کہ انگریزی فوجیوں کی مدد پہنچنے تک ان باغیوں کو کسی بھی صورت میں روکے رکھو۔ادھر پٹھانوں نے سکھ سپاہیوں سے کہا کہ تم ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ اس لیے کہ تم اس ملک کے باشندے اور ہمارے بھائی ہو اور ہماری جنگ انگریزوں کے خلاف ہے۔لیکن سکھ سپاہیوں نے ان آفریدی پٹھانوں پر گولیاں چلانا شروع کردیں ۔لیکن ان بہادر پٹھانوں نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے، قلعہ تک پہنچنے  میں 200   پٹھان قتل ہوگئے۔پٹھانوں کی بہادری اور جانبازی کے آگے قلعہ کی دیوار بھی بہت چھوٹی نظر آنے لگی، ان پٹھانوں نے قلعہ کو فتح کرلیا ۔اور اس میں روپوش انگریزوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔لیکن انگریزی فوج کے دوبارہ حملے کے بعد ان پٹھانوں سے انگریزوں نے دوبارہ اس قلعہ کو آزاد کرالیا ۔جس کی وجہ سے مزید 600 پٹھان شہید ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصل تاریخ یہ ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس فلم میں ان آفریدی پٹھانوں کو غدار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔یہ زعفرانی سیاست کی ایک مکروہ صورت ہے۔اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔بلکہ اس سے پہلے  جودھا اکبر کے نا م سے ٹی وی چینل پر آنے والے ایک سیریل میں مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اکبر اعظم کی تاریخ کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply