• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • صادقہ نواب سحر کی منتخب ہندی کہانیوں کا مجموعہ” شیشے کا دروازہ”۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد سہیل

صادقہ نواب سحر کی منتخب ہندی کہانیوں کا مجموعہ” شیشے کا دروازہ”۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد سہیل

صادقہ نواب سحر جدید تر ہندی اور اردو فکشن کے   افسانوی تخلیق کاروں میں شامل ہیں۔ یہ متوازی طور پر اردو اور ہندی میں بیک وقت لکھ رہی ہیں ۔ ان کے اردو ہندی فکشن پر خاصا نقد بھی لکھا گیا ہے ۔ یہ کہانیوں کا مجموعہ 2018 میں شائع ہوا ہے۔ جس میں 14 کہانیاں ان عنوانات سے شامل کی گئی ہیں:
1۔ ویل چیئر پر بیٹھا شخص
2۔ راکھ سے بنی انگلیاں
3۔ شیشُے کا دروازہ
4۔ پنچ ندی کا مچھیرا
5۔ پہاڑوں کے بادل
6۔ خدا کی دنیا
7۔ اکنامکس
8۔ دیوار گرپینٹنگ
9۔ چنگاری
10 باڈی
11۔ الو کا پٹھا
12۔ ٹمٹاتے ہوئے دئیے
13۔ ہوٹل کے کاونٹر پر
14۔ سہمے کیوں انکوش
ان تمام کہانیوں کے عنوانات اور نام ہندوستانی معاشرت اور ثقافت میں رچے بسے ہیں۔  یہ  تمام کہانیاں نثری بیانیہ اور اس کی اسلوبیاتی اور ساختیاتی شعریات کی تخلیق کاری کی عمدہ مثال ہیں۔ زیادہ تر کہانیوں کا محور مرکزی کردار ہی ہے۔ مگر اس کو سوانحی افسانہ نہیں کہا جا سکتا مگر ایک معتدل بیانیہ ان کہانیوں کا امتیاز تو ہے۔ مگر شعوری اور لا شعوری لفظیات نے تمثال اور تصویر کشی کا جو بیانیہ خلق کیا ہے اس میں شعورکی ایسی نامیاتی قلم بندی ہے جس سے اظہار اور افسانوی ساخت کی نئی شاخیں پھوٹتی ہیں۔ یہ تمام افسانے صارفیت پسند محیط ارض معاشرت کا المیہ اور دکھ ہے۔ جس میں فرد کا انبساط نقلی لگتا ہے۔ اور ان کی زندگیوں میں خوشی اور سکون کا کوسوں پتہ نہیں۔ ۔ جہاں  عورتیں ظلم ، بر بریت عدم مساوات، معاشرتی اور معاشی استحصال اور شخصی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ جہاں عورت کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا احساس تو ہے مگر وہ اس پر کوئی مزاحمت، احتجاج نہیں کرتی اور کوئی شکوہ لب پرنہیں لاتی ہے اور اپنی زندگی سسک سسک کر گزار دیتی ہے۔ جیسے ان کی کہانی ” اکنامکس” میں معیشت کے ہاتھوں مجبور ایک ماں اور بیٹی کی اذیت ناک صورتحال کو پورٹریٹ کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں مفلس الحال ماں اپنی بیٹی کی شادی دوگنی عمر کے مالدار شخص سے کروانا چاہتی ہے جو اسمگلر اور دلال ہے۔ یہ صورتحال صنفی استحصال ہندوستانی سماج میں شدت سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس قسم کے کئی واقعات کو ان کہانیوں میں بڑی مہارت اور ذہانت سے سمویا گیا ہے۔ جو بالعموم ہندوستان اور بالخصوص ممبئی کی حضری لہو آلود معاشرت کی المناک حقیقت اور سچائی ہے۔
اس کتاب میں شامل ایک کہانی” دیوار گر پینٹنگ” کا یہ حصہ دیکھیں:
” غم کے سمندروں کی بے پناہ  موجوں کے تھپیڑوں سے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ جذبات کی شدت  نے ان کے اندر ایک ہلچل سی مچادی تھی مگر باہر خاموشی تھی” {صفحہ۔ 79}
ان کہانیوں میں ہمہ گیر حساسیت اور سائیکی تو ہے مگر اس میں مقامیت کا عنصر حاوی ہے کیونکہ ان کہانیوں کے جغرافیائی علاقے مرکزی  اور جنوبی ممبئی کے علاقوں بائیکلہ، مجگاون اور سائن جیسے علاقوں کی مسلمانوں کی حسیت اور معاشرت سے متعلق ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply