• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سانحۂ نیوزی لینڈ اور اقلیتوں کے حقوق ۔۔۔ ڈاکٹر صدیق العابدین

سانحۂ نیوزی لینڈ اور اقلیتوں کے حقوق ۔۔۔ ڈاکٹر صدیق العابدین

نیوزی لینڈ میں ہونے والے تازہ المناک واقع نے جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں اور دیگر امن پسند طبقات کو ہلا کر رکھ دیا وہیں کئی طبقات کو بری طرح ایکسپوز بھی کر دیا۔
پہلا طبقہ وہ بین الاقوامی میڈیا جو ذیادہ تر مغربی دنیا کے زیر تسلط چلتا ہے، انہیں یقینا صدمہ لگا کہ اسلام اوردہشتگر دی کو مترادف قرار دینے کا جو نظریہ ایک عرصے سے وہ اپنی عوام کو بیچ رہے تھے اس کا کیا کیا جائے؟ بڑی دیر تک بڑے بڑے نشریاتی اداروں نے نفسیاتی مریض یا بھٹکاہوا شخص ثابت کرنے کی کوشش کی اور دہشتگرد کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا، مگرچونکہ اس ہذیان زدہ شخص نے نہ صرف تمام واقع کی فوٹیج سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کی بلکہ صلیبی جنگوں اور سفید فام نسل پرستی کا تمام اعلامیہ بھی اپنے ہتھیار پر لکھ لا یا تھا، جس کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہا۔
اس واقع پر عالمی غم و غصہ اور غم والم ابھی تازہ ہی تھا کہ آسٹریلوی سینٹرفریزراینگ، جو وہاں کے فیا ض الحسن چوہان واقع ہوئے ہیں، نے واقع کی نزاکت کو سمجھے بغیر آسٹریلوی پارلیمنٹ کے صفحہ پر اعلانیہ جاری کرتے ہوئے اس واقعہ کا ذمہ دار مسلمانوں کی آسٹریلوی براعظم میں بڑھتی ہوئی شرح اور ان کے مذہبی رجحانات کو قرار دے دیا ۔ ویسے تو اس قسم کے جذبات کا اظہار ٹرمپ سمیت کئی سفید فام برتری کے قائل کئی سیاستدان مغرب میں وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں اور عام حالات میں اس بیان کے بھی کئی حمایتی سامنے آجاتے مگر اس موقع کی مناسبت سے سینٹر صاحب نے جلدی کردی ورنہ علیحدہ سے حملہ آور سے مل کر چپکے سے کان میں کہہ دیتے کہ بے وقوف آدمی تمہیں کس نے کہا تھا کہ بندوق لے کر چل پڑو ،پوری دنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کا کام ہم پہلے ہی تو بخوبی کر رہے ہیں۔وہ تو بھلا ہو اُس انڈے والے لڑکے کا جس نے سب کے احساسات کی ترجمانی کر دی۔
سب سے خلاف توقع اورمتاثر کن ردعمل نیوزی لینڈ کی عوام اور بالخصوص وزیراعظم کی طرف سے دیکھنے میں آیا۔ کبھی کبھی ندامت کا احساس اور معافی کی طلب اتنی سچی ہوتی ہے کہ گناہ بھول بھی جائے، توبہ یاد رہ جاتی ہے۔ زخم کے گھاﺅ بھر بھی جائیں مرہم پٹی یاد رہتی ہے۔
حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایسے حادثات سے دو چار ہونا آج کی دنیا کے لیئے اتنا معمول بن گیا ہے کہ ایسے واقعات کا ماتم بھی فقط ایک دو روز کے مذمتی بیانات سے ذیادہ پر موقوف نہیں۔مگر جو کرب ان کے چہرے سے عیاں رہا جس انداز سے انہوں نے حکمرانی کا حق ادا کیا اور جس انداز سے پس ماندگان کی دلجوئی کی وہ اسلامی رہنماﺅں سمیت پوری دنیا کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے۔ریاست ماں ہوتی ہے، یہ سنا تو کئی بار تھا، دیکھا پہلی بار ہے۔
نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں قرآن کریم کی تلاوت سے آغاز ہوا۔ مساجد کی اذانیں سرکاری ٹی وی پر نشر ہوئیں ۔ عام شہریوں نے مساجد کے باہر علامتی حفاظتی حصار بنائے اور ہر فوٹیج میں ہر شخص کے چہرے پر احساس شرمندگی عیاں دکھا۔
یہ ردعمل ہم سب کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ؟ کہ کیا ہمارے ملک میں اقلیتو ں کے حقوق اتنے ہی محفوظ ہیں؟ اس پر جب بھی انگلی اٹھاﺅ تو فوراً وہی جھنڈے میں سفید رنگ والی لگی بندھی توجیح پیش کرکے ہر احساس سے مبراءہو جاتے ہیں؟
اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں سے حسن سلوک کا پیمانہ بھارت ہے ۔ ہر دفعہ یہ دلیل پیش کر کہ دیکھو وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہم ہر فرض سے بری ہو جاتے ہیں۔مگر دوسری طرف اگر ملک کا صدر یا وزیراعظم کسی اقلیتی تہوار میں دلجوئی کی خاطر شرکت کر بیٹھے تو اگلے دن آدھا ملک کافر اور ایجنٹ کہنے کو تیا ر ہوتا ہے۔
گرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک خداد میں مساجد پر حملوں کی شرح اقلیتی عبادت گاہوں سے بھی کہیں ذیادہ ہے ۔ مگر اقلیتی آذادی ایک حساس موضع ہے اور اس کو اُسی حساسیت سے دیکھا جانا چاہیے۔
دوسری طرف یہ اس موم بتی مافیا بھی ایک سوالیہ نشان ہے جو موسمی مینڈکوں کی طرح مغرب پہ ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعہ پر بھی دنوں تک روڈوں پر آنکلتی ہے۔ یو ں تو کسی کے غم میں شرکت اچھی بات ہے مگر اس دلخراش واقعہ پر اُن کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔مزید برآ ں یہ کہ نیوزی لینڈکی وزیراعظم صاحبہ نے جس انداز سے اس موقع پر اسلامی لباس زیب تن کرنے کو ترجیح دی یہ لنڈے کے دانشوروں اور شدت پسندوں دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
عورت مارچ منعقد کرانے والی لبرل آنٹیوں سے بھی دست بستہ گزارش ہے کہ آپ کے بیٹھنے کا انداز بھلے آپ کا جسم آپ کی مرضی میں شمار ہوتا ہے مگر اسلامی اقدار یا مشرقی روایات سے قطع نظر موقع کی مناسبت سے حلیہ اختیار کرنامغرب میں بھی وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ایسی روایات کو منافقت نہیں دانشمندی کہتے ہیں۔
مذہبی شدت پسندوں سے گزارش ہے کہ کبھی دوسروں کو دائرہ اسلام میں داخل اور خارج کرنے سے فرصت ہوتوکیا ہمیں اپنے رویوں پر غور نہیں کرنا چاہیے۔ کیا ماضی میں یوحنا آباد اور اس جیسے کئی واقعات میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں یا توآبادیوں کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ۔کیا ہمارا احساس ندامت نیوزی لینڈ کی عوام جیسا تھا؟ اگر مستقبل میں خدانخواستہ ایساکوئی واقعہ کسی مسلم ملک میں برپا ہوتو کیا ہمارا رویہ اس غیر مسلم ملک کی خاتون حکمران جیسا ہوگا ، وہ طرز عمل جو دراصل مسلمانوں کا خاصہ ہونا چاہیے، یا ہم اس آسٹریلوی سینیٹر کی طرح بے حسی اپنانا پسند کریں گے۔
جاتے جاتے اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس طرح اس واقعہ میں ایک طرز عمل انتہائی تشویش ناک تھا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے نعیم شہیدکے علاوہ کسی نے مزاحمت کی کوئی کوشش نہیں کی اس سے اپنی حفاظت اور ایسے کسی غیر فطری حادثے کی صورت میں اپنے دفاع کی بنیادی ٹریننگ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی اداروں میں اس کا انتظام کیا جائے۔

اس بات کا ادارک بھی ضروری ہے کہ دہشت گرد صرف وہی نہیں جس کی انگلی ٹریگر پر ہوتی ہے بلکہ دہشت گرد ہر وہ معلم بھی ہے جو ایسے شدت پسند انہ رویے کو پروان چڑھاتا ہے ،ہر وہ مبلغ بھی ہے جو جاہلیت کے مرکب کو خوف کےایندھن سے نفرت میں بدلتا ہے ۔ جو قلم کی نوک سے صرف نفرت کی آگ بھڑکاتا ہے یا میڈیا میں بیٹھ کر صرف نفرت کا پرچار کر نا ہے اور اس سب کا سدباب اور تدارک بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

کوئی انج دا جادو دس ڈھولا، میں شرم لکھاں تینوں آ جا وے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر صدیق العابدین
Medical Specialist by profession, working as consultant Internal medicine, writer by passion, editor and orator, had experience of leading various student literary clubs as literary secretary, in reputable institutions like Khyber Medical College, and worked as Editor in Chief in various magazines like Cenna, monthly educators, shehpar magazine..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply