وعلیکم السلام جسینڈا آرڈن۔۔۔طاہر یاسین طاہر

قیادت کا اصل امتحان بحران میں ہوتا ہے۔میری دانست میں کیوی وزیر اعظم نے انتہائی بحرانی کیفیت میں جس طرح کا مدبرانہ اور دلیرانہ کردار ادا کیا، اس نے عالم ِ انسانیت کے اہل دل کو متاثر بھی کیا اور اپنی جانب متوجہ بھی ۔تعصب اور ہمدردی میں درست تجزیہ نہیں ہو سکتا، جذبات کی رو میں بہہ جانے والے کبھی درست تجزیہ نہیں کر سکتے۔ جذبات اگرچہ انسانی حیات کی بقا کی طاقت ور علامتوں میں سے ایک ہیں۔ دیانت کسی معاشرے کی میراث نہیں ہوتی، یہ اجتماعی انسانی ورثہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسے کون اختیار کرتا ہے اور کون پس ِ پشت ڈالتا ہے؟ نظریاتی، سماجی اور معاشی حوالے سے کمزور طبقات جذباتیت اور ماضی پرستانہ رویوں کا بہت اظہار کرتے ہیں۔ سوال بہت سے ہیں اور ان کے جوابات بھی ہیں؟ مثلاً مسلمانوں کے خلاف مغرب میں بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جذبات؟ ان کی وجوھات اور عالمی میڈیا کا اس میں کردار؟مسلمانوں کی امریکہ اور استعمار سے نفرت ؟ اور اس نفرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات؟ نفرت و محبت اور مذہبی وابستگی، ہم آہنگی اورغالب آنے کی امنگ صدیوں سے انسان میں اسی طرح موجود رہی جیسے آج ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ انسانی جبلت ہے۔ غالب آنا۔
15مارچ کو نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نماز جمعہ سے قبل دہشت گردانہ حملے میں 50 افراد شہید  اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ حملے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے  شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ “نیوزی لینڈ میں اس طرح کی انتہا پسندی کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور ہمیشہ رہے گا”۔ دہشت گردی چونکہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔اب دہشت گردی کی کئی اقسام سامنے آ رہی ہے۔ مثلاً مذہب کے نام پر دہشت گردی، فرقہ وارانہ دہشت گردی،معاشی و اخلاقی دہشت گردی،رنگ و نسل کے نام پر دہشت گردی۔لیکن اس جانب بہت کم توجہ دی جا رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کو صرف ایک ہی زاویہ نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ کیوی وزیر اعظم نے عالمی ضمیر کو جگانے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کی ہیں۔انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ” سفید فام قوم پرستی پوری دنیا کا مسئلہ ہے”۔یہ کیوی وزیر اعظم کا دیانتدارانہ رویہ ہی تھا جس نے پوری دنیا کو آئینہ دکھایا اور سفید فارم انتہا پسندی کی اصلاح کو متعارف کرایا۔ورنہ بالخصوص نائن الیون کے بعد دنیا کے نزدیک  انتہا پسند صرف مسلمان ہی تھے۔صرف کیوی وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ پورے کیوی سماج نے جس طرح وہاں بسنے والے مسلمانوں اور عالم اسلام کے ساتھ یکجہتی ،اور مروت و اتحاد کا عملی اظہار کیا اس کی مثال شاید ہی ہمیں جدید تاریخ کے کسی سماج میں ملتی ہو۔
زندہ معاشروں کی کئی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لگی لپٹی کے بغیر حق و دیانت کی بات کرتے ہیں۔جس طرح کیوی وزیر اعظم نے سیاہ لباس اور سکارف پہن کر متاثرین سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا اس عمل نے ہی مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا، لیکن اس عظیم خاتون نے اس سے بھی بڑھ کر وہ کیا جو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا۔جینوئین قیادت آئیں بائیں شائیں نہیں کرتی، بلکہ فیصلہ کرتی ہے۔دو مساجد پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سےجب کیوی پارلیمنٹ کا  خصوصی اجلاس  اسپیکر ٹریور مالارڈ کی قیادت میں منعقد ہوا ،جس میں تمام مذاہب کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی،تو نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس اجلاس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا،جبکہ وزیر اعظم جسینڈا آرڈن نے اپنے خطاب کا آغاز”” “السلام علیکم” “سے کیا۔لیکن اس عظیم خاتون نے بات کو یہی ہی ختم نہیں ہونے دیا بلکہ 22مارچ کو  یعنی دہشت گردی کے ایک ہفتے بعد نیوزی لینڈ میں  نہ صرف سرکاری طور پر اذان نشر کی گئی بلکہ مسجد النور کے سامنے ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کے اجتماع میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے علاوہ ہزاروں غیر مسلم افراد نے بھی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر شرکت کی۔جبکہ کیوی سماج میں شہدا کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ہزاروں غیر مسلم خواتین نے اپنے سروں کو اسکارف سے ڈھانپ رکھاتھا۔میں نے عالمی میڈیا پر اس حوالے سے مسلسل نظر رکھی
لیکن جسینڈا آرڈن اور کیوی سماج کے عمل نے عالمی استعماری میڈیا کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اس دہشت گردی کو” کسی عمل کا رد عمل” قرار دے سکیں۔ میرے لیے تو حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ نیوزی لینڈ کی خاتون نیوز کاسٹرز نے بھی حجاب پہن کر خبریں پڑھیں اور مسلم معاشرے سے اپنے قلبی جذبات کا اظہار کیا۔کیا ہم اتنے فراخ دل ہیں کہ ہم اجتماعی طور پر ایسے کسی ردعمل کا اظہار کر سکیں؟میرے پاس اس کا جواب بالکل نفی میں ہے۔ کوئی مسلم معاشرہ یوں اقلیتوں کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا اظہار نہیں کر پائے گا جیسا نیوی لینڈ والوں نے کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جسینڈا آرڈن نے صرف مسلمانوں کو نہیں، بلکہ عالم انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے “السلام علیکم” کہا تھا۔پورے عالم انسانیت کو امن اور سلامتی کا پیغام دیا۔ہ
میں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ اس کی توصیف و تعریف کرنے سے ہمارے دائیں بازو والے بھی پریشان ہو جائیں گے۔کیا جسینڈا آرڈن مظلوم مسلمانوں کے حق میں توانا آواز بن کر نہیں ابھری ہیں؟کیا انھوں نے اپنے عمل سے خود کو ایک عالمی رہنما کے طور پر متعارف نہیں کرا دیا؟میں سمجھتا ہوں کہ جسینڈا آرڈن ، زمین پر عالم انسانیت کے لیے اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں۔ہمیں اس کے مسلمان ہونے کی فکر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کے عمل کی توصیف اور تقلید کرنی چاہیے۔
وہ اندر سے ایک صوفی عورت ہے۔ اسے مسلمان ہونے کی دعوتیں دینے کے بجائے ،ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر ،اسلام کے سماجی و اخلاقی پیغام کو بھی سمجھنا چاہیے۔اے کاش عالم ِ اسلام میںبھی کوئی رہنما پیدا ہو جائے جو سماجی نفسیات پر گہری نظر رکھتا ہو،جو الٰہی اخلاقیات کاعملی مظاہرہ کر سکے،جو عالم انسانیت کے لیے ایک سائبان کا کردار ادا کر سکے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply