میرو اور جینا۔۔ انعام رانا

کتنا مشکل ہے نا کسی بچھڑے کو عرصے بعد دوبارہ ملنا۔ جیسے بچھڑنے سے لے کر جدائی تک کا سب عذاب دوبارہ سے اپنی روح پر جھیلنا۔ بالخصوص دو ایسے لوگوں کا جو کبھی کسی قانونی رشتے سے بندھے تھے، شادی شدہ تھے۔

مگر کیا ضروری ہے کہ اک بار جدا ہو چکے پھر کبھی نا ملیں، کم از کم دوست بن کر ہی۔ یہ ہی سوچ کر شاہ میر نے ملاقات کی حامی بھری تھی جب جینا نے اسے ملاقات کا میسج بھیجا تھا۔ دو برس بیت گئے تھے، بہت کچھ بدلا تھا، مگر بہت کچھ نہیں بھی تو بدلا تھا۔ جینا کا نام، خواہ وہ اسکے فون پر ہی ابھرے اسکی دھڑکن تیز کر دیتا تھا۔

جینا اور شاہ میر ہمیشہ سے عجیب کپل تھے۔ انکا ملنا بھی عجب تھا اور جدائی بھی، حتی کے انکا ساتھ رہنا بھی بہت سے لوگوں کو عجیب ہی لگتا تھا۔ دونوں دو مختلف کلچرز، مختلف زبان، ملک حتی کہ سوچ رکھتے تھے، مگر محبت ہر شے پر حاوی تھی۔ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے یا اندھا کر دیتی ہے۔ نہیں، محبت بے نیاز کر دیتی ہے۔ محبت اک خواب ہے جس میں سب کچھ آئیڈیل ہوتا ہے اور خراب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ خوابیدہ سی زندگی خدا کی لکھی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ خود دو پریمیوں کی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ ایسے ہی خواب میں گم تھے جینا اور شاہ میر۔

میرو، جیسا کہ اسے جینا پکارتی تھی انتہائی لاابالی شخص تھا۔ اسکا سوچنے کا ڈھنگ، جینے کا ڈھنگ، پیار کا ڈھنگ، سب ہی لاابالی تھا۔ قدرت نے اک ستم اس پر اور کیا تھا کہ اسے تخلیق کی اجازت دی تھی۔ پیشے سے گو وہ اکاونٹنٹ تھا مگر پینٹنگ اسکا عشق تھا۔ کئی کئی گھنٹے کینوس کو ایزل پہ سجائے وہ خیالی دنیا تخلیق کرتا تھا۔ قدرت جسے تخلیق کی قوت دیتی ہے اسے کرب بھی عطا کرتی ہے، اسے نا اک نارمل انسان سی سوچ دیتی ہے نا زندگی۔ میرو بھی ابنارمل تھا جس کیلیے اسکی کینوس پر تخلیق کردہ زندگی حقیقت تھی۔ اور اس زندگی میں جینا اور وہ بہت خوش تھے، جینا اس پینٹنگ کا مستقل اور سب سے شوخ رنگ تھا۔

Image result for love artworkمگر زندگی فقط پینٹنگ نا تھی۔ شوخ رنگ مدھم ہوتا جاتا تھا اور جینا اکتاہٹ کا شکار۔ اس نے بہت کچھ بدلا تھا۔ مذہب، ملک، لباس حتی کہ عادات تک۔ مگر میرو کا لاابالی پن اب اسکے اعصاب چٹخاتا تھا۔ ہر دن وہ خود سے یہ عہد کر کے شروع کرتی تھی کہ وہ میرو پر نہیں چلائے گی، لیکن شام تک یہ عہد ہار جاتا تھا۔ تولیہ فرش پر یا پانی کا نل کھلا ہوتا، بینک کی کوئی قسط لیٹ ہوتی یا کوئی ایسا جھوٹ سامنے آتا جو میرو کیلیے تو معمولی ہوتا مگر اس کیلیے ایک دھماکہ۔ قدرت نے جینا کے ساتھ بھی اک ظلم کیا تھا کہ اسے پرفیکشنسٹ بنا دیا تھا۔ اسے ہر شے ویسی چاہیے تھی جیسی وہ چاہتی تھی اور ایسی مکمل کہ دھونڈے سے کجی نا ملے۔ جب ایسا نا ہوتا تو چیختی تھی، میرو پر چلاتی تھی اور روتی تھی۔ مگر میرو کو رونا پسند نہیں تھا۔

جینا کو چڑ تھی کہ میرو اپنی خیالی دنیا سے باہر نہیں آتا تھا جو جذبات سے پینٹ کی ہوئی تھی۔ میرو اسکا استعمال شدہ ٹشو، پرفیوم کی خالی بوتل، آدھ کھائی چاکلیٹ سنبھال لیتا تھا کہ یہ یادگار ہے۔ وہ روز اسکی تصویر اتارتا تھا کہ یادگار ہے۔ حد یہ کہ ایک کامیاب اکاونٹنٹ ہونے کے باوجود اسے ٹائی باندھنا تک نہیں آتی تھی کیونکہ وہ سیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ میرو کا باپ بچپن سے اسکی ٹائی باندھتا تھا۔ سخت گیر باپ کے ساتھ میرو کا یہ ایسا تعلق تھا جس میں اسکو باپ کی قربت نصیب ہوتی تھی۔ شاید اسی لئیے باپ کے سکھانے کے باوجود وہ جان بوجھ کر ٹائی باندھنا نہیں سیکھتا تھا۔ پھر اچانک اک دن باپ مر گیا۔ میرو نے جب جینا سے شادی کی تو اسکے پاس اسکے باپ کی باندھی ہوئی گیارہ ٹائیاں تھیں اور وہ فقط وہی  بندھی بندھائی ٹائیاں چھ برس تک پہنتا رہا تھا۔ شادی کے بعد جینا نے ٹائی باندھنا سیکھی اور وہ اب روز اسکی ٹائی باندھتی تھی۔ اگر وہ سیکھنے کو کہتی تو وہ اسکے گلے میں بانہیں ڈال کر کہتا، ٹائی سیکھ لی تو تیری مہکتی سانسیں اپنے چہرے پر کیسے محسوس کروں گا۔ میرو کے نزدیک نزدیک شادی حقیقت سے زیادہ ایک گھٹیا رومانٹک ناول تھا جس میں سب اچھا ہوتا ہے۔ ایک رومانٹک فلم جس میں محبت میں ڈوبے دو پریمیوں کے ساتھ کچھ غلط ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک ایسی پینٹنگ جس کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑتے۔ سو جب جینا جھگڑتی، چلاتی یا روتی تو وہ ڈپریس ہو جاتا، اسکی تخلیق کردہ شادی میں جھگڑے اور اداسی کا رنگ تو تھا ہی نہیں۔

محبت ہوتی ہے، مگر کیا واقعی ہمیشہ کیلیے ہوتی ہے؟ وہی محبوب جو جنموں کا ساتھی ہوتا ہے، اجنبی لگنے لگ جاتا ہے۔ وہی ادائیں جو کبھی جذبات کو اتھل پتھل کر دیتی ہیں، زہر لگنے لگتی ہیں۔ شادی جو خدا کے سامنے اک وعدہ بنا کر کی جاتی ہے، اک جھوٹ لگتی ہے۔ حقیقت شاید خواب سے جگا دیتی ہے۔ جینا اپنی تمام تر محبت کے باوجود اب ہمت ہار چکی تھی۔ اسکے دئیے ہوئے تمام اشارے میرو نے نا سمجھے، اسکی تمام تر کوششیں ناکام گئیں اور پھر اک دن اسے احساس ہوا کہ وہ اب میرو سے پیار نہیں کرتی۔ اسے دیکھ کر اب اسے اکتاہٹ ہوتی تھی، اسکا ہنسنا اسے بار گزرتا تھا اور جینا کو چلانے پر مجبور کرنے کیلیے تو میرو کی محبوبانہ باتیں بھی اب کافی تھیں۔ مردوں کا مسلئہ ہے کہ انکو معلوم ہی نہیں پڑتا کہ کب عورت نے ان سے محبت کرنا بند کر دیا۔ جب جینا نے طلاق فائل کی تو میرو کی پینٹنگ ایزل سے زمین پر آ گری، رنگ فرش پر شیشہ بن کر ایسا پھیلے کہ میرو کے پاوں زخمی کر گئے، خواب کچھ یوں ٹوٹا کہ روح تک میں چھید کر گیا۔

دو سال بیت گئے تھے جب اک دن جینا کا میسج ملا کہ وہ لندن میں تھی اور اسکو ملنا چاہتی تھی۔ میرو سوچتا رہا کہ کیا جدائی کا تمام کرب دوبارہ جینا بہتر ہو گا یا وہ انکار کر دے۔ لیکن کچھ کرب بہت عزیز ہوتے ہیں سو اس نے ہاں کر دی۔

جینا ریسٹورانٹ میں داخل ہوئی تو اسکی دھڑکن تیز ہو گی۔ وہ نیلے رنگ کے لباس میں تھی، جو ہمیشہ اس پر بہت سجتا تھا۔ دونوں نے ہچکچاتے، شرماتے ہوے ایک دوسرے کے گال چومے اور گلّے ملے۔ وقت بستر شریک لوگوں میں بھی کیسی شرماہٹ پیدا کر دیتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے اسکی انگلی میں پڑی انگوٹھی نوٹ کی تھی۔ میرو کی نگاہ کو اپنی انگوٹھی پر مرتکز دیکھ کر جینا نے دھیمے سے کہا، “ہاں، میں نے منگنی کر لی”۔ میرو مسکرایا۔ مبارک ہو، میں تمھارے لئیے خوش ہوں۔ مجھے امید ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔

“ہاں وہ بہت اچھا ہے، میں بہت خوش ہوں” جینا نے مسکراتے ہوے کہا۔ “تم کو کوئی ملا؟”

نہیں۔ میرو نے دور کسی ٹیبل پر دیکھتے ہوے کہا۔ کوشش نہیں کی۔ شاید ضرورت بھی نہیں، شاید میں ریلیشن شپ کیلیے نہیں بنا، ورنہ یہ سب نا ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

Image result for rose tieجینا نے فورا گفتگو کا رخ موڑنے کی کوشش کی، “یہ میں تمھارے لئیے لائی ہوں” اور ایک باکس اسکی طرف بڑھا دیا۔ باکس میں ایک شاندار پھولوں والی ٹائی تھی، شوخ، اسکے پسندیدہ برانڈ کی۔ اس نے ٹائی کو کھولا اور کالر اونچے کر کے باندھنا شروع کر دیا۔ ایک بہترین ناٹ باندھ کر اس نے نظر اٹھائے بغیر پوچھا، کیسی لگتی ہے؟ “تم نے ٹائی باندھنا سیکھ لی؟”، جینا کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ میرو نے جواب نہیں دیا، ٹائی کے درمیانے دو پھول بھیگ کر اور بھی چمکنے لگے تھے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرو اور جینا۔۔ انعام رانا

  1. بہت خوب رانا صاحب۔۔۔ کمال لکھا ہے۔۔۔ اختتام بھی خوب تھا۔۔۔ آپ کے روائیتی اسلوب سے ہٹ کر تھا۔ اس لئے زیادہ اچھا لگا۔۔۔ مجھے لگتا ہے۔ آپ کو ایسے افسانے لکھنے کے لئے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

Leave a Reply to ajmal malik Cancel reply