پاکستان اور مذہبی اقلیت۔۔۔کلدیپ

پاکستان میں رہنے والی اکثریتی طبقے کی مجبوری تھی کہ انکی زمین رشتے دار کاروباری دلچسپی یا پھر مذہی آزادی غرض کہ ہر قسم کا مفاد جڑا تھا اس ملک سے اسی مجبوری کی بنا  پر وہ اس ملک کا حصہ بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں رہ رہے ہیں ۔مگر مندرجہ بالا کوئی بھی مجبوری مذہبی اقلیتی طبقے کے ساتھ نہیں جڑی ۔نہ  تو انکے کاروبار اس مقام پر ہیں  کہ وہ فیکٹریوں کے مالک ہوں ۔نہ ہی انہیں مذہبی آزادی حاصل ہے اور نہ ہی بنیادی برابر کے شہری حقوق ۔پھر یہ لوگ پاکستان میں کیوں رہ رہے ہیں؟
آئے روز انکے خلاف متشدد رویہ زبردستی مذہب تبدیلی جیسے واقعات کافی ہیں کسی بھی ملک میں جانے کے لیے۔وہ انکو اپنا لینگے ۔ مگر یہ ہے کہ جاتے نہیں ۔
1947 میں تقسیم کے وقت یہ لٹی پٹی اقلیتی طبقہ چھپ چھپاکر پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیتا آرہاہے ۔یہ واحد طبقہ ہے جو بائی  چوائس پاکستانی ہے ۔
کبھی اس طبقے نے کوشش تک نہیں کی کہ ملک بدنام ہو لہذا انکے ساتھ جو بھی ناانصافی ہورہی ہے یہ خاموشی سے سہہ لیتے ہیں ۔
سندھ جیسے صوبے جہاں ہندووں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے وہاں پر روز لڑکیوں کو اغواء کرکے بعد میں مسلمان بنا دیا جاتا ہے ۔
میرا سوال ہے آج تک کوئی مرد یا بوڑھی خواتین ہی کیوں مسلمان نہیں ہورہی ہیں ۔
کہیں سنا تھا کہ اسلام زبردستی مذہب تبدیلی کی حمائت نہیں کرتا تو پھر آخر کیوں مذہبی طبقے کوچپ سی لگ جاتی ہے ۔
سیکولر ازم کے داعی اور شدت پسندی کے بھرپور مخالف بلاول بھٹو نے آج تک اس ایشو پر بیان تک نہیں دیا ۔
مجھے بلاول کی لبرل اور سیکولر سوچ کی اپروچ پہ کچھ تحفظات ہیں  کہ جب بھی تقریر شروع کرتے ہیں وہ مذہبی نعروں سے آغاز کرتے ہیں ۔
لگتا ہے بلاول ووٹر کی مذہب پرستی کو الیکشن ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوں ۔کب تک الیکشن بیسڈ سیاست ہوتی رہیگی ۔ممکن ہے یہ وڈیروں کے رحم و  کرم پہ الیکشن جیتتے ہوں ۔
ہم جو روز گلا پھاڑ کر بلاول اور زرداری کی بھرپور حمائت کرتے ہیں” ہم سب کو شدید تحفظات ہیں ۔
کچھ دن پہلےچوک میں تین دن لٹکی ایک ہندو جوان کی لاش پر بھی بلاول اور سندھ حکومت خاموش رہی ۔
اگر لبرل اور سیکولرازم کی حمائتی پارٹی کارویہ یہ ہوسکتا ہے تو دوسروں سے تو امید ہی نہیں ۔
سندھی ہندو اچھا کریں تو سندھ چھوڑ تحریک کا آغاز کریں یا تو وہ کے پی یا بلوچستان چلے جائیں  نہیں تو ملک چھوڑ دیں ۔ایک واقعہ نہیں کہ ہم خاموش رہیں۔ بلکہ سندھ میں اسطرح کا رویہ رواج پا چکا ۔جوان اور خوبصورت لڑکیاں ہی کیوں روز مسلمان  ہوتی ہیں۔ بوڑھے کیوں نہیں مرد کیوں نہیں ؟
سندھ میں کئی عشروں سے ہندو اقلیتی مذہب کو ماننے والوں کو نفسیاتی جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر مجال ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما مذمت کا ایک لفظ تک بولیں ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو پھر آپکے نعرے بھی محض عمران خان کی طرح ہیں۔جب بھی اپنے اوپر آتی ہے تب جمہوریت سیکولرازم کی حمائت لبرل بیانیے کے لیے اور شدت پسندی کی مخالفت کے لیے آپ روڈز پہ ہوتے ہیں  اور ہم آوے ہی آوے کے نعروں میں پولیس ڈنڈوں سے سر پھوڑ رہے ہوتے ہیں ۔عوامی ایشوز پہ سڑک پہ کسی ایک لیڈر کو نہیں دیکھا ۔ ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply