کامریڈ بھگت سنکھ کی جدوجہد، خطوط کے آئینے میں۔۔۔۔ظفر رند

عظیم انقلابی استاد اور زندہ دل انقلابی ساتھیوں کے ہم سفر و رہنما کامریڈ بھگت سنگھ کو 23 مارچ 88 ویں یومِ شہادت پر سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔

وہ بھگت سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے

جب بھگت سنگھ کے والد صاحب نے بھگت سنگھ کی رائے پوچھے بنا اس کا رشتہ طے کر دیا تب ان کا بیٹا بھگت سنگھ کسی اور ہی عشق کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس نے بڑی حیرت سے والد کے نام ایک خط لکھا؛

محترم والد صاحب!
یہ وقت شادی کا نہیں ہے، مجھے وطن پکار رہا ہے۔ میں نے عہد کیا ہے کہ تن من دھن سے ملک کی خدمت کروں گا اور پھر یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں، ہمارا پورا خاندان وطن پرستوں سے بھرا پڑا ہے۔ میری پیدائیش کے دو تین سال بعد 1910 میں چاچا سورن سنگھ کا جیل میں انتقال ہوگیا تھا۔ چاچا اجیت سنگھ بیرونِ ملک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے بھی جیل میں بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں۔ میں صرف آپ کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں اور اس لیے میں نے یہ حوصلہ کیا ہے۔ براہِ کرام آپ مجھے شادی کے بندھن میں نہ باندھیں بلکہ میرے حق میں دعا کریں تاکہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکوں۔

اس کے والد نے اس کی نہیں سنی اور انہوں نے بھگت سنگھ کو لکھا؛

ہم نے تمہاری شادی طے کر دی ہے۔ ہم نے دلہن کو بھی دیکھ لیا ہے۔ ہمیں وہ اور اس کے والدیں پسند ہے۔ مجھے اور تمہیں بھی، تمہاری دادی کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔ اس لیے یہ میرا حکم سمجھو کہ شادی میں تم کوئی رکاوٹ نہیں ڈالو گے اور اس کے لیے خوشی خوشی تیار ہو جاؤ گے۔

تب بگھت سنگھ اپنے والد صاحب کو لکھتے ہیں کہ؛

آپ کا خط پڑھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ آپ جیسا سچا محبِ وطن اور بہادر شخص بھی ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے متاثر کیا جا سکتا ہے تو پھر ایک عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟۔ آپ دادی کی فکر کر رہے ہیں لیکن یہ خیال نہیں کر رہے کہ ہم 33 کروڑ افراد کی ماں مادرِ ہند کتنی تکلیف میں ہے، ہمیں اس کے لیے سب کچھ قربان کرنا ہوگا۔

بگھت سنگھ کی لاکھ کوشش کے بعد بھی اس کے والد صاحب اس کو نہیں سمجھ سکے تب مجبورًا اسے ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑا کیوں کہ وہ اپنے گھر والوں کو کسی بھی طرح تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا، اسے اپنے گھر والوں سے بہت زیادہ پیار تھا، مگر مادرِ وطن کے عشق نے اسے مجبور کیا کہ وہ ایک ایسا راستہ اپنائے۔ یوں آخر میں اسے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اسے پتا تھا کہ جب وہ اس راستے کو اپناتے ہوئے گھر سے نکلا ہے تو وہ شاید اپنے گھر واپس کبھی لوٹ نہیں آئے۔ اس لیے وہ گھر سے نکلتے وقت اپنے آخری خط میں اپنے گھر والوں کو لکھتا ہے کہ:

میں نے اپنی زندگی مادرِ وطن کی خدمت جیسے اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کر دی ہے۔ اس لیے میرے لیے گھر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں کوئی کشش نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میری زنار پوشی کی رسم کے موقع پہ باپو جی نے اعلان کیا تھا کہ مجھے ملک کی خدمت کے لیے وقف کیا جا رہا ہے۔ میں صرف اس قول کو پورا کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھےمعاف فرمائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کامریڈ یہ خط اپنے گھر والوں کے نام لکھ کر، گھر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر اپنے مقصد کے لیے منزل کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ وہ لاہور ریلوے اسٹیشن پہ اپنے دوستوں سے الوداع ہوتے ہوئے کہتا ہے؛

اگر میری شادی غلام ہندوستان میں ہوئی تو میری دلہن صرف موت ہی ہوگی، میرا جنازہ ہی میری بارات ہوگا اور باراتی ہوں گے اس ملک کے شہید!

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply