تقریباً پونے گیارہ بجے۔۔۔۔۔۔ شکیل احمد چوہان

’’جہاں خیر نہیں ہوتا وہاں شر ہوتا ہے اور جہاں لنگر نہ ہو وہاں بھوک ہوتی ہے۔ آپ اگر لنگر کو ختم کرو گے تو بھوک دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گی، بھوک ہاتھی کو بندر بنا دیتی ہے اور انسان کو حیوان۔ اللہ کی شان دیکھیں چوہان صاحب۔۔۔۔ فقیر کے دَر سے لنگر ملتا ہے اور وقت کے حکمرانوں کے دَر سے دھکے۔‘‘
’’کیا یہ وہی لنگر ہے جو صوفیا کی خانقاہوں پر ملتا تھا؟‘‘ میں نے پانی کی طرح پتلی دال اور ربڑ کی طرح سخت روٹی کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔ میاں لطفی کے چہرے پر میٹھی مسکراہٹ اُبھری۔
’’چوہان صاحب! آپ اسے لنگر مت کہیں کوئی دوسرا نام دے دیں۔ آپ نے کبھی بغیر جانے، بغیر پوچھے دس لوگوں کو کھانا کھلایا ہے؟‘‘
میں نے نفی میں گردن ہلا دی تھی۔
’’یہاں پر لاکھوں لوگ روزانہ کھاتے ہیں۔ کوئی کھلانے والا کسی کا نام نہیں پوچھتا۔۔ معاف کیجیے گا! آپ جیسے لوگ گھرانہ دیکھ کر کھانا بھجواتے ہیں۔‘‘ میاں لطفی نے سانس لی تو میں فوراً بول پڑا:
’’کیا؟ آپ اپنے گھر میں اسی طرح کا کھانا اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں؟‘‘
’’چوہان صاحب! آپ کو بھی یورپ والوں کی طرح اسلام کی خوبیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں لنگر جیسا کوئی سسٹم ہو تو بتائیں یورپ، امریکا کی کوئی حکومت روزانہ چوبیس گھنٹے لاکھوں لوگوں کو مفت کھانا کھلاتی ہو۔ کوئی ادارہ این جی او وغیرہ۔ آپ کو ایک بھی ایسا صاحبِ حیثیت آدمی نہیں ملے گا۔ لنگر خدائی دسترخوان ہے جو اولیاء اللہ کی درگاہوں پر ہی بچھتا ہے۔ اولیاء اللہ ہی اسلام کے صحیح نمائندے ہیں۔ آپ اور وہ یورپ والے چند خارجی ذہنوں کو اسلام کے نمائندے بنا کر پیش کرتے ہیں۔‘‘
’’میاں صاحب! میں لنگر کی کوالٹی کی بات کر رہا تھا۔ آپ نے مجھے بھی یورپ والوں کے ساتھ ملا دیا ہے۔‘‘
’’کسی بھی چیز کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے وقت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ محنت کرنے کے لیے وقت ہمارے پاس نہیں ہے۔ بڑے کھاتے پیتے حضرات باہر ہی سے لنگر کے لیے پیسے دے کر چلے جاتے ہیں۔ اُن کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ دیکھ لیں جو رقم انھوں نے لنگر کے لیے دی ہے کھانا اُسی معیار کا ہے۔ پہلے لوگ اپنے گھروں سے کھانا لا کر درگاہوں پر تقسیم کرتے تھے۔ وہ اسپیشل کھانا ہوتا تھا۔ ایسا کھانا لوگ اپنے گھروں میں بھی نہیں کھاتے تھے جیسا وہ لوگ درگاہوں، مزاروں پر تقسیم کرتے تھے۔ اب بھی کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں مگر ایسا کرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔ آپ کی نظر جس پتلی دال اور روٹی پر لگی ہوئی ہے وہ تو اپنا روزگار کما رہا ہے۔ یہاں سو کے قریب لنگرخانے قائم ہیں جو یہ کاروبار سالوں سے کر رہے ہیں، یہ لوگ اللہ کی مخلوق کو کچھ نہ کچھ کھلا کر ہی کماتے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں تو لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین کر کمانے کا فیشن چل پڑا ہے۔‘‘
اچانک میاں لطفی کے موبائل پر نعتیہ کلام لگ گیا کسی نے کال کی تھی۔ میاں لطفی بات کرنے میں مصروف ہو گئے۔
’’لنگر والے۔۔ لنگر والے۔۔آجاؤ۔۔لنگر والے۔‘‘ آواز بلند ہوئی تھی۔ میری نظروں نے آواز کا پیچھا کیا تھا، میں کیا دیکھتا ہوں، لنچ کے ڈسپوزیبل بوکس ایک عورت تقسیم کر رہی تھی۔ میں نے ایک نظر میاں لطفی پر ڈالی۔ وہ بات کرتے ہوئے میری طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے مجھے اشارہ کیا ایک بوکس لینے کے لیے۔ میری اَنا کا بت لنگر لینے کے لیے تیار نہیں تھا پھر بھی میں چند قدم آگے بڑھ گیا۔ چالیس پچاس لوگ وہ بوکس لے کر دائیں بائیں کھڑے بیٹھے کھانے میں مصروف تھے۔ اُس عمر رسیدہ خاتون نے شاید میری آنکھوں کی تحریر پڑھ لی تھی۔ اُس نے ایک مزدور کے ہاتھ ایک لنچ بوکس مجھے بھی بھیجا تھا۔ میں نے وہ بوکس تھام لیا۔
’’چوہان صاحب! بھولے کی دُکان پر بیٹھ کر کھائیں۔ مجھے تھوڑا کام ہے۔ ان شاء اللہ دوبارہ ملاقات ہو گی۔‘‘ میاں لطفی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔ وہ مجھے بھولے کے حوالے کر گئے تھے۔ میں لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھ گیا تھا اور میں نے وہ لنچ بوکس کھولا۔ قیمے والے چاول تھے اوپر دو شامی کباب۔ ساتھ تھوڑا سا حلوہ۔ میں ان دنوں وزن کم کرنے کے چکر میں ڈائٹنگ کر رہا تھا، چاول اور میٹھا دونوں ہی میرے پرہیز میں شامل تھے۔ میں نے کھانے کی کوالٹی چیک کرنے کی غرض سے ایک نوالہ منہ میں ڈالا۔ ڈائٹنگ گئی بھاڑ میں۔ ایسے ٹیسٹی قیمے والے چاول میں نے پوری زندگی میں نہیں کھائے تھے۔ چاول کھانے کے دوران میں نے بھولے کو رسماً صلح ماری تھی۔ بھولا بولا:
’’باؤ جی۔۔آپ کھاؤ، میں بچپن سے کھا رہا ہوں۔‘‘
میں نے پورا بوکس ختم کر کے ہی گردن اٹھائی تھی۔ جیسے ہی میں نے کھانا ختم کیا ایک لڑکا دو کپ اور تھرماس تھامے ہوئے وارد ہوا تھا۔
’’بھولے۔۔ابا جی نے مہمان اور تمھارے لیے چائے بھیجی ہے۔‘‘ اُس لڑکے نے تھرماس اور کپ رکھتے ہوئے کہا۔
بھولا دوعورتوں کو پھول اور مخانوں کا پیکٹ دے رہا تھا۔ بھولے نے مجھے چائے ڈال کر پیش کی۔ میں نے پہلا گھونٹ لیا۔
’’واہ۔۔‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ ویسی چائے بھی میں نے کم ہی پی تھی۔ بھولے نے مجھے بتایا:
’’میاں لطفی کے شوق بھی نرالے ہیں۔ یہاں پر آنے والے زائرین کی خدمت کرتے ہیں۔ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں خود اپنے ہاتھوں سے۔ چائے اور پان کے شوقین ہیں۔ نماز کے وقت اُن کے منہ میں پان نہیں ہوتا یا پھر چائے پینے کے دوران۔
لنگر کے متعلق بتانے والا تو وہاں نہیں تھا۔ مجھے دو طرح کا کھانا کھا کر لنگر کی سمجھ آگئی تھی۔ قیمے والے چاول کھانے سے پہلے میں نے پتلی دال اور ربڑ کی طرح سخت روٹی بھی کھائی تھی۔ سچ کہوں تو دال روٹی کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ میں اپنی چائے ختم کر چکا تھا۔ بھولے نے مجھے کہا:
’’باؤ جی۔۔ آپ بیٹھو، میں نماز پڑھ کر آیا۔‘‘ وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا، اُس نے مجھے نماز کی دعوت نہیں دی، میں بھی ہفتہ وار نمازی تھا۔ اس میں بھی اللہ جھوٹ نہ بلوائے، ڈنڈی مار لیتا، بھولا بھی اولیاء اللہ کے طریقے پر تھا۔ اُس نے بھی تلقین کی بجائے عمل کا رستہ چنا۔
بھولا نماز پڑھ کر آیا تو میں بھی اس کی دکان اُس کے حوالے کر کے نماز پڑھنے چلا گیا، عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں بھولے کے پاس آیا تو وہاں پر گاہکوں کا رش لگا ہوا تھا۔ جمعرات کا دن تھا۔ کوئی پھول خرید رہا تھا،کوئی مخانے تو کوئی اگربتی۔ بھولا اپنی دکان داری بھی کر رہا تھا اور مجھ سے باتیں بھی۔ بھولے کی اپنی کہانی بھی بڑی دل چسپ تھی اس نے مجھے بتایا:
’’باؤ جی۔۔ میں نے ہوش سنبھالا تو داتا کی نگری میں تھا۔ اِن ہی گلیوں میں میرا بچپن گزرا ہے۔‘‘ بھولے نے روشن آنکھوں سے گلی کی طرف اشارہ کیا تھا فخریہ انداز میں۔
’’باؤ جی! آپ میاں صاحب سے لنگر کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں نے ساری زندگی یہی لنگر کھایا ہے اور اسی کے سہارے زندگی کو بچایا ہے۔ مجھے نہیں پتا میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، میرے ماں باپ کون ہیں، بھوک لگتی تو لنگر کھا لیتا۔ اُداس ہوتا تو حضور داتا صاحب کے سامنے جا کر بیٹھ جاتا پھر ایک دن میاں لطفی صاحب کی نظر مجھ پر پڑی۔ انھوں نے مجھے نئے کپڑے لا کر دیے۔ تھوڑا بڑا ہوا تو مجھے پھولوں کا کام شروع کرنے کے لیے روپے بھی دیے۔ پھر میری شادی بھی کروائی۔ اب میرے دو بیٹے ہیں، عاطف اور ثاقب۔ اپنا چھوٹا سا گھر بھی ہے۔ اللہ نے بڑا کچھ دیا ہے حضور داتا صاحب کے صدقے۔‘‘
’’بھولے! تمھیں نہیں لگتا داتا کہنا غلط ہے؟‘‘ میں نے جھجکتے جھجکتے پوچھ ہی لیا تھا۔ بھولا مسکرایا اور کہنے لگا:
’’باؤ جی! آپ پڑھے لکھے لوگ بھی بھولے ہی ہوتے ہیں۔ میں پڑھا لکھا تو نہیں ہوں پھر بھی اتنا تو مجھے بھی پتا ہے ’’داتا‘‘ دینے والے کو کہتے ہیں۔ ہر دینے والا خدا نہیں ہوتا۔ ہاں۔۔ سب کچھ دینے والے کو اللہ کہتے ہیں۔ ابھی وہ عورت لوگوں کو کھانا دے کر گئی ہے تو کیا وہ داتا نہیں؟ ابھی آپ نماز پڑھ کر آئے ہیں، آپ نے دیکھا ہو گا داتا صاحب کے روضے کی طرف کوئی کنڈ (پشت) نہیں کرتا۔ ہم مغرب کی نماز پڑھنے چلیں گے جب جماعت کھڑی ہو گی تو ہزاروں لوگوں کی کنڈ حضور داتا صاحب کی طرف ہو جائے گی۔ سیدھی بات ہے باؤ جی! جب داتا کے ساتھ صاحب لگ جائے تو کاہے کا داتا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ہم لوگوں نے اولیاء اللہ کو بھی نہیں بخشا اپنی دکانداری چلانے کے لیے کچھ ان کا نام بیچتے ہیں اور کچھ اولیاء اللہ کے اوپر اپنی تنقید کو بیچتے ہیں۔ باؤ جی! نماز ادب سکھاتی ہے۔ ہم نماز پڑھنے کے دوران کسی داتا صاحب کا ادب نہیں کرتے صرف اور صرف اپنے اور حضور داتا صاحب کے اللہ کو سجدہ کر تے ہیں۔‘‘
میں بھولے سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر اس کا جذباتی انداز دیکھ کر خاموش ہو گیا تھا۔ میں کسی فرقے کا پرچار نہیں کر رہا ۔ جو کچھ بھولے سے سنا ایمان داری سے لکھ دیا۔ ہاں! ایک بات بھولے نے کمال کی، کی تھی۔ نماز کے دوران کوئی بھی شخص یہ نہیں سوچتا کہ اس کی پشت عظیم صوفی بزرگ ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری رحمۃ اللہ علیہ المعروف داتا صاحب کی طرف ہو رہی ہے۔ شاید یہی توحید ہے۔ اللہ کے سامنے کوئی داتا نہیں۔ کوئی صاحب نہیں۔ سب کے سب فقیر، منگتے، سوالی، محتاج، عاجز ، بے بس اس کے بندے ہیں۔
اُس دن یکم جولائی بروز جمعرات 2010ء تھا۔ میں نے اور بھولے نے مغرب کی نماز اکٹھے ادا کی۔ اُس کے بعد میں شادباغ لوٹ گیا کیوں کہ مجھے ائیرپورٹ پہنچنا تھا دبئی جانے کے لیے۔ رات ساڑھے بارہ بجے میری دبئی کی فلائیٹ تھی۔
داتا صاحب سے جاتے ہوئے رکشا میں سوار ہونے سے پہلے میں نے مڑ کر دیکھا تو میری نظر خواجہ معین الدین چشتیؒ کے شعر پر جا کر ٹھہری۔۔۔
گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں را رہنما
بورڈنگ کے بعد میں ویٹنگ ہال میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک مشہور ٹی وی چینل یہ خبر دے رہا تھا:
’’یہ آپ دیکھ سکتے ہیں پہلے ایک حملہ آور جس کا میٹل ڈیٹیکٹ ہوا سیکیورٹی اہلکار اور رضاکار نے اسے پکڑنا چاہا تو وہ اندر کی طرف بھاگا۔ اس سے پہلے وہ اسے پکڑتے حملہ آور نے وضوخانے میں پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ یہ دھماکا 10 بج کر 48 منٹ پر ہوا تھا۔ جب لوگ اس دھماکے کے بعد باہر بھاگ رہے تھے تو اسی گیٹ سے ایک اور خود کش حملہ آور اندر داخل ہوا جس کے ہاتھ میں بیگ تھا۔ اس نے دربار کے احاطے میں پہنچ کر ٹھیک 10 بج کر 53 منٹ پر دوسرا دھماکا کر دیا۔ ان دھماکوں میں چالیس افراد شہید اور ایک سو پچھترزخمی ہوئے۔
’’داتا صاحب کے دربار پر دھماکے؟‘‘ میں نے خود سے پوچھا تھا۔
’’ یہ کیا ہو رہا ہے اِس ملک میں؟‘
!!I am deeply shocked too!!
!!It is sad to know!!
!!How sad!!
’’یااللہ ۔۔اس ملک کو دشمنوں سے محفوظ رکھ۔‘‘
’’یہ ملک رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔جس ملک میں مسجدیں، درگاہیں، امام بارگاہیں ہی محفوظ نہ ہوں اُس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘
LCD کے اردگرد جمع لوگ افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ جہاز میں سارے رستے عجیب سی طبیعت رہی۔ دبئی پہنچا اگلے دن دیر تک سوتا رہا پھر وہی دنیا کے دھندے جھمیلے۔ سچی بات ہے کبھی اُن دھماکوں کا خیال ہی نہیں آیا۔ چند ہفتوں بعد لنگر کے نام سے ایک افسانہ لکھنا شروع کیا تھا۔ وہ مکمل نہ ہو سکا پھر سوچا اس کا نام بھولا پھول والا رکھ دوں۔ نام بدل کر بھی کہانی مکمل نہ کر سکا تھا۔ وہ ادھوری کہانی کاغذ کے پنوں کے قبرستان میں کہیں دفن ہو گئی تھی۔
(آج پانچ سال چار مہینے اور چار دن بعد یعنی پانچ نومبر بروز جمعرات 2015ء کو لنگر اور بھولا پھول والا میرے سامنے کاغذ کے سینے پردرج ہیں۔ آج اتنے سالوں بعد میں رات نو بجے کے قریب داتا صاحب پہنچا ہوں۔ اتنے عرصے کے بعد بھی ان دھماکوں کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔ پہلے کی نسبت سیکورٹی بہت زیادہ ہے۔ حفاظتی اقدامات کے پیشِ نظر بہت سارے بیرئیر اور جنگلے لگا دیے گئے ہیں)
میں نے سوچا پہلے سلام کر آتا ہوں اس کے بعد بھولے اور میاں لطفی سے ملوں گا۔ میں تلاش کر رہا تھا کسی عینی شاہد کو جو ان دھماکوں کے وقت وہاں موجود ہو۔ میں حضور داتا صاحب کی درگاہ پر سلام کر کے آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک آواز نے میرے قدم روک لیے۔
ایک صاحب سفید شلوار قمیض میں ملبوس، گلے میں گلاب اور گیندے کے پھولوں کا ہار، بائیں ہاتھ میں بڑی سی تسبیح، ہونٹوں پر میٹھا سا تبسم، آنکھوں میں چمک اور آواز میں ٹھہراؤ داتا صاحب کے مزار کے ایک ستون کے ساتھ بڑے پُرسکون انداز میں ٹیک لگائے ہوئے دو اسٹوڈنٹس کو پنجابی کے اشعار لکھوا رہے تھے۔ میں نے اجازت لی اور میں بھی ان کی مجلس میں بیٹھ گیا، وہ صاحب کافی دیر ان لڑکوں سے بات کرتے رہے۔ اس کے بعد میری باری آئی، میں نے اپنا تعارف کروایا، ان صاحب نے مجھے بتایا اس دن وہ اسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جب دھماکے ہوئے تھے۔ ان کے بقول شہید ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد وشمار کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی اور زخمیوں کی صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔
وہ صاحب مشہور فلم ساز محمد سرور بھٹی تھے جنھوں نے مولا جٹ فلم بنائی تھی۔ انھوں نے کہا:
’’مولا تو مولا ہی ہے۔ ایک انسان مولا جٹ تو ہو سکتا ہے، مگر ایک جٹ کبھی بھی مولا نہیں بن سکتا۔ نوری نت ’’نہیں‘‘ کی لت میں مبتلا تھا، مولا جٹ ماننے والوں کی جگہ پر کھڑا تھا، جو اپنے مولا کی مان لیتا ہے وہ اُسے مولا جٹ بنا دیتا ہے۔ مولا کی نا ماننے والے نور ہوتے ہوئے بھی بے نور ہو جاتے ہیں جیسے نوری نت۔ چوہان صاحب۔۔ مولا جٹ اچھائی کا نام ہے اور نوری نت بُرائی کی علامت۔‘‘
محمد سرور بھٹی کی بات سن کر میرا دل چاہا بھولے سے دوبارہ ملوں۔ میں نے بھٹی صاحب سے اجازت لی اور درگاہ سے نکل آیا۔ تھوڑی دیر بعد میں مزار کے دائیں طرف والے بازار میں تھا اور بھولے کی دکان تلاش کر رہا تھا۔ تھوڑی مشقت کے بعد مجھے بھولے کی دکان مل گئی۔
بھولے کی بجائے ایک تیرہ چودہ سال کا لڑکا دکان پر بیٹھا تھا۔ میں نے سوچا اس کا بیٹا ہوگا۔
’’لنگر والے۔۔لنگر والے۔۔‘‘
دو نوجوان لڑکے تھے۔ انھوں نے ایک بڑا سا تھیلا پکڑا ہوا تھا جس میں سے وہ شاپر بیگ نکال نکال کر تقسیم کر رہے تھے۔ میں نے بھی بڑھ کر ایک شاپر بیگ پکڑ لیا، اس کے اندر چکن بریانی تھی۔ میں نے اپنا شولڈر بیگ ایک طرف رکھا اور کھڑے ہو کر بائیں ہاتھ میں ہتھیلی کے اوپر شاپر بیگ رکھا اور دائیں ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا، میں بریانی کھانے میں مصروف تھا کہ ایک ہاتھ میرے کندھے پر آیا۔
’’چوہان صاحب! لنگر کھا رہے ہیں۔‘‘
میں نے فوراً پلٹ کر دیکھا۔میاں لطفی منہ میں پان ڈالے ہوئے بول رہے تھے۔
’’آپ نے مجھے پہچان لیا اتنے سالوں بعد بھی؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’چوہان صاحب.خ۔۔۔ کون سی صدیوں کی بات ہے۔ پانچ سال چار ماہ اور چار دن ہی ہوئے ہیں۔‘‘
’’آپ یہاں اس وقت؟‘‘ میں نے عجیب سا سوال پوچھ لیا تھا۔ میاں لطفی مسکرائے اور بولے:
’’چوہان صاحب۔۔۔! دوسری گلی میں میرا گھر ہے۔ ہم نے کہاں جانا ہے۔(جینا یہاں، مرنا یہاں، اس کے سوا جانا کہاں) ‘‘
میاں لطفی نے مکیش کا گانا گنگنایا۔ اس کے بعد وہ مجھے بڑی محبت سے اپنے گھر لے گئے۔ انھوں نے مجھے اپنی بیٹھک میں بٹھایا اور خود اندر چلے گئے۔ بیٹھک کی ایک دیوار کے ساتھ کتابوں کی ایک لائبریری تھی جس میں صحاحِ ستہ کی ساری حدیثیں اور بہت سارے اولیاء کرام کی تصانیف موجود تھیں۔ دوسری دیوار کے اوپر بیت اللہ اور گنبدِ خضریٰ کے نیچے بہت سارے اولیاء کرام کے مزارات کی تصویریں فریموں میں سجی ہوئی آویزاں تھیں۔ بیٹھک سے بھینی بھینی خوش بو آرہی تھی۔ گھر تو پرانے عہد کا تھا۔ پھر بھی اچھی طرح سے رکھا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میاں لطفی ٹرے میں دو کپ چائے لے کر بیٹھک میں داخل ہوئے:
’’چوہان صاحب۔۔۔یہ لیں چائے ۔ میں نے خود بنائی ہے اپنے ہاتھوں سے۔‘‘
اس وقت میاں لطفی کے منہ میں پان نہیں تھا۔ وہ کلی کر کے آئے تھے۔ مجھے بھولا یاد آگیا اس نے کہا تھا:
’’نماز کے وقت ان کے منہ میں پان نہیں ہوتا یا پھر چائے پینے کے دوران۔‘‘
میں نے چائے کا گھونٹ لیا۔ وہی ذائقہ ، وہی خوشبو جو پانچ سال پہلے تھی۔
’’آج بھولا نظر نہیں آیا بازار میں؟‘‘ میں نے چائے پینے کے دوران پوچھا۔ میاں لطفی نے میری طرف دیکھا پھر سنجیدگی سے کہنے لگے:
’’آپ چائے ختم کر لیں پھر بتاتا ہوں۔‘‘
میں نے چائے ختم کی اور پرچ کپ میز پر رکھا اور میاں لطفی کی طرف متوجہ ہوا۔ میاں لطفی کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ پرچ اور کپ ان کے ہاتھ میں تھا۔ میں گرم گرم چائے پینے کا عادی ہوں۔ میں نے سوچا شاید میں نے جلدی چائے ختم کر لی ہے۔ میں کافی دیر میاں لطفی کو دیکھتا رہا انھوں نے چائے کا ایک بھی گھونٹ نہیں لیا، مجھے کچھ تشویش سی ہوئی تھی۔
’’میاں صاحب۔۔۔! میاں صاحب.۔۔‘‘
’’جی۔۔ جی۔۔‘‘ انھوں نے بوکھلاہٹ میں جواب دیا۔
’’کہاں کھو گئے ہیں آپ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں کچھ نہیں۔‘‘ انھوں نے پرچ اور کپ میز پر رکھا اور خود واش روم میں چلے گئے۔ میں نے دیکھا کپ چائے سے آدھا بھرا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میاں لطفی واپس آئے تو انھوں نے تولیے سے منہ صاف کیا اور اسے کرسی کی پشت پر ڈال دیا تھا اور بیٹھتے ہوئے بولے:
’’چوہان صاحب.۔۔۔! میں آپ کا چہرہ ساری عمر نہیں بھول سکتا تھا۔ جس دن آپ لنگر کے بارے میں پوچھ رہے تھے اسی رات وضوخانے سے پہلے لنگر خانے میں دھماکا ہوا تھا۔ اس کے بعد اوپر حضور داتا صاحب کے روضے اور مسجد کی سیڑھیوں کے درمیان دوسرا دھماکا ہوا تھا۔ مجھے دھماکوں کے دوسرے دن خیال آیا شاید آپ بھی ان لوگوں کی پلاننگ میں شامل تھے۔ میرا دماغ مجھے یہ کہہ رہا تھا مگر دل نہیں مانتا تھا۔ پہلے بھی میں بازار میں ہی گھومتا رہتا تھا۔ اب صرف نماز کے اوقات میں رکتا ہوں۔ نہیں تو گشت کرتے رہتا ہوں دربار کے چاروں اطراف۔ آج آپ جب درگاہ میں جانے کے لیے لائن میں لگے تھے تو پولیس والے نے آپ سے کہا تھا:
’’آپ یہ بیگ اندر نہیں لے جا سکتے ہیں۔‘‘
آپ نے جواب دیا: ’’اس میں کتابیں اور کچھ کاغذات ہیں۔‘‘
پولیس والا بولا: ’’جو بھی ہے یہ اندر نہیں جا سکتا۔ آپ بیگ کو اس دکان پر جمع کروا دیں۔‘‘
آپ مسکراتے ہوئے فوراً مان گئے پھر آپ نے وہ بیگ رشید کی دکان پر جمع کروا دیا، میں نے ایک لڑکے کی ڈیوٹی لگائی کہ اس بیگ کی اچھی طرح سے تلاشی لے۔ میں آپ کے پیچھے ہی تھا۔ آپ کو خبر نہیں ہوئی پھر آپ نے آنکھیں بند کر کے حضور کو سلام پیش کیا۔ اس کے بعد دعا کی ۔ پھر آپ نے اردگرد کا جائزہ لیا اور محمد سرور بھٹی کے پاس بیٹھ گئے۔ آپ بھٹی صاحب سے اُن دھماکوں کے متعلق پوچھنا شروع ہو گئے۔
میں نے دوسرے آدمی کی ڈیوٹی لگائی کہ آپ پر نظر رکھے۔ خود واپس رشید کی دکان پر گیا جہاں آپ نے اپنا یہ والا بیگ رکھا تھا۔ میں خود اسے دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے اندر بہت سارے کاغذات تھے۔ ایک دو ڈائریاں تھیں اور ایک ناول بلال صاحب بھی تھا۔
میں نے اسے کھولا صفحہ نمبر 51 کھل گیا۔ میں نے پڑھا ایک لائن مجھے بہت اچھی لگی تھی۔
’’اقبال سے بہت بلند اقبال کا اقبال ہے اور اقبال سے بھی بلند بلال کا اقبال ہے۔‘‘
پھر میں نے چند صفحے اور پلٹے تو صفحہ نمبر 102 پر ،لکھا ہوا تھا:
’’بلال کا مطلب ہے عشق۔۔۔ عشق کا مطلب ہے بلال۔‘‘
چوہان صاحب۔۔! سچ کہوں تو آپ کو آپ کے ناول بلال صاحب نے بچا لیا نہیں تو میں پولیس کو فون کرنے لگا تھا۔‘‘
میاں لطفی کی بات سن کر میرے طوطے اڑ گئے تھے۔
’’میں آپ کو سمجھ نہیں پایا آپ کون ہیں؟ اور کیا کرتے ہیں کہیں آپ کسی سیکرٹ ایجنسی۔۔‘‘
’’ نہیں۔۔ نہیں۔۔ میرے بزرگ صدیوں سے یہاں آبادتھے۔ درگاہ کے ساتھ والے بازار کی بیشتر دکانیں میری ہیں۔ میرے بچے شہر کے پوش علاقوں میں شفٹ ہو گئے۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔‘‘ میاں لطفی نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔ پھر کافی دیر خاموش رہے دوبارہ بولے:
’’چوہان صاحب! میں نے دھماکوں سے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ لوگ یہاں بھی دھماکے کر سکتے ہیں۔ اس حادثے کے بعد سے سیکیورٹی بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اور میرے چند ساتھی دربار کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں اور ہماری ہر آنے جانے والے پر نظر ہوتی ہے۔‘‘
میاں لطفی کی آنکھوں میں پہلی بار میں نے نمی دیکھی تھی۔ انھوں نے پان بااکس سے ایک پان نکالا اور منہ میں ڈال لیا۔ اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو سر کے بالوں سے صاف کیا۔
’’میاں صاحب۔۔! میں اجازت چاہوں گا۔‘‘ میں نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
’’ بھولا کہاں ملے گا؟‘‘
میاں لطفی نے گھڑی پر وقت دیکھا۔ پونے گیارہ بجنے والے تھے۔
’’آپ آئیں میرے ساتھ!‘‘
میں میاں لطفی کے پیچھے چل دیا۔ بازار سے گزرتے ہوئے میں نے بہت سارے غریبوں کو کھانا کھاتے دیکھا تھا۔ میرا ایک دوست کہتا ہے:
’’درگاہوں کے اردگرد جرائم پلتا ہے۔‘‘
جرائم پلتا ہوا تو میں نے نہیں دیکھا تھا۔ ابھی تو میں دربار کے گردونواح میں غریبوں کو پلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ میں میاں لطفی کے پیچھے چلتا ہوا دربار اور مسجد کے درمیان واقع صحن میں پہنچ گیا، وہاں دُعا ہو رہی تھی۔ آہیں اور سسکیاں بلند تھیں۔ آنسو نکل رہے تھے۔ داتا صاحب کے ماننے والے عقیدت مند رو رو کر اپنے اور داتا صاحب کے اللہ سے مانگ رہے تھے۔
دعا ختم ہوئی تو لنگر تقسیم ہونا شروع ہو گیا، کہیں قیمے والے نان، کہیں مٹھائی،کہیں ٹافیاں۔ بے شمار چیزیں کھانے کو اور دیکھنے کو ملی تھیں۔ لنگر کے متعلق تو مجھے سارے جواب مل گئے تھے۔ جس طرح ہم لوگ اپنے اپنے گھروں میں کبھی چٹنی سے روٹی کھا لیتے ہیں اور کبھی گھی شکر سے کبھی لسی کی کڑھی سے کام چلایا جاتا ہے اور کبھی بکرے کا گوشت ہمارے دسترخوان پر ہوتا ہے۔
لوگوں کا رش کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔ مجھے بھولا کہیں نظر نہیں آیا۔ میں یہ سوچ رہا تھا وہ بھی دُعا میں ہو گا مگر نہیں ۔۔ نظر نہیں آیا۔ اس سے پہلے کہ میں میاں لطفی سے بھولے کے متعلق پوچھتا۔ میاں لطفی ایک جگہ بیٹھتے ہوئے بولے:
’’چوہان صاحب۔۔! یکم جولائی آج ہی کے دن 2010ء کو دوسرا دھماکا وہاں ہوا تھا۔ تقریباً پونے گیارہ بجے۔ ٹھیک گیارہ بجے میں یہاں پہنچا تھا اور اس جگہ بھولے کا سر پڑا ہوا تھا۔‘‘
میاں لطفی نے اس سفید ماربل پر ہاتھ پھیرا جہاں ان کے بقول بھولے پھول والے کا سر پڑا ہوا تھا۔ وہ گردن جھکائے ہوئے تھے اسی جگہ۔ ان کی آنکھوں سے آنسو گرنا شروع ہو گئے۔
’’چوہان صاحب۔۔! مجھے صرف بھولے کا سر ملا تھا، دھڑ کا پتا نہیں۔ تقریباً پونے گیارہ بجے سینکڑوں دوسرے شہداء کے ساتھ ساتھ بھولے کو بھی شہادت نصیب ہوئی تھی۔
تقریباً پونے گیارہ بجے۔‘‘

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply