• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • چھُوت چھات، فرقہ پرستی اور بھگت سنگھ ۔۔۔۔۔ابھے کمار

چھُوت چھات، فرقہ پرستی اور بھگت سنگھ ۔۔۔۔۔ابھے کمار

تاریخ تھی 23مارچ 1931 اور مقام تھا لاہور جیل۔اس دن 23سال کے ایک نوجوان کو پھانسی دے کر برطانوی حکومت اور ان کے دیسی ایجنٹوں نے سوچا تھا کہ ان کے استحصالی نظام کے خلاف اب کوئی بھی علم بغاوت بلند کرنے کی جرأت نہیں کر پائے گا۔ مگر اب تک نہ تو ظلم کے خلاف سر اور ہاتھ اٹھنے بند ہوئے ہیں اور نہ ہی پھانسی کے خونی تختے نے اس انقلابی نوجوان کو ہم سے دور ہی کر یا ہے۔

بھگت سنگھ آج بھی زندہ ہیں۔ ایک سو بارہ سال پہلے وہ لائل  پور کے بنگا گاؤں (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے، مگر ان کے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے آج بھی گونجتے ہیں۔ ظلم، زیادتی، استحصال اور غیر برابری کے خلاف لڑنے میں بھگت سنگھ کے افکار ونظریات کل کی طرح آج بھی اتنے ہی کارگر ہیں کیوں کہ انسان کے ذریعے، انسانی استحصال کا یہ نظام ابھی تک ختم بھی تو نہیں ہوا ہے۔

بھگت سنگھ کے خوابوں کے ہندستان میں کم از کم دو چیزوں کی جگہ نہیں تھی ۔ پہلی تھی چھُوت چھات اور ذات پات پر مبنی سماج۔وہ یہ چاہتے تھے کہ ذات پات کے نظام سے بھارت کو نجات ملے اور غیر انسانی سلوک جھیل رہے اچھوتوں (دلتوں) کے مسائل کا خاتمہ ہو۔ دوسری چیز جو بھگت سنگھ کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی وہ تھی مذہب کے نام پر خون خرابہ اور مذہب کی بنیاد پر گول بندی۔ یہ بے حد ہی افسوسناک بات ہے کہ شہید اعظم بھگت سنگھ کے مشن کو پورا نہیں کیا گیا ہے۔اگر کہا جائے کہ ہمارے زیادہ تر لیڈران ان کی  بتائی  ہوئے راہ سے منحرف ہو گئے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔آج تک ہندستان بھی ذات پات اور مذہبی فرقہ واریت کی کشیدگی سے نجات نہیں پا سکا ہے۔

چھوٹی سی عمر سے ہی بھگت سنگھ کو پڑھنے لکھنے کا کافی شوق تھا۔جب سوہن سنگھ جوش سوشلسٹ نظریے پر مبنی جریدہ ’’کرتی‘‘ کو مرتب کرتے تھے، تب بھگت سنگھ اس کے ادارتی صفحات کے مضامین لکھا کرتے تھے۔ 1928 میں بھگت سنگھ نے ’’ودروہی ‘‘(باغی) نام سے اچھوتوں کے مسائل سے متعلق ایک مضمون اسی جریدہ میں لکھا ۔ ہندستان میں چل رہے اونچ نیچ، چھوت ا چھوت کے مسائل سے وہ غمگین اور شرمسار تھے۔ ان کے لفظوں میں ’’کتا ہماری گود میں بیٹھ سکتا ہے۔ ہمارے باورچی خانے میں اکیلا گھومتا پھرتا ہے لیکن ایک انسان (دلت) ہم سے ٹکرا جائے تو بس دھرم ناپاک ہو جاتا ہے ۔۔۔ جانوروں کی ہم پوجا کر سکتے ہیں لیکن انسان کو پاس نہیں بٹھا سکتے!‘‘ (بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے دستاویز، راج کمل، دلی، 2003، ص: 226-227)

بھگت سنگھ بے چین تھے کہ ہندستان کا ہر پانچواں آدمی، جو دلت ہے، غیر انسانی سلوک کا شکار ہے۔ اگر دلتوں نے کنویں سے پانی نکال لیا تو کنواں بھی ناپاک ہو جاتا ہے۔ ان کے بدن کو کوئی چھو بھی لے تو اس کا دھرم ناپاک ہوجاتا ہے اور یہاں تک کہ دیوتا بھی ان کے مندر میں داخل ہونے پر ناراض ہوجاتے ہیں۔

بھگت سنگھ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ کس طرح اچھوت پرتھا بیسویں صدی میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے اور لوگوں کا یقین اس طرح کے ظالمانہ نظام میں کیسے ہوسکتا ہے۔ آزادی کے بعد چھوا چھوت کو قانوناً کالعدم کردیا گیا مگر آج بھی چھوا چھوت پر مبنی تعصب کھلے طور پر یا ڈھکے چھپے برتا جاتا ہے۔ حالیہ انڈین ہیومن ڈیویلپمنٹ سروے کے مطابق، ہر چار میں سے ایک ہندستانی چھوا چھوت میں یقین رکھتا ہے اور ملک کا کوئی دھرم، ذات، قبیلہ یا علاقہ اس سماجی برائی سے محفوظ نہیں ہے۔

ذات پات اور چھوا چھوت کی بات بھگت سنگھ کے علاوہ اس زمانے کے دوسرے بڑے سیاسی رہنماؤں اور مذہبی مصلحوں نے بھی کی تھی۔ گاندھی اور مدن ہومن مالویہ جیسے بڑے کانگریسی لیڈراچھوت مسئلے کا حل اس لیے چاہتے تھے کیوں کہ یہ ان کی سیاسی مجبوری بن گئی تھی۔ جب تعداد کی بنیاد پر انگریزی حکومت نے اپنی پالیسی بنانی شروع کی تو ہر قوم کو اپنی قوم کی تعداد اور طاقت بڑھانے کی فکر ہوئی۔ اسی پس منظر میں دلتوں کو اپنی قوم میں لانے اور ان کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کی  ودڑ  لگ گئی اور اس مسابقے میں کئی بار ہنگامے اور تشدد بھی رونما ہوئے۔

مگر ان سب سے دور بھگت سنگھ نے ایک سچے سماجی ناقد کے بطور قومی رہنماؤں کو انتباہ کیا کہ اگر دلتوں کے ساتھ انھوں نے اچھا سلوک نہیں کیا تو ان کو انگریزی حکومت سے سیاسی حقوق مانگنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ’’ جب تم ‘‘ ، بھگت سنگھ نے کہا ’’ایک انسان کو پینے کے لیے پانی دینے سے بھی انکار کرتے ہو، جب تم انھیں اسکول میں بھی پڑھنے نہیں دیتے ہو تو تمھیں کیا حق ہے کہ اپنے لیے مزید حقوق کا مطالبہ کرو؟‘‘ (ص: 226)

جیسا کہ بھگت سنگھ کی تحریر سے ظاہر ہے کہ وہ سیاسی حقوق کی حصولیابی تک سماجی حقوق ٹھنڈے بستے میں نہیں رکھنا چاہتے تھے، کانگریس کے اعلیٰ ذات کے رہنما سماجی اصلاح کے ایجنڈے کو قطعی فروغ نہیں دینا چاہتے تھے کیوں کہ اس سے ان کے مفاد پر سیدھا حملہ ہوتا تھا۔ ان کی چالاکی اس میں تھی کہ سیاسی لڑائی کے شور کو تیز کیا جائے اور قومیت کے  جذبات کو بھڑکایا جائے تاکہ دلتوں اور ذات کے سوال خود بخود غائب ہوجائیں۔ مگر بھگت سنگھ ایک سچے انقلابی ہونے کے ناطے برطانوی استعماری طاقت کی تنقید کے ساتھ ساتھ سماجی تعصب، غیر مساوی نظام اور بھید بھاؤ پر مبنی ہندستانی سماج پر ایک ساتھ چوٹ کرتے تھے۔

اچھوت مسئلے کا حل کیا تھا؟ بھگت سنگھ نے اس سوال پر کافی آگے تک سوچا۔ ان کے مطابق دلت فرقے اصل میں پرولتاریہ (Proletariat) ہیں اور انھیں ضرورت ہے کہ وہ متحد ہوں اور سیاسی اور معاشی آزادی کے لیے یلغار چھیڑ دیں۔ ’’تم اصلی میں پرولتاریہ ہو.۔۔۔۔متحد ہوجاؤ‘‘، بھگت سنگھ نے کہا، ’’تمہارا کچھ نقصان نہیں ہوگا، بس غلامی کی زنجیریں کٹ جائیں گی۔ اٹھو، اور موجودہ نظام کے خلاف بغاوت کھڑی کردو۔ دھیرے دھیرے ہونے والی اصلاح سے کچھ نہیں بن سکے گا۔ سماجی تحریک سے انقلاب کردو اور سیاسی اور معاشی انقلاب کے لیے کمر کس لو۔‘‘ (ص: 229)

آزاد ہندستان میں دلتوں کے لیے نوکریوں، تعلیمی اداروں اور پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ریزرویشن دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک بڑی تعداد میں دلت پہلی بار اسکول، کالج، یونیورسٹی اور سرکاری محکموں میں آئے ہیں اور سیاسی عہدوں پر قابض ہوئے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی حالت ابھی بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے اعداد و شمار اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ غریبی، تعصب اور چھوا چھوت جیسے مسائل سے انھیں ابھی تک نجات نہیں مل سکی ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ واقع ہورہے ہجومی تشدد نے ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔

کچھ اسی طرح کی تکلیف بھگت سنگھ کو فرقہ وارانہ تشدد اور دنگوں سے بھی تھی۔ جون 1928میں بھگت سنگھ نے فرقہ وارانہ دنگے اور اس کے علاج کے عنوان سے ایک اور مضمون ’’کرتی‘‘ میں شائع کیا۔ یہ مضمون لاہور دنگے کے فوراً بعد لکھا گیا تھا جس میں ہندو، مسلمان اور سکھ سبھی تشدد کی آگ میں جلے تھے۔’’ہندستان کی حالت‘‘ ، بھگت سنگھ نے کہا، ’’اس وقت بڑی خراب ہے۔ ایک دھرم کے ماننے والے دوسرے دھرم کے ماننے والوں کے جانی دشمن ہیں۔اگر اس بات کا ابھی یقین نہ ہو تو لاہور کے تازہ دنگے دیکھ لیں… ایسی حالت میں ہندستان کا مستقبل بہت تاریک نظر آتا ہے۔ دھرموں نے ہندستان کا بیڑا غرق کیا ہے اور پتہ نہیں کہ یہ مذہبی دنگے بھارت کا کب پیچھا چھوڑیں گے۔‘‘ (ص: 228)

جس طرح آج کے دور میں سیاسی مفاد کے لیے سیاسی رہنما اور میڈیا فرقہ وارانہ آگ میں تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں بھگت سنگھ کے زمانے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا تھا اور وہ لیڈران اور میڈیاکے جذباتی ہتھکنڈوں کے استعمال سے بہت نالاں تھے۔اس پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’جہاں تک دیکھا گیا ہے، ان دنگوں کے پیچھے فرقہ پرست رہنماؤں اور اخباروں کا ہاتھ ہے۔‘‘ (ص: 218)

دنگوں کا کیا علاج تھا؟ بھگت سنگھ، جو اشتراکی نظریے کے حامل تھے اس کا علاج معاشی پہلوؤں میں تلاش کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مذہب اور سیاست کو الگ رکھا جائے اور لوگوں کے بیچ طبقاتی شعور (Class Consciousness) پیدا کیا جائے تو مذہبی لڑائی ختم ہوجائے گی۔ ’’لوگوں کو آپس میں لڑنے سے روکنے کے لیے طبقاتی شعور کی ضرورت ہے۔ غریب، محنت کشوں اور کسانوں کو صاف طور سے سمجھادینا چاہیے کہ تمہارا اصلی دشمن سرمایہ ہے۔ اس لیے تمھیں اس کے ہتھکنڈوں سے بچ کر رہنا چاہیے اور ان کے ہتھے نہیں چڑھنا چاہیے۔ دنیا کے تمام غریبوں کے، چاہے وہ کسی بھی ذات، رنگ، مذہب کے ہوں ،حقوق ایک ہی ہیں۔ تمہاری لڑائی اسی میں ہے کہ تم مذہب، رنگ، نسل، قومیت و ملک کی تفریق مٹا کر ایک ہوجاؤ اور حکومت کی طاقت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرو۔ ان کوششوں سے تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوگا، اس سے کسی دن تمہاری زنجیریں کٹ جائیں گی اور تمہیں معاشی آزادی ملے گی۔‘‘ (ص:220)

Advertisements
julia rana solicitors

بھگت سنگھ کا یقین کسی مذہب میں نہیں تھا حالانکہ ان کی پیدائش ایک کسان سکھ پریوار میں ہوئی تھی اور ان کے والد سردار کشن سنگھ آریہ سماج کی تحریک اصلاح سے منسلک تھے۔ اس لیے انھوں نے فرقہ واریت کی جڑ کو معاشی پہلو میں تلاش کی جس پر ایک لمبی بحث ہوسکتی ہے جو اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے مگر اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ شہید اعظم کا نظریہ اور ان کی فکر آج بھی اسی طرح معنویت رکھتی ہے جیسا کہ ان کے زمانے میں تھی۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply