یوم پاکستان ثقافت اور خطرے میں پڑا امن۔۔۔۔ وقار اسلم

آج یوم ِ پاکستان   جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے گا پاکستان کی عوام  رب باری تعالیٰ کا شکر بجا لائے گی کہ  اس نے ” پا کستان “کا ذمہ دار شہری بنایا اور آزادی کے ساتھ جینے کا استحقاق بخشا اور اس نعمت سے سرفراز کیا۔
قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ کا یہ حسین قول کہ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام اپنی روحانی،ثقافتی،معاشی،معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اپنے آئیڈیلز کوبروئے کار لا کر زندگی گزاریں۔ظاہر ہے کہ ایک ہندواکثریتی ریاست اور ہندو غلبے میں اس مقصد کا حصول ممکن نہیں تھا” اس لئے پاکستان میں تمام مذاہب کو حقوق میسر ہیں اور یہ بھی اس دن کو اپنے وطن کا دن سمجھ کر مناتے ہیں اور اس نے جو ان کو دیا ہے وہ اس کی کسی صورت نا شکری نہیں کرتے۔یوم پاکستا ن کے دن ہمیں تمام اختلافات مٹا کر دشمن طاقتوں کو بھرپور جواب دینا چاہیے کہ ہمارا وجود اتصال سے مزین اور سرشار ہے۔

جنگ اورانسان کا تعلق دائمی ہے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم کس قدر ترقی یافتہ ہوجائیں یا ٹیکنالوجی اپنی آخری حدوں کو چھولے۔اپنی بقا کیلئے،طاقت کے حصول کیلئے،ہابیل قابیل اور غاروں میں رہنے والوں کی طرح ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے سے باز نہیں آسکتے،یہ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔رواں صدی کے آغاز میں دوبڑی عالمی جنگیں دیکھنے کے بعد نئی نسل کیلئے ناگزیر ہے کہ وہ بھی جنگ دیکھے گی۔لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ کب ایسا ہوجائے۔ آنے والے چند سالوں میں عین ممکن ہے کہ ہم بھی اپنی آنکھوں سے جنگ دیکھ لیں۔ہوسکتا ہے وہ کوئی علاقائی جنگ ہویا پھر تمام  اقوامِ عالم پر اس کا اثر پڑے۔شام میں جو صورتحال چل رہی ہے  وہ کسی بڑی جنگ سے کم نہیں لیکن اس کے علاوہ بھی مسلسل چلتے چند تنازعات کتنے ہولناک ہوسکتے ہیں،یہ کوئی نہیں جانتا۔

پاکستان اوربھارت دویسے ہمسایہ ممالک ہیں جن کے آپسی تعلقات بظاہر اچھے بھی نظر آرہے ہوں تب بھی کشیدگی سے انکار کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اب تو سوہنے پر سہاگہ بھارت نے  پاکستان پر میزائل باندھ دئیے تھے جس کے بعد پاکستان نے ان کو بڑا جواب دیا اوران پر ان کی سوچ سے زیادہnukes باندھ کر اسے جواب دیا ۔واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان متعدد تنازعات بھی موجود ہیں اور یہ ممالک آپس میں کئی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔اگر خدانخواستہ کبھی دونوں مالک کے مابین ایٹمی جنگ ہوئی تو اس سے نہ صرف خطے کا امن تبا ہ ہوجائے گابلکہ  پوری دنیا   اس کے اثرات سے متاثر ہوگی۔اس حوالے سے انٹرنیشنل فیز یشنز فارد اپر یوینشن آف نیو کلیئر وار‘نامی ادارے نے  ایک رپورٹ شائع کی ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ جنگ علاقے تک بھی محدود رہی تب بھی اس کے عالمگیر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اس کی وجہ رپورٹ میں  یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح کی جنگ دنیا کے ماحول پر بہت بری طرح اثرانداز ہوگی اورچین،امریکا اوردیگر ملکوں میں خوراک کی پیداوار بھی بہت کم ہوجائے گی سب کچھ تباہ  و برباد ہوکر رہ جائے گا جس کا ادراک رکھتے ہوئے ممالک اس مخمصے میں کود گئے اور امن رکھ کر مذاکرات کا عندیہ دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چین میں ثقافتی انقلاب کا دور1966ء سے لے کر 1976ء تک کے اس عرصے کو کہتے ہیں جس کا آغاز اس وقت کے رہنما ماؤ زے تنگ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لیے کیا تھا۔ثقافتی انقلاب کے آغاز سے قبل ماؤزے تنگ کی،آگے کی طرف عظیم چھلانگ‘کی پالیسی کے تباہ کن اثرات کے باعث کئی مرتبہ قحط دیکھنے میں آئے تھے اورلاتعداد شہریوں کو ایسے المیوں سے گزرنا پڑ   سکتا تھا کہ پورے کا پورا چینی معاشرہ   بدنظمی اورانتشار کا شکا ہوگیا تھا۔
اس دور میں’’ریڈ گارڈ‘‘میں شامل نوجوانوں نے اپنے بڑوں،پارٹی عہدیداروں،دانشوروں،ہمسایوں اوررشتہ داروں تک کا اس طرح استحصال کیا تھا کہ انہیں کھینچ کھینچ کر ان اجلاسوں میں لے جایا جاتا تھا۔۔اس کے علاوہ لوگوں کے گھروں پر حملے بھی کیے جاتے تھے اور بہت سے متاثرین تو خودکشی پر بھی مجبور ہوگئے تھے۔
ثقافتی انقلاب کے دور میں جن افراد کو نشانہ بنایا گیا،ان میں سے بہت سے جیلوں میں ڈال دیے گئے یا ہلاک کردیے گئے۔اس بارے میں چین میں ابھی تک کوئی سرکاری اعدادو شمار میسر نہیں ہیں۔ایک مغربی مؤرخ کا اندازہ ہے کہ اس دوران صرف1967ء میں  تقریباً پندر  لاکھ  لوگ مارے گئے۔لاکھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا اوران کی تذلیل کی گئی۔جس کے نتیجے میں سماجی،اقتصادی اورسیاسی بے چینی نے جنم لیا۔چین کی تاریخ بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ماؤزے آٹھ ملین لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد اقتدار میں آیا تھا۔چند دہائیاں قبل باکسر بغاوت میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں۔اس سے بھی پہلے تائپنگ بغاوت میں بھی بیس سے ستر لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔
اس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے چین میں ایک نیا ثقافتی انقلاب ناممکن نہیں ہے۔چین میں پہلے ہی روزانہ کی بنیاد پر پانچ سو سے زائد احتجاج ہوتے ہیں۔ہر سال لگ بھگ ایک لاکھ فسادات پھوٹ  پڑتے ہیں۔رہنما بدعنوان ہیں۔نوجوان ایک نئی بغاوت کے متعلق سوچتے ہیں۔اگر آئندہ مالی بحران اس کے معیار زندگی کونیچے لے آیا تو دنیا کو خون ریزی کی ایک اور لہر دیکھنے کو ملے گی۔ پاکستان کو ابھی بہت سنہری ادوار دیکھنے ہیں اگر ہم اس میں ثقافتی انقلاب کی بات کریں تو وہ اچانک نہیں آجایا کرتا رہی بات چین کی تو وہ وجود میں تو پاکستان سے چھوٹا ہے لیکن انقلاب کے لئے لیڈران کو اتنا نڈر ہونا چاہیے کہ سب کچھ راہ راست پر لے آئیں جس کے لئے پاکستان ارتقائی باب میں داخل ہونے کے لئے   تیار ی میں ہے ہمارے معاشرے کو بہت سیکھنے کی ضرورت ہے عدم برداشت کی بھینٹ چڑھنے والوں کی آواز بننے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply