رینا گرانڈے میکسیکو میں پیدا ہوئیں اور امریکا میں ابتدائی تعلیم حاصل کرتی ہوئی یونیورسٹی تک پہنچ گئیں۔ خداداد تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آج وہ ایک ایوارڈ یافتہ ناول نگار اور مصنفہ کے طور پر مشہور ہو چکی ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے لیے انہوں نے حال ہی میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں مادری زبان کے حوالے سے بہت دلچسپ باتیں لکھی گئی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ 2019 کی آسکر ایوارڈ کے لیے منعقد کی گئی تقریب میں پہلی مرتبہ اپنی مادری زبان اسپینش (ہسپانوی) کے الفاظ سن کر وہ بے حد جذباتی ہوگئی تھیں۔ جب اسٹیج سے یہ الفاظ ادا کیے جا رہے تھے، ’’ اب ہم آسکر میں اسپینش میں بات کر سکتے ہیں، ہمارے لیے نئے راستے کھل گئے ہیں اور اب ہم کہیں نہیں جائیں گے‘‘ تو یہ الفاظ ان کو کئی دہائیاں پیچھے لے گئے جب امریکی اسکول میں داخلے کے بعد پہلے ہی دن انگریزی نہ بولنے کی وجہ سے انہیں کمرے کے ایک کونے میں دھکیل دیا گیا تھا۔ تب ان کے لاشعور میں یہ بیٹھ گیا تھا کہ آگے بڑھنا ہے تو انگریزی سیکھنا ہوگی۔
دنیا کی تمام علاقائی اور مادری زبانوں کا ایک ہی المیہ ہے، ان زبانوں کو بولنے والے اپنی زبان دانی کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ دکھ دہ بات یہ ہے کہ یہ احساس اجاگر کرنے میں ان زبانوں کو بولنے والوں کا کردار کسی صورت کم نہیں ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب آپ اپنی سماجی، معاشی، تعلیمی، کاروباری اور دیگر ضرورتوں کے تحت ایک نئی زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں ، تو لاشعوری طور پر اپنی تمام لسانی صلاحیتیں اسی زبان کو سمجھنے اور سیکھنے پر لگا دیتے ہیں۔ اور آپ کے لاشعور میں یہ بات جنم لے لیتی ہے کہ جو زبان آپ نے بچپن سے سیکھ رکھی ہے، وہ آپ کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور پھر اسی لاشعوری عمل کے نتیجے میں آپ اپنی مادری زبان کو حقارت سے دیکھنے لگتے ہیں۔
مادری زبان پر دوسری زبانوں کے اثرات پر تحقیق کے حوالے سے ایک بہت ہی معتبر نام کینیڈا کے پروفیسر جم کیومنز کا ہے۔ ان کے دو کارنامے اس حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک جسے بیسک انٹر پرسنل کمیونیکیکٹِو اِسکل کہتے ہیں، اس کا تعلق انسان کی مادری زبان سے ہٹ کر دوسری زبانیں سیکھنے کی صلاحیت سے ہے۔ جب کہ دوسرا کاگنیٹیو اکیڈیمک لینگیویج پرافیشینسی ہے۔ یہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایک انسان جس نے اپنی مادری زبان میں علمی سطح کی دسترس حاصل کر رکھی ہو، وہ دوسری کسی بھی زبان میں علمی سطح کی مہارت بہت جلد حاصل کر لیتا ہے، بہ نسبت دوسرے انسانوں کے جن کی مادری زبان کی مہارت اس سطح کی نہ ہو۔
مادری زبان کی قیمت پر دوسری زبانوں پر عبور حاصل کرنا ایک خطرناک عمل ہے جو کہ انسان کی صلاحیتوں کی قدرتی نشوونما پر اثرانداز ہوتا ہے۔ کیوں کہ انسان جس زبان میں سب سے زیادہ آسانی سے بات کر سکتا ہے، وہ اس کی مادری زبان ہی ہوتی ہے۔ یہ بات روز مرہ کی بول چال اور معاملات سے لے کر سیاسیات، سماجیات، اقتصادیات اور ادبیات جیسے وسیع شعبوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ایک مشکل ترین بات ہو یا حساس نوعیت کی جذباتی کیفیت ، جس خوبصورتی سے آپ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار مادری زبان میں کر سکتے ہیں، اس کا مقابلہ شعوری کوشش اور مشقت سے سیکھی گئی زبانوں میں اظہار سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔
رینا گرانڈے نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ مادری زبان کی قیمت پر نئی زبانیں سیکھنے کا عمل انسان کو خود سے الگ کر دیتا ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے سیکنڈ لینگویج یا دوسری زبان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے،’’ سیکنڈ لینگویج کا مطلب ہے گھریلو زبان کے ساتھ ایک اور اضافی زبان‘‘۔ مذکورہ بالا مصنفہ کا اپنی مادری زبان اسپینیش کے ساتھ جذباتی لگاؤ کا اندازہ اس مضمون کے عنوان سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے؛ ’’ مادری زبان سے علیحدگی یا ماں سے علیحدگی‘‘۔ شائد اسی لیے ہمارے ہاں مادری زبان کو ماں بولی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ مضمون صرف اسپینش زبان کا المیہ بیان نہیں کرتا بلکہ دنیا کی تمام مادری اور علاقائی زبانوں کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔ حالاں کہ اسپینیش مغرب کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے ، مگر یہاں اس کا مقابلہ انگریزی سے ہے۔ اس سے ایک اور اہم بات بھی سامنے آتی ہے کہ چھوٹی اور علاقائی زبانوں کے بولنے والوں کو ترقی کی راہیں اپنی کم مائیگی کے احساس میں سے ہی نکلتی کیوں نظر آتی ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ترقی کی جن راہوں کو ہم دوسری کی تقلید میں کھوجتے ہیں، انہیں اپنی ہاں کی زرخیز مٹی میں سے ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔
وہ تمام علمی، ادبی، سائینسی، تحقیقی اور تخلیقی عمل جو دوسری زبانوں نے قید کر رکھا ہے، وہ انہی زبانوں میں دنیا میں معرضِ وجود میں نہیں آیا بلکہ اسے صفحہ ہستی پہ منتقل کرنے والے انسانی ذہن ہی تھے۔ جب کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ انسانی ذہن کی اپنی کوئی زبان نہیں ہوتی بلکہ یہ اسی زبان میں سہولت محسوس کرتا ہے جو ذہن رکھنے والے انسان کی ہوتی ہے۔
چند روز قبل راولاکوٹ کے مؤقر اور مشہور روزنامہ “دھرتی” میں پروفیسر ڈاکٹر ممتاز صادق صاحب نے بچوں کو پہاڑی زبان بولنے پر ڈانٹتی، کان مروڑتی، تھپڑمارتی ماؤں کا ذکر ہلکے پھلکے انداز میں کیا ہے۔ جب کہ ہمیں ان بچوں کی نفسیاتی، ہیجانی اور ذہنی کشمکش کا اندازہ بھی کرنا چاہیے جو اس قسم کے رویوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ نہ صرف پہاڑی زبان بولنے والے بلکہ دنیا کی تمام علاقائی مادری زبانیں بولنے والے بچے ہمہ گیر قسم کے تخریبی اور تعزیری رویوں کا شکار ہیں۔ مغربی ممالک میں آباد تارکینِ وطن کے بچے اس سے کئی گنا بڑی ذہنی کوفت واذیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے والدین اپنے آبائی ممالک اور معاشروں سے جڑی دیگر کئی حقیقتوں کی طرح اپنے بچوں کی لسانی صلاحیتوں کو بھی اپنی ہی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہیں ان بچوں کی ذہنی نشوونما سے زیادہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ وہ ہم عصروں سے کیسے آگے نکل سکتے ہیں۔
جموں وکشمیر کے علاوہ پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں جہاں پہاڑی یا اس جیسی دوسری علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ، وہاں کے معاشرے میں انگریزی اور اردو کو تعلیمی اور تہذیبی ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے ، جس کا براہِ راست اثر معصوم ذہنوں پر پڑتا ہے۔ کم سنی میں نت نئے مضامین سیکھنے کا عمل بذاتِ خود کسی پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے سے کم نہیں ہوتا جب کہ انہیں زبان کے مخمصے میں بھی ڈال دیا جاتا ہے۔گو کہ ان علاقوں اور آبادیوں نے معاشرتی طور پر بے پناہ ترقی کر لی ہے، مگر چھوٹی اور کم ترقی یافتہ زبانوں کے حوالے سے ہمارا رویہ آج بھی مضحکہ خیز اور تنگ نظری کا ہے ۔اور یہ صر ف پہاڑی معاشرے تک ہی معددد نہیں بلکہ انتہائی ترقی یافتہ قومیں بھی اس قسم کے رویوں کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔
انسانی ترقی کا براہِ راست اثر علمی اور سائنسی ترقی سے ہے۔ ہم اس منزل پر پہنچنے کے لیے زبانوں پر عبور اور دسترس تو حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر کسی بھی نوعیت کی علمی، ادبی یا سائنسی ترقی کو اپنی سادہ اور عام فہم زبان میں ظہور پذیر ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ حتٰی کہ پہلے سے موجود علمی ، ثقافتی، تاریخی اور لسانی ذخیرے کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ جن زبانوں کو ہم اپنی ترقی اور کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں ، ان کے پاس ہماری مادری ، تہذیبی اور ذہنی ترقی کا علم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ برطانیہ جیسے روشن خیال معاشرے میں بھی لسانیت اور زبان دانی کے حوالے سے مخصوص رویے پائے جاتے ہیں۔ ویلز کی حکومت کی سرتوڑ کوشش کے باوجود قدیم ترین زبان ویلش کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ شائد اسی لیے نصیب نہیں ہو پا رہا کہ وہاں کے باشندے انگریزی کو ہی ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
اسی طرح پاکستانی تارکینِ وطن اپنے بچوں کو اردو بولنے پر صرف اس لیے اکساتے ہیں کہ وہ ان کی سماجی ضرورت ہے، اگرچہ یہ بچے انگریزی فر فر بولتے ہیں مگر اردو یا دیگر ایشیائی زبانوں کو سیکھنے کے لیے ان کے والدین جو توجیہہ پیش کرتے ہیں، وہ ان بچوں کی نفسیاتی اور ہیجانی ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ یہ بات واپس گھوم پھر کر وہیں جاتی ہے کہ انسان کو مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے کسی مصنوعی لسانی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ الفاظ کافی ہیں ، جو وہ اپنی توتلی زبان میں سیکھتا ہے۔ کیوں کہ زندگی کے تمام پہلے احساسات ، تجربات، جذبات اور حسیات کا اظہار وہ بہت پہلے ایسی زبان میں کر چکا ہوتا ہے جو ماں کی گود جیسی نرم اور گداز ہوتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں