چار دہائیوں میں دو اذانیں اور ان کے اثرات۔۔۔۔ نیّر نیاز خان

1979 میں سوویت یونین کی افغانستان میں موجودگی کے خلاف جب مغربی ممالک نے مجاہدین کو مسلح کرنا شروع کیا  تو سعودی عرب کی حمایت سے پاکستان کو افغان جہاد کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ضیاء الحق کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک مسلح شکل اختیار کر رہی تھی اور نو مولود مارشل لاء پاکستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش میں تھا۔ ایسے میں مغربی ممالک کی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور موقع  نہ تھا جس سے اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پڑوسی ملک میں سرد جنگ میں مغرب کی پراکسی وار کو مقدس جہاد کے غلاف میں لپیٹ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو سوشلزم اور سوویت یونین کے خلاف اکٹھا کیا جائے۔

چنانچہ پاکستان کی فوجی حکومت نے اس پراکسی وار کے مضمرات کا جائزہ لیے بغیر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ جنگی ترانوں اور کلاشنکوف کی تڑتڑاہٹ میں بھٹو کے عدالتی قتل اور جیالوں کی تحریک محض ایک ثانوی حیثیت اختیار کر گئی۔ اور مارشلائی حکومت کے سربراہ نے اپنے آپ کو امیر المومنین کے روپ میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ جہاد میں نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے مدرسوں کا خصوصی انتظام کیا گیا اور ساتھ ہی سرکاری اداروں میں نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے گئے کہ عام مسلمان اپنے جمہوری حقوق کے بجائے افغان جہاد کو فوقیت دے۔ اس مقصد کے لیے مذہبی سیاسی جماعتوں کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ نتیجے کے طور پر گاوں کے ایک عام مولوی سے لے کر بڑے بڑے مذہبی سکالرز تک کی یہ ذمہ داری لگا دی گئی کہ سوویت یونین کو اسلام دشمن اور سوشلزم کو کفر ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔

ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے اکثر جیالے کابل کو اپنا مرکز بنائے ہوئے تھے۔ انہی لوگوں میں بائیں بازو کے مشہور زمانہ طالب علم رہنما اور مصنف راجہ انور جو حفیظ اللہ امین کے دور صدارت میں شاہی مہمان تھے۔ لیکن افغان کامریڈوں میں پرچمی اور خلقی تقسیم کی وجہ سے جب ببرک کارمل نے حفیظ اللہ امین کا تختہ الٹا تو راجہ انور سمیت پاکستان کے بائیں بازو کے اکثر سیاسی کارکنوں کا مسکن بدنام زمانہ پل چرخی جیل ٹھہرا۔ راجہ انور اپنی کتاب “چلتے ہو تو کابل چلیے “میں لکھتے ہیں کہ اسی کی دہائی میں جب کابل میں منافع بخش صنعتوں اور کاروبار کو قومیانے کا سلسلہ شروع ہوا تو کابل کے تاجر پیشہ عناصر سوشلسٹ حکومت کے خلاف ہو گئے۔ کابل میں اس وقت تاجر پیشہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سکھوں اور ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ مسلمان تاجروں نے اپنے کاروبار کو قومیانے کے عمل کے خلاف گھروں کی چھتوں پر اذانیں دے کر سوشلزم سے نفرت کرنے کا پیغام دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کابل کے ہندو اور سکھ تاجروں نے بھی اپنے ذاتی کاروباری مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے گھروں کی چھتوں پر اذانیں دینا شروع کر دیں۔ بقول راجہ انور کے انہوں نے جب مسلمان علما سے اس بارے میں استفسار کیا کہ کیا وہ لوگ جو کلمہ گو نہیں ہیں وہ اذان دے سکتے ہیں؟ تو جواب ملا کہ اس کا مطلب صرف سوویت یونین اور سوشلزم کو کفر ثابت کرنا ہے۔ لہذا اس عمل میں جو بھی حصہ لے اسے جہاد کی ایک کڑی تصور کیا جائے گا۔

غیر مسلموں کی طرف سے دی جانیوالی اسی کی دہائی کی کابل کی ان اذانوں کا بنیادی مقصد ذاتی سرمائے کی حفاظت تھا۔ لیکن اس مغربی جہادی فلسفے کی سزا مسلمان پوری دنیا میں انہی مغربی ممالک کے ہاتھوں گزشتہ دو دہائیوں سے کاٹ رہے ہیں۔ نو گیارہ کے بعد شدت پسندی کے خلاف جنگ کا اصل نشانہ تو اسی کی دہائی میں تیار کی گئی جہادی لہر کو روکنا تھا۔ لیکن اس مہم کے نتیجے میں نفرت۔آگ اور خون کی بھینٹ دنیا بھر کا عام امن پسند مسلمان بھی چڑھا۔ افغانستان تو غار کے دور میں داخل ہو ہی گیا۔ لیکن ساتھ لیبیا سے لیکر یمن تک پچھلی ایک دہائی میں محنت کش غریب مسلمانوں کے ساتھ آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی گئی اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ نتیجے کے طور پر سارے مغرب میں وہ سارے مسلمان جن کا اسی کی دہائی کے امریکی،سعودی اور پاکستانی جہاد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بھی نفرتوں کا نشانہ بنے۔ سوویت یونین اپنی معاشی اور انتظامی پالیسی کا شکار ہو کر نوے کی دہائی کے اوائل میں بکھر گیا۔ لیکن آج روس ولادیمیر پوتن کی قیادت میں ایک بار پھر عالمی سیاسی منظر نامے پر ایک بڑی طاقت کے طور پر انہی افغانوں کو جنگ سے باہر نکالنے کے لیے مغرب سے مذاکرات کی میزبانی اور ثالثی کر رہا ہے۔ جس کی تباہی کا کریڈٹ کتنے ممالک اور جہادی و مذہبی جماعتیں لیتی رہی ہیں۔ لیکن تاریخ اور سیاسیات کا سچ یہی ہے کہ سوویت یونین اپنی معاشی اور انتظامی پالیسی کا شکار ہوا۔ لیکن اس کا بڑا جزو روس آج بھی دنیا کی ایک بڑی معاشی اور سیاسی قوت ہے۔ اور اسے توڑنے اور تباہ کرنے کے دعویدار بھی آج اسے ہی نجات دہندہ تصور کرنے پر مجبور ہیں۔

شدت پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر مغربی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پروردہ کارپوریٹ میڈیا نے پچھلی دو دہائیوں میں اسلام اور مسلمانوں کو اپنے عوام کے سامنے جس رنگ اور روپ میں پیش کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کے لیے عوامی حمایت کی جو مہم شروع کر رکھی ہے۔ اسی نفرت پر مبنی پروپیگنڈے کا شاخسانہ تھا۔ جو ایک ہفتہ قبل نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک میں ایک سفید فام جنونی کے ہاتھوں پچاس معصوم انسانوں کے خون پر منتج ہوا۔
تاریخ کا تسلسل دیکھیے کہ نیوزی لینڈ میں حکومت کی سربراہ ایک اڑتیس سالہ سوشلسٹ خاتون ہے۔ اور آج بائیس مارچ کو کرائسٹ چرچ کے وحشیانہ حملے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد اسی سوشلسٹ حکمران نے سرکاری سرپرستی میں ایک اذان کا اہتمام کیا۔ اور اس اذان کے کلمات کی ادائیگی کے دوران نیوزی لینڈ کی سوشلسٹ خاتون وزیراعظم سمیت اس ملک کے شہری احترام کے طور پر خاموش رہے تاکہ تشدد کا نشانہ بننے والے مسلمان خاندانوں کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ ان پر حملہ انسانیت پر حملہ تھا اور ساری کیوی قوم ان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ مساجد پر حملے کے ایک ہفتے کے اندر نیوزی لینڈ کی سوشلسٹ خاتون وزیراعظم نے آتشیں اسلحہ پر پابندی کا قانون بھی پارلیمنٹ سے منظور کروا لیا تاکہ اس کے ملک کا کوئی بھی شہری خوف نہ محسوس کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک مہم اسی کی دہائی میں کابل میں ذاتی کاروبار اور منافع کو محفوظ بنانے کے لئے سکھوں اور ہندوؤں سے سوشلزم کے خلاف اذان دلوا کر شروع کی گئی تھی۔ اور ایک مہم ایک سوشلسٹ حکمران نے لگ بھگ چالیس سال بعد نیوزی لینڈ میں سرکاری سرپرستی میں اذان کے کلمات سے شروع کی۔ دونوں مہموں میں الفاظ ایک جیسے لیکن پیغام کے اعتبار سے بالکل مختلف۔ جنگباز قوتوں اور حکمران اشرافیہ کے بہکاوے میں آ کر سوشلزم جیسی سماجی۔ سیاسی اور معاشی سائنس کے خلاف نفرت پھیلانے والے مسلمانوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ سوشلزم انسانی سماج کو مٹھی بھر طاقتور استحصالی اشرافیہ کے چنگل سے آزاد کروا کر برابری،امن،محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کا نظام ہے۔ جو جدلیاتی مادیت کے طابع فطرت کے قریب تر ہے۔ نا  کہ اشرافیہ کے پروپیگنڈے کے مطابق کسی مذہب یا عقیدے کے خلاف۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply