سرکار نے نوجوان کا استحصال کیا ۔ انتہا پسندوں نے اپنے بھونڈے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ معاشرہ نے مقابلہ کی بھٹی میں ڈال کر نچوڑ دیا ۔ تعلیمی نظام نے تقلید پر لگا دیا اور ڈیجیٹل دنیا نے قدرتی رشتوں سے دور کر دیا ۔ اب وہ تقریباً آٹھ کروڑ پاکستانی نوجوان نیوکلئیر بم سے بھی زیادہ خطرناک بن کر پاکستان پر مسلط ہے ۔ کوئی بھی دنیا کا ملک اور باہر کی یونیورسٹی اسے لینے کے لیے نہیں تیار ۔ وہی نوجوان اب اساتذہ کو چُھریوں سے قتل کر رہا ہے ۔ گورنر کا گارڈ جو گورنر کی سکیورٹی پر معمور ہے وہ گورنر کو قتل کر دیتا ہے ۔ بھائی بہن کو غیرت کا نام دے کر مار رہا ہے اور ایک بچہ اپنے دونوں ہاتھ محض اس لیے کاٹ دیتا ہے کہ یہ اس کے پیر نے رسول اللہ سے عشق کے امتحان میں کہا تھا ۔ وہی جہالت جو پیغمبر اسلام حضرت محمد ص نے پندرہ سو سال پہلے مدینہ سے ختم کی وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے والوں نے دوبارہ ہم پر مسلط کر دی ۔
باقی بارہ کروڑ عوام خاموش تماشائی۔۔۔ ۔ ان کے بس میں ہے بھی کچھ نہیں کیونکہ وہ تو خود survival کی ایک خوفناک جنگ سے دوچار ہیں ۔ پیسے اور بندوق والوں کا مافیا پاکستان پر ستر سال سے حکومت کر رہا ہے ۔ یہی نتیجہ متوقع تھا ۔ میرے انباکس میں روز درجنوں پیغام آتے ہیں ایسے نوجوانوں کے ، جو خودکشی کے دہانے پر کھڑے روز سوچتے ہیں کب اپنی جان کا خاتمہ کریں ۔ وہ سارے کروڑوں نوجوان ڈیپریشن اور ناکامی کے مریض ۔ مادہ پرستی کی زندگیوں نے ان سب کا بیڑہ غرق کر دیا اور اوپر سے کریمنل حکمران ۔
انسان صرف اور صرف پیار اور محبت کے لیے پیدا ہوا تھا ۔ وہ اپنا بنیادی مقصد بھول کر نجانے کن گورکھ دھندوں میں پڑ گیا ۔ تقلید ضرور کرنی ہے مگر اپنے پیارے نبی ص کی نہ کہ پینتالیس کروڑ کی گھڑی باندھنے والے لٹیروں کی جو اب جیل میں مر رہا ہے ۔ قرآن شریف میں بار بار رب تعالی نے فرمایا اطیعواللہ و اطیعو رسول ، اور اسوہ حسنہ کو بہترین زندگی کا نمونہ پیش کیا ۔ سارا چکر ہی اب اُلٹا ہے سارے معاملات ہی قدرت کے خلاف ہیں ۔ یہ مقابلے کی زندگیاں اب ہم سب کو خون کی ہولی کی جانب لے گئی ہیں ۔ پاکستانی سینیٹر نے پولیس والے کا سر پھاڑ دیا ، جیالوں نے نیب کے دروازے توڑ دیے اور ۲۳ کو کوٹ لکھپت جا کر ناپاکی اور غنڈہ گردی کی علامت کو جیل سے چُھڑوانے کے پروگرام بن رہے ہیں ۔
پاکستان کے لیے یہ سارے کے سارے حالات و واقعات نہ صرف دُکھ اور غم کے ہیں بلکہ ایک نئے موڑ کی طرف سفر کا پیغام ہے ۔ اب اور کوئی چارہ نہیں سوائے موت کے یا راستہ بدلنے کے ۔ عمران خان نوجوانوں کے لیے ایک بہت امید کی کرن بن کر اُبھرا تھا لیکن وہی تقلیدی ، امراء ، بدمعاش ، لُچے لفنگے اس کے وزیر مشیر اور ٹیم کا حصہ بن گئے ۔ یہی ہونا تھا ، عمران نے اس یو ٹرن کو ڈیفینڈ کیا اور خوامخواہ نپولین جیسے جنگجو کو رگڑ دیا غلط مثال دے کر ۔ لیڈر کچھ نہیں ہوتا اس کی convictions ہی سب کچھ ہوتی ہیں ۔ جنرل ضیاء سے مجھے سخت نفرت تھی اس کے ڈالے ہوئے گند شاید پاکستان سے کبھی صاف نہ ہو سکیں لیکن وہ جو کرتا تھا conviction کے ساتھ کرتا تھا بالکل جیسے زرداری اور نواز شریف کرتے ہیں ، زرداری اور نواز شریف کی ملک کو لُوٹنے کی convictions زبردست ہیں ۔
ٹرمپ اور ڈٹرٹے کی اپنے ملکوں کو بہتر بنانے کی convictions ہیں ۔ دونوں اکثر قانون سے بالا تر ہو کر آپریٹ کر رہے ہیں ۔ عمران خان کا مسئلہ ہے کہ وہ convictions کو بُری طرح lack کرتا ہے ۔ اور اب اس کے حالات ایسے ہیں کہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ۔ وہ یہ کھیل بُری طرح ہار گیا ہے ۔ سرمایہ دار مافیا اسے لے بیٹھا ۔ جہانگیر ترین نے کل ٹویٹ کیا کہ وہ تو بہت نیک ہے آفشور کمپنی میں صرف ٹرسٹ ڈیڈ کا مسئلہ تھا ۔ میرا سب آفشور کمپنیاں بنانے والوں کو ایک ہی سوال ہے کہ “ایسی کمپنیاں بنانے کی آپ کو ضرورت کیوں پیش آئی ؟” یہاں امریکہ میں پچھلے پچاس سال سے صرف مافیا نے آفشور کمپنیوں میں کالا دھن جمع کروایا ۔ میں نے یہی سوال ٹویٹر پر جہانگیر ترین سے پوچھا ہے جس کا جواب نہیں ملا ۔
میں حیران جس بات سے ہوتا ہوں کہ ہم نے اخلاقیات بدل دیں ، مذہب بدل دیا اپنے روپ بدل لیے ۔ اب دس کروڑ ہمارے اپنے پیدا کردہ بہروپیے پاکستان کو تباہ کریں گے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔ سیاستدان کرپٹ تھے ، فوج جانبدار اور انٹلیکچوئل بے ایمان ۔ یہی ہونا تھا ، یہی نتیجہ نکلنا تھا ۔ اب بُھگتنا پڑے گا ۔ ہر ایک کو اپنی موت کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ ان امیروں کے بچے یا باہر ہیں یا ابھی بھی کمال ڈھٹائی سے مریم ، بلاول اور علی ترین کی طرح عوام کی بوٹیاں نوچنے کے انتظار میں ۔
یہاں امریکہ میں نوجوان گوگل کرنے پر ہزاروں گورنمنٹ کے پروگرام دیکھتا ہے جو وہ جوائین کر سکتا ہے ایک productive یونٹ بن کر ۔ آج میں نے یوتھ افیئر کی پاکستان کی ویب سائٹ کھولی دو سائیٹس بند تھیں اور ایک ہر کوئی شاہدہ بھٹو وزیر ہیں ۔ ہنسی آتی ہے ان حماقتوں پر کوئی ذمہ داری ہی نہیں لے رہا ۔ زلفی بخاری جینز بانڈ بنا ہوا ہے ہیومن ریسورس اور اورسیز کی منسٹری چلا رہا ہے ٹکا کے پیسہ بنا رہا ہے ۔ ہالی وُڈ میں اداکاری کا شوق ۔ ایک امریکی ہی ایچ ڈی ڈاکٹر شہباز گل مادر پدر آزاد پنجاب میں مولا جٹ کا کردار ادا کر رہا ہے ۔ افسر بابوں کی موجیں ہی موجیں ۔ کام کچھ نہیں مراعات اور اوپر کی کمائی بے تماشہ ۔ نہ کوئی احتساب نہ کوئی ٹارگٹ۔ اس سے زیادہ میرے سے بیان ناممکن ہے ۔
اللہ تعالی ہم سب پر رحم کا معاملہ فرمائے اور ہدایت سے نوازے ۔ آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں