موٹاپا، ذیابیطس، کولیسٹرول اور ذاتی مشاہدات ۔۔۔ معاذ بن محمود

 

متحدہ عرب امارات شفٹ ہونے کے بعد قریب ایک سال ڈرائیونگ لائسنس لینے میں لگ گیا۔ اس دوران گھر سے میٹرو، میٹرو سے آفس اور پھر واپسی کے اسی سفر کے بعد رات کے کھانے اور چائے کے بہانے چلنے پھرنے کی سرگرمیاں جاری رہتیں۔ میرا کولیسٹرول ۲۰۰۸ یعنی ۲۳ سال کی عمر سے خطرناک درجے کا تقریباً ڈیڑھ گنا رہا کرتا جو اس دوران معلوم نہیں کتنا رہا۔ دبئی میں پہلی ملازمت ملنے کی خوشی اتنی تھی کہ انشورنس جیسی لازمی سہولت کی بات کرنا یاد ہی نہ رہا۔ پہلا سال اس قدر مصروف تھا کہ صحت کا معاملہ ویسے بھی پس پشت ہی رہا۔ گھر ختم کر کے فیملی کو کراچی بھیجنا، خود دبئی آ کر پہلے تین ماہ میں تین بار رہائش تبدیل کرنا، والد صاحب کی وفات، ویزا، ڈرائیونگ لائسنس، ہر ماہ پاکستان کا ایک چکر یہ سب کل ملا کر ایک گھن چکر سے کم نہ تھا۔ اس گرداب سے نکلتے نکلتے ایک سال لگ گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے ایک گھنٹے بعد میں گاڑی لینے پہنچ چکا تھا اور جلدی اس قدر تھی کہ چند ہی گھنٹوں میں گاڑی فائنل کر کے دم لیا۔

اس کے بعد سہل پسندی کا وہ دور شروع ہوا جو اگلے پانچ سال اپنے عروج پر رہا۔ مزید کسر بیوی بچوں کی محبت نے یوں پوری کی کہ گلی کے نکڑ سے انڈے بھی لانے ہوتے تو سب کو بڑھا کر گاڑی میں ہی جاتے۔ نتیجہ وہی جو نکلنا تھا یعنی ۸۵ کلو وزن بڑھتا بڑھتا جنوری ۲۰۰۹ کے اختتام تک ۱۰۶ کلو سے کچھ اوپر نکل گیا۔ اس دوران نارمل حالت میں بلڈ پریشر ۱۴۰/۱۰۰ رہنے لگا، ذیابیطس نے آن گھیرا جو اکثر ۲۰۰ پار کرنے لگی اور ہائپر ٹینشن کی صورت میں سامنے آنے لگی۔ کولیسٹرول برجیل اور الاہلیٰ ہسپتال ابو ظہبی کے ماہرین امراض قلب کے مطابق ناصرف ہسپتال بلکہ ان کے کیرئیر کے سب سے بلند اعداد یعنی ۴۰۰ کو کراس کر چکا تھا۔

۲۰۱۷ کے وسط میں چلنے پھرنے کے دوران سینے میں درد کی شکایت ہوئی جس پر ڈاکٹر نے انجیوگرافی کی خبر سنائی۔ اگرچہ تکلیف دہ انجیوگرافی صاف نکلی تاہم یہ میرے لیے الارم تھا۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد میں نے عہد کیا کہ اب سے پرہیز خود پر فرض کرنا ہے۔ کارڈیالوجسٹ نے تمام مسائل کی جڑ وزن کو قرار دیا اور ساتھ ہی ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو قابو کرنے کے لیے آزمودہ ترین دوا سٹیٹینز statins کی مقدار حد درجہ بلند سطح پر دینا شروع کر دی۔ اب میں ابلی ہوئی سبزیوں تک محسوس ہوگیا لیکن کولیسٹرول اور وزن تھے کہ جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ اسی دوران دسمبر ۲۰۱۷ میں امریکہ میں مقیم مجھ سے دو سال چھوٹے بھائی کو دل کا دورہ جھیلنا پڑا جو اللہ کے بہت بہت کرم کے باعث خوش قسمتی سے بروقت ہسپتال پہنچنے اور انجیوپلاسٹی کی بدولت برداشت ہوگیا۔

اب میں نے اپنی صحت کو نہایت سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔ ۲۰۱۸ کا پورا سال کولیسٹرول، ذیابیطس، بلڈ پریشر سے لڑتے گزرا۔ اس دوران میں نے روٹی چھوڑ کر دیکھی، صرف ناشتے اور شام سات بجے سے پہلے پہلے کھانے پر اکتفا کرنے سمیت جانے کتنے ہی حربے آزمائے مگر نتائج وہی ڈھاک کے تین پات۔ واحد کامیابی جو مجھے ۲۰۱۸ کے آخر میں نصیب ہوئی وہ پچھلے دس سال میں صرف ایک بار نارمل کولیسٹرول کی صورت میں ملی وہ بھی ۲۰۱۸ دسمبر میں۔ وزن، ذیابیطس اور بلڈ پریشر ابھی بھی قابو سے باہر ہی رہے۔ اس تمام عرصے میں ایک عمل جو میں اپنے کام کی نوعیت اور بہت حد تک سستی و کاہلی کے باعث تواتر سے جاری نہ رکھ پاتا وہ تھا ورزش یا کسی قسم کی چہل قدمی۔ چند ایک بار میں نے پورشن ڈائیٹ کی کوشش بھی کی مگر کم از کم مجھے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ میری اہلیہ Keto Diet پر رضامند بھی کرتی رہیں مگر ہر حربہ آزمانے کے بعد میں اس پراجیکٹ سے تقریباً بددل ہوچکا تھا اور ہار مان بیٹھا تھا۔ اسی دوران جنوری ۲۰۱۹ میں ۲۰ ایام پر محیط پاکستان کا دورہ بھی ہوا جس میں پرہیز گھر کی چند تقریبات کی وجہ سے ناممکن تھا۔ اس بار پاکستان میں چھوٹے بھائی سے دو سال بعد ملاقات بھی ہوئی جس میں اس سے وزن گھٹانے کے طریقوں پر کئی بار بات ہوئی۔

۲ جنوری ۲۰۱۹ کو پاکستان روانگی سے پہلے میں نے کتاب Obesity Code کو اس ماہ کی کتاب کے طور پر منتخب کیا۔ جہاز سے اترنے کے بعد پاکستان میں انتہائی مصروف شیڈول کے باعث کتاب پڑھنے سے قاصر رہا۔۲۱ جنوری ۲۰۱۹ کو میری واپسی ہوئی اور میں نے کتاب دوبارہ پڑھنا شروع کی۔ ۲۴ جنوری ۲۰۱۹ کی رات میں نے کتاب ختم کی جس کے بعد کتاب میں پیش کیے گئے دلائل کے تحت میں نے ڈائیٹ، کھانے کے اوقات و نوعیت اور لائف سٹائل میں چند بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ کیا۔

کتاب کے مطابق بسیار خوری موٹاپے کی وجہ نہیں بلکہ ایک طرح سے اس کا ردعمل ہے۔ مصنف کتاب میں دلائل اور کئی تجربات کی بنیاد پر نتیجہ نکالتا ہے کہ جسم میں انسولین کی بڑھتی مقدار دراصل انسانی جسم کا مقرر وزن Set Weight بڑھانے کا باعث بنتا ہے اور اسے برقرار رکھنے کے کیے خوراک میں اضافہ کرتا ہے۔ خوراک میں یہ اضافہ ایک چین ری ایکشن کی طرح انسولین مزید بڑھاتا ہے اور اس تمام کشمکش کا نتیجہ مزید بڑھتا مقرر وزن، کولیسٹرول، بڑھتی ذیابیطس اور فشار خون کی بلند سطح کی صورت میں نکلتا ہے۔ کتاب کے مطابق خوراک میں ہائی پروسیسڈ اشیاء، دن بھر میں کھائی جانے والی میٹھی چیزوں کی بڑھتی مقدار، ذہنی دباؤ اور غیر مسلسل سونے کے اوقات، ورثے میں ملے ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کے جینیاتی کوڈ میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ یوں موٹاپے کو کم کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہوا کرتے ہیں۔

۱۔ زندگی سے میٹھا یکسر ختم کر دیں۔

۲۔ تمام پروسیسڈ فوڈ اپنی زندگی سے باہر نکال دیں۔

۳۔ فیبرک پر مبنی ڈائیٹ۔

۴۔ ڈائیٹ میں مصنوعی چکناہٹ کی بجائے قدرتی چکنائی کا استعمال۔

۵۔ ڈائیٹ میں قدرتی (آرگینک) دہی اور قدرتی ایپل سڈر سرکہ کا استعمال۔

۶۔ ڈائیٹ میں مزید پھیکی چائے اور کیفین کا استعمال۔

۷۔ اہم ترین جزو کھانے سے حتی الامکان اجتناب۔

میں نے کتاب کی روشنی میں چند بنیادی اصول وضع کرنے کا فیصلہ کیا جو کچھ یوں تھے۔

۱۔ صبح کا ناشتہ برائے نام، جیسے ایک ابلا ہوا انڈا یا ایک گھر کے بنے شامی کباب تک محدود کر ڈالا۔ ناشتہ نہ ہونا مزید بہتر ہے تاہم میرے معاملے میں روزانہ صبح کی دوا ضروری تھی جس کے لیے خالی پیٹ ہونا نقصاندہ تھا۔

۲۔ چینی سے مکمل اجتناب۔ میٹھے کا شوقین میں ویسے بھی نہ تھا تاہم اب سے چینی والی چائے، کافی، پیپسی و دیگر ڈرنکس سب کو خود پر حرام قرار دے ڈالا۔

۳۔ صبح ابلے ہوئے انڈے کے بعد بلیک کافی، بغیر دودھ، چینی کے۔

۴۔ شام سات بجے سے پہلے گھر پہنچتے ہی بھوک مٹانے کے لیے دو گلاس یخنی۔

۵۔ رات سونے سے تین گھنٹے پہلے میٹھے اور پیپسی وغیرہ سے پاک کسی بھی طرح کا کھانا جتنی بھوک ہو اس حساب سے۔

۶۔ ہر بار کچھ بھی کھانے سے پہلے آرگینک ایپل سڈر کے دو بڑے چمچ ایک گلاس پانی میں گھول کر پینا۔

۷۔ روزانہ نہیں تو ہفتے میں کم سے کم چار دن چالیس منٹ جاگنگ یا سوا گھنٹہ واک۔

۸۔ دن کے کسی بھی حصے میں بھوک محسوس ہونے پر جتنا ممکن ہو پانی۔

۹۔ ترکش یا کوئی بھی بلیک کافی (کافی بھوک مٹانے کا سبب بنتی ہے)۔

۱۰۔ قدرتی اور مصنوعی کسی بھی قسم کے جوس سے مکمل اجتناب۔جوس سے بہتر ہے متعلقہ پھل کھا لیں۔

۱۱۔ حتی الامکان تین بجے سے پہلے پہلے نیند جس کا دورانیہ کم سے کم بھی سات گھنٹے ہو۔

۱۲۔ ویک اینڈ میں ایک دن کھل کر ناشتہ تاہم ناشتے اور رات کے کھانے کے درمیان ۱۲ گھنٹے کا دورانیہ۔

میں نے یہ روٹین اپناتے ہوئے ڈیڑھ ماہ میں ۱۲ کلو وزن گھٹایا۔ گزشتہ صبح میں نے پانچ سال بعد اپنا پہلا ہدف یعنی ۹۵ کلو کراس کیا جو اس وقت ۹۴ کلو ہے۔ ذیابیطس ۲۰۰ سے ۸۵-۹۸ تک کنٹرول ہوئی۔ بلڈ پریشر اب ۱۲۰/۸۰ سے نیچے رہنے لگا ہے اور کولیسٹرول کچھ دن میں ٹیسٹ کروانا ہے۔ اس کے علاوہ آفس سے واپسی پر پہلے والی سستی سے بھی نجات ملی۔ یہ روٹین میں اپنے کارڈیالوجسٹ سے کنفرم کروا چکا ہوں جس نے مجھے اسی کے تسلسل کا مشورہ دیتے ہوئے ذیابیطس کی مقدار نصف کی جس کے نتائج کا مشاہدہ چند دن تک تسلی بخش رہنے کے باوجود ابھی جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا تعلق طب سے نہیں تاہم کتب بینی اور ذاتی تجربات پر مبنی اس روٹین کے نتائج میرے لیے انتہائی تسلی بخش ثابت ہوئے۔ میرا اگلا ہدف ۹۰ کلو ہے جو انشاءاللہ میں نے اگلے دو سے تین ہفتے میں حاصل کرنا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ مذکورہ بالا کتاب خود ضرور پڑھیے اور یہ روٹین اختیار کرنا چاہیں تو پہلے اپنے متعلقہ ڈاکٹر سے تصدیق ضرور کروائیے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”موٹاپا، ذیابیطس، کولیسٹرول اور ذاتی مشاہدات ۔۔۔ معاذ بن محمود

  1. جو بھی لکھا درست لکھا ۔واقعی اس روٹین سے انسان چاق و چوبند اور توانا رہتا ہے۔ موٹا آج کل ایک ایسا مرض ہے جو بے شمار مہلک امراض کو ساتھ لاتا ہے۔ لہذا وقت رہتے اسکو قابو کرنا ضروری ہے۔اور جو پوائنٹس آپ نے بتائے ہیں اسی کے مطابق میں خود 8ماہ میں اٹھارہ کلو وذن کم کر چکی ہوں۔بغیر کمزوری کے۔ انسان کو مکمل کھانا پینا نہیں چھوڑنا چاہئے۔بلکہ صحت مند کھانا چاہئے ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق کھانا چاہئے۔ سبزیاں اور انڈے خوب کھانے چاہئے۔پانی کا وافر استعمال اور ہر طرح کے آرٹیفیشل مشروب سے پرہیز اور گرم پانی نہار منہ پینے سے وذن میں فرق پڑتا ہے اور انسان تندرست رہتا ہے

Leave a Reply to رمشا تبسم Cancel reply