کافر, کافر سارے کافر,میں بھی کافر تو بھی کافر۔۔۔رمشا تبسم

جانے کب کون کسے مار دے “کافر” کہہ کر

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے (جلیل حیدر لاشاری)

بہت ہی افسوسناک واقعہ 20مارچ2019کو پیش آیا۔  گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور کے انگلش کے پروفیسر خالد حمید صاحب کو کالج میں بی ۔ایس کے طالبِ علم خطیب حسین نے چھریوں کے وار کر کے قتل کردیا گیا ہے۔

قاتل کے مطابق پروفیسر اسلام کے خلاف بہت ذیادہ باتیں کرتا تھا۔جبکہ قاتل پروفیسر کا ایک بھی گستاخ جملہ بتانے سے قاصر رہا۔ صرف اتنا کہتا رہا کہ پروفیسر گستاخ ہے۔

کراچی میں ایک زمانے میں بوری بند لاشیں ملتی تھیں۔یہ لاشوں کی وجوہات کچھ اور ہی تھیں۔ ایک سیاسی جماعت اس قسم کی واردات میں ملوث رہی۔ اور کوئی واضح طور پر آج تک اس سیاسی جماعت کا نام سرِ عام نہیں لے سکا۔نہ ہی کسی قسم کا مقدمہ کبھی کسی فرد کے نام درج ہوا۔ اس سیاسی جماعت کی  بوری بند لاش کی قتل و غارت  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عام لوگ بھی اپنے دشمن  کو قتل کرتے اور لاش بوری میں بند کر دیتے لہذا  مقدمہ نا معلوم افراد پر درج ہوتا اور اس طرح مجرم ہمیشہ کے لئے گمنام رہتا۔

چونکہ بوری بند لاش کی کہانی کو کسی حد تک انجام پہ پہنچا دیا گیا۔ وہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ لہذا قتل کا نیا سلسلہ مذہب کی توہین  کے نام پہ شروع کردیا گیا۔ جس میں کوئی بھی اپنی ذاتی دشمنی نکالنے پر کسی کا بھی قتل کردے  جرم کا اقرار اپنا  سر بلند کر کے کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ اس مرنے والے نے توہینِ رسالتﷺ یا مذہب کی توہین کی ہے۔

ہمارے لوگ اس قدر بے وقوف ہیں کہ معاملے کی  جانچ پڑتال کئے بغیر مذہب کے نام پر واویلا مچا دیتے ۔اور وہ لوگ بھی جنہوں نے نہ کبھی نماز اور نہ ہی کبھی روزہ رکھا ہو گا۔جن کادامن ہر اس گناہ سے میلا ہوا ہوگا جس سے اﷲنے منع فرمایا ۔وہ تمام لوگ اس کام کو سر انجام دینے  پہنچ جاتے ہیں۔  جلیل حیدر لاشاری نے کیا خوب لکھا ہے کہ

کیسا عاشق ہے تیرے نام پہ قرباں ہے مگر

تیرے ہر حکم سے انجان ہوا پھرتا ہے

رات شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے

صبح کو صاحبِ ایمان ہوا پھرتا ہے

پاکستان میں توہینِ رسالت کے واضح قوانین کا نہ ہونا اس طرح کے قتل و غارت کو جنم دے رہا ہے۔

کوٹ رادھا کشن 2016میں  عیسائی جوڑے کو  تمام گاؤں والے  جلا دیتے ہیں۔ مسجد میں اعلان کیا جاتا ہے کہ اس جوڑے نے توہینِ رسالت کی ہے لہذا تمام لوگ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اس کام میں بڑھ  چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور انکو اینٹوں کے بھٹہ میں جلا دیتے ہیں۔ بعد میں تفتیش سے بات  واضح ہوتی ہے  کہ گاؤں کے چوہدری کی ذاتی  رنجش تھی۔جس نے  بے گناہ عیسائی جوڑے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

مندر میں تو بُت ہوتا ہے

مسجد کا بھی حال بُرا ہے

کچھ مسجد کے باہر کافر

کچھ مسجد کے اندر کافر

مسلم ملک میں اکثر کافر

کافر کافر میں بھی کافر

کافر کافر تو بھی کافر (سلمان حیدر)

13اپریل 2017 کو  باچا خان یونیورسٹی میں ایک طالبِ علم مثال خان کو  بہت بڑے ہجوم نے  گستاخِ رسول ﷺ قرار دے کر  تشدد کر کے قتل کر دیا۔  تفتیش کے مطابق مثال خان کی یونیورسٹی انتظامیہ سے کچھ رنجش تھی۔ جسکی بنا پر یہ سارا معاملہ پیش آیا۔مثال خان توہینِ رسالت کا مجرم ثابت نہیں ہو سکا۔مثال خان کے قتل میں  ایک سیاسی جماعت کا نمائندہ بھی تھا جس نے حلف لیا کہ مارنے والوں میں سے کوئی ایک دوسرے کا نام نہیں لے گا۔اور قتل کے بعد اس نے سب کوقتل کرنے پر مبارک باد بھی دی۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان ہوں میں

بے شمار واقعات اس طرح کے رونما ہوتے رہے ہیں۔ مگر اب تک ریاست اس معاملے پر نہ قوانین بنا سکی ہے نہ ہی ان قوانین کو لوگوں تک واضح الفاظ میں پہنچا سکی ہے۔

ہم پرانے پاکستان میں  کوٹ رادھا کشن اور خیبر پختونخوا کے اس قسم کے قتل کو دیکھ چکے ہیں۔اور افسوس ہے  کہ  نئے پاکستان میں بھی  اس طرح کی قتل و غارت کو روکنا ریاست کے اختیار میں نہیں۔ گویا کہ جسکا دل چاہے دشمنی میں قتل کرے اور خود کو معتبر ثابت کرنے کے لئے مقتول کو  گستاخِ رسولﷺ قرار دے دے۔ اور   افسوس کہ  لوگ معاملہ جانے بغیر سوچے سمجھے بغیر  قاتلوں کے حق میں نکل آتے ہیں۔اور انکو بچانے کے لئے مختلف دلیلیں دیتے ہیں۔۔ ہماری قوم کو سب سے زیادہ مذہب کے نام پر بےوقوف بنایا جاسکتا ہے۔اس معاملے پر لوگ سوچے سمجھے بغیر جذباتی ہو کر کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔

پروفیسر کا قتل کرنے والا طالبِ علم ایک قاتل ہے۔جسکوقانون کے مطابق سزا ہونی چاہئے۔ اور حکومت کو اس معاملے پر عوام کو مکمل آگاہ کرنا چاہئے۔ماضی میں چار حلقوں کے معاملے میں مکمل پاکستان بند کر کے عوام کو ان چار حلقوں کی اہمیت سے آگاہ کرتی یہ نئے پاکستان کے حکمران انسانی جانوں پر منڈلاتا  ہوا یہ خطرہ دیکھ  کر بھی کوئی اقدام کرنے سے قاصر کیوں نظر آتے ہیں۔چار حلقے جس اقتدار کی کرسی کے لئے ضروری تھے۔وہ اقتدار  اب محترم عمران خان صاحب کے پاس موجود ہے۔وہ الگ بات ہے کے وہ چار حلقے آج بھی انکے پاس موجود نہیں۔ مگر اس قتل و غارت کو روکنے کے لئے ریاست کو اب ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے بڑے مسائل کو نظر اندازکر کے جو مرغی  پالو۔کٹا بچاؤ اور لیٹرین بناؤ مہم نئی حکومت لائی وہ اب مکمل طور پر دم توڑ چکی ہے۔ لہذا ان  جگت باز  سکیموں کی بجائے اب نئی حکومت کو عوام کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔اور اس قسم کے معاملات پر بہت واضح قوانین بنانے چاہئے۔اور لوگوں پر واضح کرنا چاہئے کہ  ریاست اس قسم کے قتل و غارت کو برداشت نہیں کرے گی۔

جو میری دھمکی نہ چھاپیں

وہ سارے اخبار بھی کافر   (سلمان حیدر)

سوچنے کی بات ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر ڈالتے ہیں۔اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب ہی کے قبیلے سے کیوں اٹھتے ہیں  ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی ایک دوسرے کو قتل نہیں کرتے۔افلاطون اور دیمقراطیس کے گروا کبھی ایک دوسرے سے نہیں ٹکرائے۔فارابی کے مکتبہ خیال نے شیخ شہاب کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا۔ایتھنس کی ہیکل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں۔اور شہروں کو آگ لگا دی ہو۔فتنہ فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان ہی کیوں بھڑکتی ہے؟ (جون ایلیاء)

بے شک توہینِ رسالت کی کوئی معافی نہیں۔اس پر  قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔اس تحریر کا مقصد توہینِ رسالت کرنے والوں کو محفوظ کرنا نہیں بلکہ توہینِ رسالت کے نام پر ہونے والے اس قتل و غارت کے لئے واضح قوانین کی طرف توجہ  دلانا ہے۔

میری حالت احمد فرہاد نے کیا خوب بیان کی ہے

کافر ہو سر پھرا ہو مجھے مار دیجئے

میں سوچنے لگا ہوں محھے مار دیجئے

میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا

گستاخ ہو گیا ہو مجھے مار دیجئے

پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور

میں آخری صدا ہوں مجھے مار دیجئے

کیا ظلم ہے کہ  ظلم کو کہتا ہو صاف ظلم

Advertisements
julia rana solicitors london

کیا ظلم کر رہا ہوں مجھے مار دیجئے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 6 تبصرے برائے تحریر ”کافر, کافر سارے کافر,میں بھی کافر تو بھی کافر۔۔۔رمشا تبسم

  1. بہترین تحریر لکھی آپ نے۔ پڑھ کر خوشی ہوئی کے سچائی لکھنے والے آج بھی ذندہ ہیں۔ بے شک قاتل کو پھانسی ہونی چاہئے۔اور ریاست کو قوانین بنانے چاہئے۔ﷲآپ کے علم میؤ برکت عطا فرمائے۔اور لوگوں کو عقل و شعور عطا فرمائے۔

  2. ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر لکھی آپ نے بلکل سچی بات بیان کی قاتل کو سزا ملنی چاہیے…اللہ پاک اسی طرح حق و سچ لکھنے کی طاقت دے آپ کو آمین ثم آمین یا رب العالمین

  3. ہر روز اس طرح کے حادثات ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی حکومت اقدام نہیں کر سکی کیونکہ عوام کسی بھی حکومت کی اولین ترجیع نہیں۔ دل نیوذی لینڈ سانحہ پہ اداس تھا کہ اب یہ حادثہ ہو گیا۔ اتنا تناؤ کا شکار ہے ہمارے لوگ مگر نہ حکومت کو فرق پڑتا ہے نہ ہی کسی دوسرے لوگوں کو۔ بس چار دن شور رہے گا بعد میں سب خاموش۔ پھر کوئی اور حادثہ ہو جانا۔ واقعی یہاں سب کافر ہیں۔جسکو مرضی کافر کہہ کر ماردیا جاتا ہے

  4. ایک استاد ہونے کی حیثیت سے میرے لئے بہت دکھ کی بات ہے۔کہ جن طالبِ علموں کو ہم انسانیت کا سبق سکھاتے ہیں وہی ہمیں قتل کر رہے ہیں۔ایک استاد کا قتل نہیں یہ تمام انسانیت کا قتل ہے۔
    تمام اداروں کو اس معاملے پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔کافر اور غدار کہہ کر کسی ایک انسان کا نہیں اسانیت کا قتل ہوتا ہے۔لہذا حکومتِ وقت کو اس معاملے میں چاہئیے کہ عوام کو آگاہ کرے۔ورنہ یہ قتل و غارت بہا بھیانک روپ لے گی۔ﷲ ہمیں اس فتنہِ جدید سے مخفوظ رکھے۔

  5. اسلام علیکم!
    بقلم خود۔۔۔۔
    قتل کا سامان لیے بیٹھا ہے ہر شخص
    اپنے اندر اک شیطان لیے بیٹھا ہے ہر شخص
    بغض وعناد کے تیروں سے ہے بس لیس
    ہاتھوں میں بھی کمان لیے بیٹھا ہے ہر شخص
    کافر کہا اور قتل کا جواز دے دیا
    اسلام کی امان لیے بیٹھا ہے ہر شخص
    . تم نے اپنی تحریر کی زد میں اس تکلیف دہ حقیقت کو لیا ہے ۔۔۔۔جس کو دنیا صرف ایک خبر کی نظر سے دیکھتی ہے سنا دیکھا اور بھول جاؤ ۔۔۔۔ حکومت کی آنکھیں بھی دیکھ کر ان دیکھا کر رہی ہے۔۔۔۔پڑھا تھا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا۔۔۔۔۔ توہین رسول کے نام پر ہونے والے تمام قتلکے اصل حقائق سامنے آنے کے باوجود حکومت کا خاموش رہنا چہ معنی دارد۔۔۔۔۔۔آیا ہم مومن نہیں یا ابھی دو کی گنتی پوری نہیں ہوئ ۔۔۔ہم ان میں سے تو نہیں جو سو کر کے ایک گنتے ہیں ۔۔خدارا یہ اسلام کے نام پر دہشت پھیلانا بند کرو اسلام تو امن کا گہوارہ ہے اسے اپنے غلیظ ارادوں سے آلودہ مت کرو . . ۔۔۔۔۔رمشا ! اللہ رب العزت کے کرم سے تمہاری قلم کی نوک اسی طرح سچ کے موتی بکھیرتی رہے آمین یا ارحم الراحمین۔۔۔

    1. بہت شکریہ۔آپ کے الفاظ خود میں تفصیلی پیغام ہے۔جس میں مسئلہ اور اسکا حل دونوں ہی شامل ہیں۔قتل کا سامان لئے بیٹھا ہے ہو شخص بہت خوب لکھا آپ نے۔ شکریہ حوصلہ افزائی کا۔

Leave a Reply to رمشا تبسم Cancel reply