• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیوزی لینڈ قتل عام، کیا طوفان آرہا ہے؟۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

نیوزی لینڈ قتل عام، کیا طوفان آرہا ہے؟۔۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

بڑی مدت سے دہشتگردی انسانوں کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے، نہتے اور بے گناہ لوگوں کو ٹارگٹ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادیں مختلف ہو سکتی ہیں، مگر انسانوں کا بہنے والا لہو ایک سا ہے۔ فلسطین میں اسرائیل اپنے ناجائز وجود کو دوام بخشنے کے لیے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے تو کشمیر میں بھارتی افواج اس جنت نظیر وادی کو کشمیریوں کے لہو سے سرخ کر رہی ہیں۔ خون مسلم تو ویسے ہی پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ طبقہ ایشائی اور افریقی ممالک سے یورپ منتقل ہو رہا ہے، ماہرین اسے فلائٹ آف مائنڈ سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیوزی لینڈ ایک پرامن ملک سمجھا جاتا تھا، جہاں مساجد تھیں، اسلامک سنٹرز اور دیگر مذہبی ادارے تھے، مسلمان اچھی زندگی بسر کر رہے تھے۔ گذرے جمعہ کا دن اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لے گیا، پچاس خاندان براہ راست اجڑ گئے اور باقی مسلم کمیونٹی خوفزدہ ہے کہ جانے آگے کیا ہوگا۔؟

بظاہر آسٹریلیا کے ایک نوجوان نے یہ دہشتگردی کی ہے، اس واردات میں وہ جس اطمنان کا مظاہرہ کر رہا ہے اور جس طرح اس نے اس کی ویڈیو بنائی ہے، اس سے لگتا ہے کہ وہ اس کی بڑے عرصے سے پلاننگ کر رہا تھا اور اس نے مسلمانوں کے اجتماعات کے بارے میں بھی پڑھ رکھا ہوگا، اسی لئے اس نے جمعہ کے دن کا انتخاب کیا، جس دن مساجد میں رش زیادہ ہوتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ موت ٹل نہیں سکتی، آکر رہے گی، اگرچہ آپ دنیا کے پرامن ترین ملک میں بھی چلے جائیں تو بھی بدامنی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ جب سے یہ واقعہ ہوا ہے، تب سے پریشان ہوں ہو کہ کیا اب مسلمانوں کے لیے دہشتگردی کا نیا دروازہ کھلنے والا ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ جس طرح مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں زہر انڈیلا ہے، اس سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

وہ دہشتگرد جو امریکہ نے عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے(بقول ہیلری کلنٹن امریکی پیسوں سے) عالم اسلام کے سینوں پر پیدا کیے، انہوں نے افغانستان سے عراق و شام تک بہت نقصان پہنچایا۔ اب جب یمن، عراق، افغانستان اور شام سمیت کئی ممالک کو بے حال کر دیا گیا ہے تو کیا اگلے مرحلے کے طور مغرب میں موجود مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے گا؟ اس وقت مغرب میں اسلامو فوبیا اپنے عروج پر ہے، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایسی عجیب و غریب غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں، جیسی شیعہ مسلمانوں کے بارے میں دیگر مسلمانوں کے ہاں پائی جاتی ہیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں بہت سی رپورٹس موجود ہیں کہ وہاں نسل پرستی کی بنیاد پر تعصب موجود ہے، جس کا مظاہرہ وہ کرتے رہتے ہیں، کتنی ہی کشتیوں کے بارے میں خبر آتی ہے کہ آسٹریلوی ساحلوں کے قریب ٹوٹ گئیں اور ان کے سوار جو اچھے مستقبل کی امیدیں لگائے آسٹریلیا جانا چاہتے تھے، سمندر کی نذر ہوگئے، آسٹریلیا نے سخت ترین امیگریشن قوانین بنائے، جس کی وجہ سے لیبیا اور صومالیہ سے آئے مسلمانوں کو ایک افریقی ملک میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔

آسٹریلیا کے سینیٹر نے اسلام اور مسلمانوں کو دہشتگرد کہا۔ اسی طرح یورپ میں حجاب کی مخالفت اور راہ چلتے حجاب کھینچنا اور دیگر کئی طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایک چیز جس پر ابھی یورپ اور یورپی میڈیا کو سوچنا ہے، وہ ان کا منفی کردار ہے کہ اب اگر کوئی رپورٹنگ کرے کہ یہ مسیحی دہشتگرد یا یہ یورپی دہشتگرد تو انہیں کیسا لگے گا؟ یقیناً وہ اچھا محسوس نہیں کریں گے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے درست کہا کہ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، اس نے ہماری اقدار پر حملہ کیا ہے۔ مسلمان بھی پچھلی دو دہائیوں سے چیخ چیخ کر یہی بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشتگردی کے نام پر جو اسلام مخالف کھیل تم نے شروع کر رکھا ہے، یہ درست نہیں ہے، دہشتگرد صرف اور صرف دہشتگرد ہوتا ہے، یقیناً اس کی کوئی نا کوئی مذہبی اور علاقائی شناخت بھی ہوتی ہے، مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کا صرف اور صرف ایک تعارف ہے کہ وہ دہشتگرد ہے۔

بی بی سی پر ایک آرٹیکل دیکھ رہا تھا، جس کا عنوان تھا کہ شائد یہ دہشتگرد پاکستان بھی آیا تھا۔ عجیب بات ہے، جو شخص زندگی میں ایک بار پاکستان آیا ہو، کیا اس سے اس کے دہشتگرد ہونے کا الزام پاکستان پر آجائے گا؟ مظرنامہ کو دھندلانے اور من پسند رائے عامہ تشکیل دینے کے لیے شائد کے ساتھ خبر لگا کر بھی رخ موٹا جاتا ہے۔ اس دہشتگرد کا نظریہ بہت واضح ہے، اس نے اپنے ہتھیاروں پر اپنے نظریات لکھے ہوئے ہیں، اسے پکڑ لیا گیا اور وہ مزید بھی بہت کچھ بتائے گا۔ اس نے صلیبی جنگوں کے نعرے اور صلیبیوں کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے، دنیا اس بات آگاہ ہے کہ صلیبی جنگیں مسلمانوں کے خلاف لڑی گئیں تھیں اور ان صلیبیوں نے جہاں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا تھا، وہیں عام مسیحیوں کو بھی بے تحاشہ نقصان پہنچایا تھا۔ کروسیڈ وارز، صلبی جنگیں، جنہیں مقدس جنگیں بھی کہا جاتا ہے، اس کا مغرب پر کس قدر اثر ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یے کہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے اس جنگ کو کروسیڈ وار یعنی صلیبی جنگ کا نام دیا تھا۔

صدر ٹرمپ کے جیتنے سے سفید فام انتہا پسند طاقتور ہوگئے ہیں، اس کے ساتھ ہی وہ قوتیں جو مغرب میں دائیں بازو کی قوتیں کہلاتی ہیں، وہ بھی طاقت پکڑ رہی ہیں۔ امریکہ میں مسلمان ممالک سے لوگوں کا آنا بہت مشکل کر دیا گیا ہے۔ جرمنی میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں، دیگر جگہوں پر بھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ نیوزی لینڈ کے واقعے پر مقامی انسان دوست آبادی کے طرز عمل نے بہت متاثر کیا۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انسان مشرق کا ہو یا مغرب کا، جب وہ سیاست، مذہب اور مفادات سے بالا تر ہو کر سوچے گا تو اس کا طرز عمل وہی ہوگا، جو نیوزی لینڈ کے لوگوں کا تھا۔ خدا کرے یہ حملہ آور اکیلا ہو، کیفر کردار تک پہنچ جائے اور اسلام مخالف اس نظریئے کی بیچ کنی کر دی جائے۔ اگر یہ ناسور پھیل گیا تو یہ واقعہ اپنے پیچھے بہت بڑا طوفان لا رہا ہے۔ امید ہے کہ دنیا بھر کے انسان دوستوں کی متحد آواز ان انتہا پسندوں کو معاشرے میں بے اثر کر دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply