ژوب کا نظارۂ شب۔۔۔ایم بلال ایم

یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب نیا نیا ڈی ایس ایل آر(DSLR) کیمرہ خریدا تھا۔ انہی دنوں بلوچستان یاترا کے لئے نکلا۔ ژوب(بلوچستان) میں جس جگہ ٹھہرے، وہاں سے شہر کا زبردست نظارہ دیکھنے کو ملا۔ پھر شام ہوئی اور رات چھا گئی۔ ہر طرف روشنیاں جگ مگ کرنے لگیں۔ میں انہیں تصویر میں محفوظ کرنا چاہتا تھا مگر کیسے؟ مجھے تو ٹھیک طرح کیمرہ چلانا بھی نہیں آتا تھا۔ ”نائیٹ فوٹوگرافی“ تو بعد کی بات تھی۔ انٹرنیٹ ہوتا تو ادھر سے ہی کوئی سبق(ٹیوٹوریل) دیکھ کر کام چلا لیتا، مگر انٹرنیٹ بھی نہیں تھا۔ اُس سفر کا ہمسفر آج ایک اچھا فوٹوگرافر ہے، مگر تب وہ بھی اس میدان کے گھوڑے سدھا رہا تھا۔ لہٰذا مجھے خود ہی کچھ کرنا تھا۔ کیمرے کے شٹر، اپرچر اور آئی ایس او کے متعلق تھیوری تو بہت پڑھ رکھی تھی، لیکن عمل(پریکٹیکل) کچھ اور بات ہوتی ہے۔ جیسا کہ فیس بک پر بڑی بڑی باتیں کرنا آسان ہوتا ہے، جبکہ زمینی حقائق جاننا اور بڑی بڑی باتوں پر عمل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
آج سوچتا ہوں کہ سیدھی سادی نائیٹ فوٹوگرافی میں بھلا کیا مشکل۔ مگر تب کئی ایک تصویریں بنائیں اور جب مطلوبہ تصویر حاصل نہ کر سکا تو گھنٹہ ڈیڑھ مغزماری کرتا رہا۔ حساب لگاتا رہا کہ مجھے کیمرے کے سینسر تک زیادہ روشنی پہنچانی ہے۔ اس کے لئے سینسر کی حساسیت یعنی آئی ایس او(ISO) زیادہ کیا تو تصویر میں ذرے/دانے(Grains) بھی زیادہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا اسے ایک حد سے زیادہ نہیں کرنا۔ اپرچر زیادہ کھولا تو اس سے روشنی تو بڑھ جائے گی مگر ساتھ ہی پیش منظر اور پس منظر (Foreground/Background) دھندلا جائے گا۔ یوں اسے بھی مناسب ہی رکھنا ہو گا۔ اب دونوں یعنی آئی ایس او اور اپرچر کو مناسب رکھوں گا تو زیادہ روشنی سینسر تک نہیں پہنچ سکے گی۔ آ جا کر شٹر کی رفتار پر بات آتی ہے۔ اس کی رفتار کم کرنے یعنی شٹر کھلا رہنے کا دورانیہ بڑھانے سے روشنی تو زیادہ سینسر تک پہنچے گی مگر اس دوران کسی چیز نے حرکت کی تو وہ دھندلا جائے گی۔ ”دس یار! ایہہ تے وخت ای پے گیا۔“

Advertisements
julia rana solicitors


آخر کار حساب کتاب سے اکتا کر ژوب شہر کو دیکھنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے دماغ میں کلک ہوا اور خیال آیا کہ شہر تو ساکت ہی ہے۔ بھلا اس نے کب حرکت کرنی ہے۔ لہٰذا شٹرسپیڈ کم کرنے کا آپشن میرے پاس موجود ہے۔ آ جا کر اِکادُکا گاڑی ہی حرکت میں ہے تو شٹرسپیڈ کم کرنے سے تصویر میں گاڑیوں کی روشنیوں کی لکیریں(Trails) ہی بنیں گی اور وہ تو پیاری لگیں گی۔ فوراً کیمرے کی طرف لپکا۔ کیمرہ ٹرائی پاڈ پر لگایا، تاکہ وہ نہ ہلے، ورنہ سارا منظر ہی دھندلا جائے گا۔ پھر شٹر سپیڈ 15سیکنڈ، آئی ایس او 100 اور اپرچر f/3.5 رکھ کر بٹن دبا دیا۔ پندرہ سیکنڈ تک شٹر کھلا رہا اور سینسر نے جی بھر کر روشنی پکڑی۔ اس دوران کیمرے کو ہاتھ تک نہ لگایا، تاکہ ذرا سا بھی نہ ہلے۔ پھر کیمرہ سکرین پر جو تصویر ظاہر ہوئی، اسے دیکھ کر ایک دفعہ تو میں سکتے میں آیا اور پھر خوشی سے ناچنے لگا۔ ”میں کامیاب ہو گیا۔ میں کامیاب ہو گیا۔“
فوٹوگرافرز کو یقیناً اس پر حیرانی ہو رہی ہو گی کہ ایک عام سی تصویر بنانے پر اتنی مشکل۔ لیکن ”صاحب و صاحبہ“ وہ وقت یاد کریں کہ جب آپ فوٹوگرافر نہیں تھے یا پھر مبتدی تھے اور نائیٹ فوٹوگرافی کرتے ہوئے کبھی تصویر مکمل کالی(انڈر ایکسپوژر) بنتی تو کبھی روشنیوں کے ”شتونگڑے“ بن جاتے۔ بہرحال ژوب میں اس رات فوٹوگرافی کے حوالے سے مجھ پر کئی ایک تصورات(Concepts) واضح ہوئے اور میں اپنا پہلا مناسب سا ”نظارۂ شب“ پکڑنے میں کامیاب ہوا۔ گویا ژوب ہی وہ شہر ہے کہ جہاں میں نے زندگی میں پہلی بار ڈی ایس ایل آر کیمرے سے ”نائیٹ فوٹوگرافی“ کی کوشش کی اور اس کوشش سے ہی نظارۂ شب بنانا آیا۔ اسی مغزماری کی بدولت کچھ دن بعد کوئٹہ شہر کا نظارۂ شب بھی بنا پایا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب جگ مگ کرتے شہروں اور دیگر کئی مقامات کی رات میں تصویریں بنائیں۔

Facebook Comments

ایم بلال ایم
ایم بلال ایم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اردو بلاگنگ کی بنیاد رکھی۔ آپ بیک وقت اک آئی ٹی ماہر، فوٹوگرافر، سیاح، کاروباری، کاشتکار، بلاگر اور ویب ماسٹر ہیں۔ آپ کا بنایا ہوا اردو سافٹ وئیر(پاک اردو انسٹالر) اک تحفہ ثابت ہوا۔ مکالمہ کی موجودہ سائیٹ بھی بلال نے بنائی ہے۔ www.mBILALm.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply