جعفر ایکسپریس کا ماؤں سے رشتہ ۔۔مدثر اقبال عمیر

دعائیں اور آنسو تو ماؤں کے پلو میں بندھے ہوتے ہیں ، جب انھیں لگا کہ بیٹے کو ضرورت ہے فورا ًًً سے پہلے لٹا دئیے ۔

مجھ پہ ان دونوں چیزوں کی بارش ہو رہی تھی۔
میں آج ہی کالج پہنچا تھا ۔ کچھ دیر پہلے بہن کا فون آیا کہ جعفر ایکسپریس پہ حملے کی خبر چل رہی ہے ۔اسے تسلی دی،اس کے آنسو بند کروائے کہ امی کا فون آگیا ،انھیں صرف اتنا پتہ تھا کہ جعفر ایکسپریس کو نشانہ بنایا گیا تھا یہ نہیں پتہ تھا کہ کونسی جعفر ایکسپریس؟۔
“میں اسی ٹرین میں تھا”۔میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔
“ہائے میں مر گئی”۔فون کی دوسری طرف میری ماں رونے لگی۔
“امی !میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں۔میں جیکب آباد اتر گیا تھا “انکے آنسو مجھے پریشان کر رہے تھے۔لیکن امی کہاں رکنے والی تھیں ان کی طرف سے مجھ پر دونوں چیزوں کی بارش ہورہی تھی ۔لیکن میری نظروں کے سامنے افغانستان کے رشید کی بوڑھی دادی کا چادر کی اوٹ میں چھپا چہرہ گھوم رہا تھا ۔
ماؤں کے چہرے کتنے ملتے جلتے ہوتے ہیں ۔میں نے پورے سفر میں انکا چہرہ نہیں دیکھا لیکن مجھے پورے سفر میں  یوں لگا میں اپنی ماں کے ساتھ ہوں۔

رشید،اس کی بوڑھی دادی اور اسکا دس سالہ چھوٹا بھائی حادثے کا شکار ہونے والی جعفر ایکسپریس میں ہمارے ہی کیبن میں تھے ۔ان کا تعلق افعانستان کےشہر غزنی سے تھا ۔ ان کے بہنوئی کا لاہور میں کاروبار تھا ۔وہ اپنی بہن سے ملنے پندرہ دن پہلے ہی لاہور پہنچے تھے اور اب واپس جارہے تھے۔

سفر کے شروع میں تو اس نے بتایا کہ وہ کو ئٹہ کا ہے لیکن اس کی گلابی اردو اس کے دعوے کی واضح نفی کر رہی تھی ۔میری گلابی پشتو نے اس سے سچ اگلوا ہی لیا۔

اس نے بتایا کہ اس نے بی اے کا امتحان دیا ہے ۔اس کے چھوٹے بھائی سےپوچھا کہ کونسی کلاس میں پڑھتے ہو تو اس کے سلورم(چہارم )بتانے پہ میں نے پوچھا کہ کیا وہاں بھی نرسری ،پریپ کا جھنجھٹ ہے اس نے مسکراتے ہوئے کہا جی۔

رشید بڑے محتاط انداز میں گفتگو کر رہا تھا ۔اس کا زیادہ تر وقت موبائل میں فیس بک کی اسکرولنگ پہ ہی گزر رہا تھا۔میں نے تازہ تازہ شہاب نامہ ڈاؤن لوڈ کیا تھا ۔تعارف پڑھتے پڑھتے ایک جملے پہ میں اٹک گیا جس میں شہاب صاحب ممتاز مفتی کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ انھوں نے شہاب صاحب کو مرشد کے درجے پہ فائز کردیا ہے حالانکہ “من آنم کہ من دانم”۔

یہ” من آنم کہ من دانم”مطالعے کی رفتار میں اسپیڈ بریکر بن گیا ۔میں نے رشید سے پوچھا کہ کیا مطلب ہے ۔پہلے تو اسے سمجھ نہیں آئی پھر اس نے ایرانی لہجے میں من آنم اور من دانم کہہ کر مجھے سمجھایا ۔جس کی سچ پوچھیں تو مجھے سمجھ نہیں آئی۔ اس نے بتایا کہ افغانستان میں فارسی زیادہ سمجھی جاتی ہے میں نے پوچھا کہ کیا سرکاری زبان بھی فارسی ہے تو اس نے بتایا کہ پشتو اور فارسی دونوں ۔فارسی اکثریت والے علاقوں میں فارسی اور پشتو اکثریت علاقوں میں پشتو۔

رشید جس اسٹیشن پہ اترتا تو اماں چھوٹے کو پیچھے بھجوا دیتی ۔وہ اسے لے کر آجاتا ۔ملتان میں اس نے دیر کردی تو اماں نے مجھے کہا “زوئے تا اوگورا”(بیٹا !آپ جاکر دیکھو)۔ماوں کی پریشانیاں بھی سانجھی ہی ہوتی ہیں ۔

ملتان کے بعد رشید نے اپنی طرف چادر لگادی ۔انھوں نے چادر کے پیچھے کھانا کھایا۔ لیکن کھانے کے بعد بھی اس نے وہ چادر نہیں ہٹائی شاید اماں نے سونا ہوگا ۔چھوٹے نے مجھ سے کہا کہ یہ جو آپکا مصلہ ہے یہ دیجئے گا ماں نے تکیے کے طور پر استعمال میں لانا ہے ۔میرے لئے اعزاز کی بات تھی ۔

صبح ساڑھے چھ بجے ہم جیکب آباد پہنچے تو رشید جاگ چکا تھا اس نے پوچھا کہ “یہاں کتنی دیر رکے گی؟” ۔میں نے جب بتایا کہ” پورے دو گھنٹے” تو اس نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیوں؟

” سکیورٹی کے لئے ۔ ٹرین کو کوئی حادثہ نہ ہو جائے ۔اس پورے ٹریک کو چیک کیا جاتا ہے ۔پھر ٹرین کو چلنے کی اجازت دی جاتی ہے”۔میں نے بیگ میں سامان ٹھونستے ہوئے کہا۔

اس کے چہرے پہ پریشانی امنڈ آئی ۔میرے لئے یہ تاثرات عام تھے ۔جعفر ایکسپریس سے پہلی دفعہ کوئٹہ جانے والے کو جب بھی بتایا جاتا ہے تو اسکے چہرے کی یہی کیفیت ہو جاتی ہے ۔لیکن مجھے اطمینان بھی تھا کہ اسکا سفر انشاء اللہ خیریت سے گزرے گا۔اور وہ بحفاظت کوئٹہ پہنچ جائے گا ۔

لیکن وہ سفر خیریت سے نہیں گزرا۔جعفر ایکسپریس کو پھر نشانہ بنا لیا گیا۔آخری اطلاعات آنے تک پانچ افراد اللہ کو پیارے ہوگئے ۔جن میں دو بچیاں بھی شامل ہیں ۔ میری ماں تو میرے بچ جانے پہ صدقہ دے رہی ہے۔ ان پانچ کی ماؤں پہ کیا بیت رہی ہوگی ۔اس ٹرین میں سفر کرنے والوں کی ماوں نے آج کا دن کیسے گزارا ہوگا ۔رشید نہ جانے کس حال میں ہوگا ۔اس بوڑھی اماں کے آنسو تو نہیں تھم رہے ہوں گے۔شاید انھیں چہرہ چھپانے کا ہوش بھی رہا ہو یا نہیں ۔اس کا دس سالہ پوتا اس خوف کو کیسے بھلا پائے گا ۔

آج یا کل ٹریک صاف ہو جائے گا ۔جعفر ایکسپریس پھر چل پڑے گی ۔شاید اسے بھی عادت ہوگئی ہے حادثوں کے خوف میں سفر کرنے کی ویسے ہی جیسے اس ٹرین پہ سفر کرنے والوں کی ماؤں کو عادت ہوگئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماؤں کا جعفر ایکسپریس سے کوئی عجیب سا ہی رشتہ ہے۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply