پشاور کے غنڈے اور کراچی کی روبی۔۔۔۔۔عارف خٹک

رات کو محترمہ ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے اکبر الہ آبادی کے حوالے سے منعقد کئے گئے ایک پروگرام میں مُجھے اور عابد آفریدی کو مدعو کیا۔ حالانکہ جامعہ بنوریہ سے سلمان ربانی صاحب کی دعوت تھی مگر سلمان ربانی بھائی سے اس لئے کٹ گئے کہ مولویوں کے بھیس میں کوئی اور بھی تھا۔ سوچا مولویوں کی اس محفل سے خواتین کی یہ محفل ہزار درجے افضل ہے۔

ہم ساڑھے چھ بجے پہنچ گئے۔ ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اصغر خان صاحب اور ممتاز سینئر صحافی محمود شام صاحب سٹیج پر جلوہ افروز تھے۔ یہ الگ بات کہ ان کی متلاشی نظریں کسی حسینہ کو ڈُھونڈ رہی تھیں۔کیا روح پرور محفل تھی۔ ساٹھ عدد مرد عمر میں ایک دوسرے کےساتھ ٹکر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اگر محمود شام صاحب اسی کا ہندسہ کراس کرنے پر بضد تھے،تو ڈاکٹر اصغر خان صاحب کی سوئی اکیاسی پر رُکی ہوئی تھی۔ اٹھاون مردوں میں صرف ایک بندہ جس سے اگر کسی خاتون کو خطرہ ہوسکتا تھا،تو وہ تھے جناب مجید رحمانی صاحب جو پچھلے پانچ سال سے پینتالیس کا ہندسہ پار کرنے پر راضی ہی نہیں ہوپا رہے۔ اچانک محفل میں کھلبلی مچ گئی،کہ حسینوں کا جھرمٹ ہال میں داخل ہوا۔ سب مردوں کی نظریں ان پر جیسے جم کر رہ گیئں۔ ماشاءاللہ سے تیس چالیس خواتین تھیں۔ جن کی عمریں ابھی پچیس پر رکی ہوئی تھیں۔ حالانکہ ساری کی ساری درس و تدریس سے ریٹائر ہوکر پچھلے پانچ سالوں سے اردو کی خدمتیں کررہی ہیں۔

میں نےعابد کو دیکھا اور عابد نے مُجھے۔ میں نے  عابد سے کہا کہ جناب اس محفل میں سب سے نوجوان اور کم عمر ترین میں آج خود کو محسوس کررہا ہوں۔ عابد نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا کہ لالہ آج مجھے چوسنی کی شدید طلب ہورہی ہے۔
صفدر چیمہ صاحب بھی ایک خاتون کے پاس بیٹھ کر ممتا سمیٹ رہے تھے،کہ ہمیں دیکھ کر ہمارے پاس آگئے اور پدرانہ محبت ہم پر نچھاور کرنے لگ گئے۔
ماشاءاللہ محفل جاندار تھی۔اگر جسم بوڑھے تھے تو جذبے جوان تھے۔ ہم نے ہر مقرر کے منہ سے عورت طلبی اور ہر خاتون مقرر کی زبان سے مردطلبی سنی۔

محفل ختم ہونے کے بعد ہم کسی ہم عمر شاعرہ کی تاک میں تھے کہ کم از کم ایک سیلفی لے کر اپنے فالوورز پر دھاک بٹھانے کا بہانہ مل جائے،کہ ہم بھی ادب والے اور پڑھے لکھے ہیں۔ حالانکہ ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ صاحبہ نے ہم سے بارہا کہا، کہ طنزومزاح کے حوالے سے ہم نے اپنا کچھ سنانا ہے۔اور بار بار ہم شرمندہ ہوکر انکار کرتے رہے   کہ اب ہم جیسے بچے ان بزرگ ہستیوں کو کیا سُنائیں گے۔کیونکہ اس عمر میں ہمارے مضامین ان کےلئے سُننا ایسے ہی ہوگا۔جیسے آپ کسی پانچ سالہ بچے کو شادی کے نقصانات پر لیکچر دیں۔

ہم نے دوران محفل ایک خاتون کے مُنہ سے یہ بھی سنا،کہ عارف خٹک اور عابد آفریدی دونوں غنڈے اور موالی لگ رہے ہیں کہ بڑی بڑی مونچھیں اور سرخ آنکھیں ادب والوں کی نہیں ہوتیں ۔ اب ان کو ہم کیا بتاتے کہ جس وقت آپ لوگ اپنے بچوں کو اسکول کا یونیفارم پہنا کر حصول علم کیلئے اسکول بھیج دیتے تھے۔ اس وقت دس سالہ عابد آفریدی کلاشنکوف لےکر اپنے پر دادا کے قاتل کو ڈھونڈنے نکلا کرتا تھا۔ اور ہم وی سی آر پر مسرت شاہین کا “گرم مسالہ” لگا کر خواتین کے اخلاق و کردار کا تجزیہ کرتے تھے۔

ہم دونوں مایوسی کےساتھ محفل چھوڑ کر نکل ہی رہے تھے کہ معروف شاعرہ روبینہ ممتاز نے پوری محفل میں ہم دونوں کو پڑھا لکھا سمجھ کر اپنی کتاب “روبی” ہمارے ہاتھ میں تھما دی۔ محترمہ روبینہ روبی اپنے نام اور کتاب کی طرح خوبصورت ہیں۔ ان کے کچھ اشعار سن کر واقعی اچھا لگا کہ زندگی سے بھرپور اس لڑکی نے زندگی کا مطلب جانا ہے۔ حالانکہ شاعر اور شعر دونوں سے اپنا چھتیس کا آنکڑا ہے۔ میں اس مضمون کی وساطت سے روبی سے درخواست کروں گا کہ ہم جیسے ادبی غنڈوں کو وہ اگر اپنے چرنوں میں جگہ دے دیں تاکہ ہم بھی اردو ادب کی کچھ خدمت کرسکیں ،ورنہ ادھر پشاور والوں نے پشتو زبان کی عزت کی خاطر ہمیں کراچی بدر کیا ہوا ہے۔

روبی کی اور تعریف کیا کروں بس ملا کو مخاطب کیا ہے اور ان کی محبت میں دیسی لبرلز کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ۔۔۔
“ظلم کی داستاں کو بُھول گئے
اپنی دھرتی، اپنی ماں کو بُھول گئے
اپنے اپنے مفاد کی خاطر
اپنے ہی گلستان کو بھول گئے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محترمہ روبینہ ممتاز روبی کا اس قوم پر احسان عظیم ہے   کہ پہاڑوں کے دو ادبی غنڈے واپس ادب کے میدان میں آگئے۔ورنہ اس بار عابد نے پھر کلاشنکوف اٹھاکر پر دادا کے قاتل کو ڈھونڈنے نکلنا تھا اور میں نے کرک جاکر جانوروں کے  حقوق کی پامالی کر دینی تھی۔
سب کہو شکریہ روبی!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پشاور کے غنڈے اور کراچی کی روبی۔۔۔۔۔عارف خٹک

  1. عارف خٹک
    سوشل میڈیا کے افق پر چمکنے والا منفرد اسلوب کا لکھاری۔
    ندرت خیال اور برجستگی کے ساتھ چونکا دینے والی تحریر۔

Leave a Reply