• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سانحہ نیوزی لینڈاور وہائٹ سپرمیسی۔۔۔۔۔۔عمیر فاروق

سانحہ نیوزی لینڈاور وہائٹ سپرمیسی۔۔۔۔۔۔عمیر فاروق

نیوزی لینڈ کے اندوہناک سانحہ نے جہاں دنیا کو ایک بار پھر سے وہائٹ سپرمیسی اور نیو نازی ازم کی دہشتناکی سے آگاہ کیا وہیں ہمارے مُلا اور دیسی لبرل کے فکری افلاس کی قلعی ایک بار پھر سے کھول دی۔

لگتا ہے کہ دونوں آپس میں لڑتے لڑتے کنویں کے مینڈک بن چکے ہیں جنہیں باہر کی دنیا کے زمینی حقائق کی کچھ خبر نہیں۔

مُلا کا ردعمل سادہ تھا کیونکہ اس کے فلسفہ کے مطابق دنیا میں ہر لڑائی جھگڑے کی وجہ مذہب ہی ہے۔ اگر مسلمان کسی پہ حملہ کرتا ہے تو لازماً مذہب کی وجہ سے کرتا ہوگا لہذا قابل تحسین ہوا اور اگر کوئی مسلمان پہ حملہ کرے تو اس کی وجہ بھی لازماً مذہب ہوگی لہذا اس کی مذہبی شناخت دیکھ کر فیصلہ کردو اگر عیسائی نکلا تو عیسائی مذہبی دہشت گرد ہوگا۔

اللہ اللہ خیر صلا اس سے اوپر دماغ کو تکلیف دینا ہی کیوں؟

لیکن لبرل تو خود کو تعقل اور فکر کا علمبردار گردانتا تھا وہ اتنا پسماندہ کیوں رہ گیا کہ اس واقعہ کے پیچھے موجود نظریاتی سوچ پہ مدلل بحث نہ کر سکا ؟

ہمارے کسی لبرل دانشور نے اس سانحہ کے پیچھے موجود وہائٹ سپرمیسی یا نیو نازی ازم پہ بحث نہ کی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگوں کی بہت سی تعداد یہ سمجھ بیٹھی کہ شائد عیسائی مذہبی دہشت گردی نوع کی بھی کوئی چیز موجود ہوتی ہوگی۔

یا تو ہمارا لبرل کہلانے والا دانشور واقعی محدود سے مطالعہ اور سوچ کا مالک ہے یا وہ خود حقائق کو جان بوجھ کے چھپانے کا مرتکب ہوا۔

پہلے تو سادہ الفاظ میں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہائٹ سپرمیسی جسے بسا اوقات نیو نازی ازم بھی کہا جاتا ہے وہ بذات خود کیا ہے؟

سترہویں اور اٹھاریوں صدی کے یورپ میں جب قومی ریاستوں کا ظہور ہورہا تھا تو یورپ کی ہر ریاست کی اپنی علیحدہ قومی زبان اور ثقافت موجود تھی جو خود ان ریاستوں کی ہی دین تھی کیونکہ یہ متعلقہ زبانیں یا ثقافتیں ایک ریاست کے اندر صدیوں تک مشترکہ طور پہ رہنے کی وجہ سے ہی ارتقا پذیر ہوئی تھیں۔

لہذا قومیتی نظریہ جات بھی قدرتی طور پہ لسان اور ثقافت کی بنیاد پہ پیش کئے گئے یا تراشے گئے۔

انیسویں صدی کا نصف آخر ان قومیتی نظریات کے لئے ایک دھچکے کا عہد بھی اس لئے تھا کہ تب تک یورپی اقوام ساری دنیا پہ حکومت کررہی تھیں اور انکا سامنا باقی دنیا سے تھا جہاں ایسے قومیتی نظریات موجود ہی نہ تھے ماسوائے برما، ایران، چین اور جاپان کے۔ اس عہد میں یورپ کی ترقی اور باقی دنیا کی پسماندگی کے تقابل نے سفید فام یورپی نسل کی عظمت کا نظریہ پیش  کیا ،جسے وہائٹ سپرمیسی کہتے ہیں ۔ تب یورپ اپنا عروج حتمی سمجھ رہا تھا۔ ہٹلر کے دور میں نازی ازم کا فلسفہ سامنے آیا جس کے مطابق قومیت کی تشکیل صرف مشترکہ لسان، نسل یا ثقافت کی بنیاد پہ ہی قومیت کی تشکیل یا تعریف ممکن ہے اور سوشلزم تبھی لایا جاسکتا ہے جب ایک زبان ، نسل یا ثقافت پہ مبنی ریاست کو تشکیل دے دیا جائے۔

برسبیل تذکرہ یہ وہی قومیتی نظریہ ہے جس کے ہمارے ہاں موجود قومیت پرست قائل ہیں یہ نازی ہی ہیں۔

یہ وقت یورپ میں وہائٹ سپر میسی کے نظریہ کے لئے خوف کا دور تھا کیونکہ تب تک واضح ہوچکا تھا کہ یورپ کی دنیا پہ وہ حکمرانی اور گرفت ہمیشہ باقی نہ رہے گی۔

اس دور میں یورپ میں وہائٹ سپرمیسی ، جو نازی ازم میں ڈھل چکی تھی کا کامیاب مقابلہ لبرلزم نے کیا ۔لبرلز کا قومیتی نظریہ لسان ، نسل یا ثقافت سے بالاتر ہوکر ریاستی قومیتی نظریہ تھا کہ ریاست کا ہر شہری قوم کا حصہ ہے۔

مغرب میں جہاں جہاں خوف کی لہر آتی ہے وہاں وہاں وہائٹ سپرمیسی یا نیو نازی ازم کی لہر آجاتی ہے۔

خوف کی بنیاد اور وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ شدت پسند سفید فام قومیت پرست جو خود عیسائی ہے کو بھی سیاہ فام عیسائی کو برابر کے حقوق ملنے سے خوف ہوسکتا ہے۔ کیونکہ مذہب ایک ہونے کے باوجود وہ اس کو گھٹیا ثقافت اور لسان کا مالک گردانتا ہے۔ پہلے یہی ہوتا رہا۔۔۔۔

تازہ ترین مظہر اسلاموفوبیا ہے کیونکہ مسلمانوں کی ہجرت سے یہ خوف ہے کہ مسلم ثقافت انکی یورپی ثقافت پہ اثرانداز نہ ہوجائے۔ یہ بعنیہ وہی مظہر ہے جو ہمارے ہاں کے قومیت پرست میں موجود ہے کہ دوسرے صوبے کے تارکین وطن کی وجہ سے ان کی اعلی ثقافت مجروح نہ ہوجائے لوگ ڈربی ہیٹ یا سرخ ٹوپی پہننا ہی نہ چھوڑ جائیں لہذا زیادہ سے زیادہ ڈربی ہیٹ یا سرخ ٹوپی پہنی جائے وغیرہ۔

جب یہ سوچ شدت اختیار کرتی ہے تو حصول روزگار کے لئے باہر سے آنے والوں کے قتل عام پہ مجبور کرتی ہے جو برینٹن ٹارینٹ نے نیوزی لینڈ میں بھی کیا جو بلوچ قومیت پرست بلوچستان میں کرتے آئے۔۔۔وغیرہ وغیرہ،

سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمارا لبرل دانشور اتنے بنیادی حقائق بھی نہیں جانتا کہ سانحہ نیوزی لینڈ پہ کھل کر  سنجیدہ ردعمل بھی نہ دے سکا کہ لوگوں کو معاملے کی نوعیت کا علم ہو؟

شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ لبرلزم کا نعرہ تو وہ لگاتا رہا لیکن بہت عرصہ قبل وہ پھسل چکا تھا وہ کسی وجہ سے نازی فلسفہ کا قائل ہوچکا تھا ردعمل کا شکار ہوکر وہ یہ نتیجہ اخذ کرچکا تھا کہ قومیت کی بنیاد لسان ، نسل یا ثقافت ہی ہے۔ ہمارے ہاں موجود قومیت پرست جو اتفاق سے سوشلزم کا بھی نعرہ لگاتے ہیں دوسرے لفظوں میں  نیشنلسٹ سوشلسٹ یا نازی ہیں ۔ انکی ترجمانی کا ٹھیکہ بھی لے چکا تھا اور یوں آج اکیسیوں صدی میں بھی وہ دینا میں نازی ازم کا واحد ترجمان تھا تو خود اپنی زبان سے کس طرح کہہ دے کہ یہ قتل عام غلط تھا ؟

برینٹن ٹارینٹ، نیوزی لینڈ کے قتل عام کے ذمہ دار کے مینی فیسٹو کا ابتدایہ غور سے پڑھئے جہاں وہ اس قتل عام کی وجوہات بتاتا ہے۔

To most of all show the invaders that our lands will never be their lands,our homelands are our own,as long as a white man still lives.

( یہ قتل عام) قابض کو یہ بتانے کے لئے ضروری تھا کہ ہماری زمینیں کبھی ان ( مہاجرین ، آباد کار ، آنے والوں کی نہیں ہوسکتیں، ہماری زمینیں صرف ہماری ہیں جب تک ایک بھی سفید فام سرمچار زندہ ہے

یہ مینی فیسٹو حیرت انگیز طور پہ ہمارے قومیت پرست چاہے سندھی ہو یا بلوچ یا پشتون یا کشمیری یا سرائیکی یا پنجابی قومیت پرست سے مشترک ہے۔

اب خود سوچیئے کہ جس فلسفہ کا وکیل اور شارح وہ خود بنا رہا آج کیسے مان لے کہ اس کا نظریہ ایک دہشت گردانہ نظریہ تھا الظواہری کی تکفیریت کی طرح ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ جھوٹے طور پہ دعوی کرتا تھا کہ اس کا نظریہ امن پسند نظریہ ہے حالانکہ اسی نظریہ نے دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسان قتل کئے۔اور عالمی لبرل کو یہ سب پتہ چل جائے کہ دیسی لبرل ، لبرلزم کے نام پہ نازی ازم پھیلاتا رہا تو سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔۔یہاں لبرلزم کے نام پہ بھی سستی چورن فروشی ہوئی!

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply