• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نمک لیتے ہو, پانی بند کرتے ہو, شرم تم کو مگر نہیں آتی, مودی جی—- غیور شاہ ترمذی

نمک لیتے ہو, پانی بند کرتے ہو, شرم تم کو مگر نہیں آتی, مودی جی—- غیور شاہ ترمذی

معروف مصنفہ  بانو قدسیہ نے اپنے شاہکار ناول “راجہ گدھ” میں لکھا ہے کہ پاکستان میں سالٹ رینج والا وہ علاقہ جہاں آج کل نمک کے پہاڑ واقع ہیں, آج سے کروڑوں سال پہلے سمندر کی تہہ میں ڈوبا ہوا تھا۔ سمندر کے اس نمکین پانی کے ذخیرے, پانی کے رساؤ اور بخارات کے عمل کے نتیجے میں تبدیل ہوجانے کے اس عمل کے نتیجے میں یہ نمکین چٹانیں معرض وجود میں آگئیں۔ بعد میں سمندر کا وجود تو ختم ہوگیا لیکن نمک کا یہ ذخیرہ پہاڑوں کے اندر اور زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں محفوظ ہوگیا- ماہرین ارضیات کی تحقیقات کی رو سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ کروڑوں, اربوں سال پہلے پوٹھوہار کا علاقہ سمندری ساحل تھا- یہی وہ وادیاں اور پہاڑ ہیں جن کے اندر سے ڈائنوسارز کی طرح کے جانور وں ،سمندری مخلوق کے فوسلز اور ہڈیاں ملی تھیں۔ یہی وہ زمین ہے جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب نے جنم لیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ بانو قدسیہ مرحومہ نے 1981ء میں چھپے اپنے اس ناول کا یہ حصہ ارضیات کے بارے اسی تحقیق سے لیا ہو-

بانو قدسیہ نے راجہ گدھ میں نہیں لکھا مگر ہم یہ بھی بتا دیں کہ کھیوڑہ کی نمک کانوں کے علاوہ یہ وہ زمین ہے جہاں ہندو دھرم چند اشلوکوں سے نکل کرایک دھرم اور تمدن بن گیا۔ اسی جگہ پر ہندوؤں کے ایک اہم تہوار شیوراتری کی وجوہات پیدا ہوئیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں شیو کا ایک آنسو موجود ہے- ہندو مذہب کے بنیادی اوتار یا بھگوان شیو دیوتا بھی یہیں رہا کرتے تھے۔ شیو جی اور ستی دیوی میں بے انتہامحبت تھی۔ بس سمجھئے کہ جسم دو تھے لیکن جان ایک۔ مہارانی تھی بھی بہت عقل مند حکومت کے سارے معاملات میں شریک ہوتیں۔ پھر ایسا ہوا کہ دیوی کو برہما نے اپنے پاس بلالیا۔ شیو مہاراج کی تو دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔ بس مہارانی کی یاد تھی اور شیو جی۔ پھر ایک دن مہاراجہ شیو اپنی پتنی کی یاد میں اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے بڑے بڑے دو آنسو نمودار ہوئے جن میں سے ایک یہاں کٹاس (ست گرہ) میں گرا اور دوسرا راجھستان میں۔ جو یہاں کٹاس میں گرا اُس آنسو سے یہ جھیل بن گئی۔ اس جھیل کو آنسوؤں کی ندی بھی کہا جاتا ہے۔

اسی واقعہ کی وجہ سے اس راج کانام کٹاکشا پڑ گیا۔ سنسکرت میں اس لفظ کا مطلب ہے برساتی آنکھیں۔ مہابھارت میں اس جھیل کو محبت کی جھیل بھی کہا گیا ہے- اس قدیم حکایت کی وجہ سے آج بھی انڈیا میں کھیوڑہ کے اس نمک کو بڑا متبرک سمجھا جاتا ہے اور کھیوڑہ کے قریب کٹاس کے مندر میں آنے والے زائرین خاص طور پر کھیوڑہ کا نمک تبرک کے طور پر اپنے ساتھ ضرور لے جاتے ہیں- ماہرین معدنیات و آثار قدیمہ کے مطابق بھی نمک کے ان پہاڑوں کا تعلق زمین کے قدیم ترین دور یعنی پری کیمبرین دور سے جوڑا جاتا ہے- یعنی ہم یہاں ساڑھے 3 ارب سے 5 ارب سال تک کی پرانی بات کر رہے ہیں-

اس خطہ ارض کے باسیوں کی زندگی اور خوراک میں کھیوڑہ والے نمک کے استعمال کے بارے میں کئی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں- تاہم ایک روایت جس پر بڑی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے, وہ یہ ہے کہ سکندر اعظم (322) قبل مسیح میں کوہستان نمک کے مشہور درہ نندنہ سے گزر کر کھیوڑہ پہنچا تھا اور اس نے راجا پورس سے لڑنے کے لئے کھیوڑہ میں ہی پڑاؤ ڈال دیا- سکندر کی فوجیں کھیوڑہ کے پہاڑوں میں چھپی ہوئی تھیں جبکہ راجہ پورس کی فوجیں پنڈ دادن خان میں مقابلے کی تیاریوں میں مشغول تھیں- اس اثناء میں سکندر اعظم کا گھوڑا اور کچھ دیگر مویشی بیمار پڑ گئے اور انہو ں نے غار کی دیواروں کو چاٹنا شروع کیا جس سے ان کے معدے ٹھیک ہوگئے- اس پر سکندر اور اس کی فوجوں کو کچھ کرید ہوئی اور انہوں نے بھی دیواروں کو چکھ کر دیکھا تو انکشاف ہوا کہ یہ نمک ہے- جس کے بعد کھیوڑہ سے نمک کو خوراک کے جزو اور بیماریوں کے علاج کے لئے حاصل کرنا شروع کر دیا گیا-

گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندوؤں کو شکست دے کر جنجوعہ خاندان کو حکمران بنادیا- مغلیہ دور میں نمک کی یہ کانیں شاہی حکومت کی تحویل میں آگئیں- شہنشاہ اکبر کے دور میں لکھی جانے والی تاریخ کی اہم کتاب ’’آئین اکبری‘‘ میں یہاں سے حاصل ہونے والے نمک کو بیرون ملک برآمد کرنے کا تذکرہ موجود ہے- پنجاب میں سکھ دور میں حکومت نمک برآمد کرکے کثیر منافع حاصل کرتی رہی ہیں۔

کھیوڑہ میں سائنسی بنیادوں پرنمک کی کان کنی کا آغاز انگریز دور حکومت میں 1849ء میں شروع ہوا- 1872ء میں کان کے اندر سے نمک باہر لانے کیلئے چھوٹی سطح کی ریلوے لائن بچھائی گئی اور نمک سے بھرے ہوئے ڈبوں کے آگے گھوڑے جتے ہوئے ہوتے تھے- 1925ء میں بجلی سے چلنے والے انجن سے نمک کے کنٹینر باہر لائے جانے لگے۔ اس طرح نمک کو کان سے باہر لانا قدرے آسان ہوگیا۔ پہلے کھدائی خود ساختہ دستی اوزاروں سے کی جاتی تھی مگر اب بجلی کی مشینوں کے ذریعے کھدائی اور کٹائی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے- انگریز دور میں نمک کی کانوں کا ہیڈ کوارٹر دہلی میں تھا اور وہاں سے انگریز افسر کھیوڑہ آ کر دورے کیا کرتے تھے-

اس کان کے اندر مختلف رنگوں اور شیڈز والا نمک ہے- کہیں یہ نمک صاف اور شفاف ہے تو کہیں سفید اور کہیں مٹیالا اور کہیں یہ نمک سرخی مائل ہے- کھانے اور معیار کے لحاظ سے سرخی مائل نمک کو سرفہرست سمجھا جاتا ہے- کھیوڑہ کی نمک کی کانوں سے روزانہ قریباً 20 ہزار من نمک نکالا جاتا ہے اور تین شفٹوں میں قریباً اڑھائی ہزار مزدور کام کرتے ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

کھیوڑہ سے 360 ڈالر فی ٹن کے ریٹ پر نمک برآمد بھی کیا جاتا ہے جس میں مذہبی وجوہات کی بنیاد پر بھی انڈیا سب سے بڑا خریدار ہے – حالیہ پاک انڈیا کشیدگی کے بعد مودی حکومت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کے تحت 1996ء میں پاکستان کو دیا گیا ’موسٹ فیورڈ نیشن‘ (ایم ایف این) یعنی تجارت کے لیے سب سے پسندیدہ ملک کا رتبہ واپس لے لیا ہے۔ انڈیا کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے سنیچر کو ٹویٹ کی کہ اس فیصلے کے بعد ’فوری طور پر پاکستان سے انڈیا برآمد ہونے والی تمام اشیا پر کسٹم ڈیوٹی 200 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے مگر پاکستان سے نمک کی درآمدات پر اب بھی وہی پرانا  ڈیوٹی فری ٹیرف ہی لاگو ہے- شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انڈیا میں نمک کی کانیں نہیں ہیں اور کھیوڑہ کا نمک ان کی اکثریتی ہندو آبادی کے لئے متبرک سمجھا جاتا ہے, لہذا مودی سرکار نے پاکستان کو برآمد کی جانے والی جان بچانے والی ادویات پر تو پابندی لگا دی مگر پاکستان سے نمک درآمد کو پرانے ڈیوٹی فری ٹیرف پر ہی برقرار رکھا ہے- سنا ہے کہ انڈیا نے تقسیم کے وقت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا تھا کہ پاکستان ہر صورت میں بھارت کو نمک فراہم کرتا رہے گا چاہے جنگ کی صوت حال ہو یا پھر امن ہو، نمک کی ترسیل بند نہیں کی جائے گی۔ پاکستان نے تو انڈیا کو نمک کی ترسیل بند نہیں کی مگر ہمارے ارباب اختیاران کو کم از کم یہ تو انڈیا کو بتانا چاہیے  کہ نمک کی طرح کا ہی ایک اور معاہدہ بھی طے ہوا تھا کہ بھارت کبھی بھی پاکستان کا پانی نہیں روکے گا لیکن انڈیا نے پاکستانی پانی کے راستوں میں ڈیم بنا کر پاکستانی پانی روکا ہوا ہے۔ کیا انڈین حکومت کو خواجہ آصف کے مشہور تکیہ کلام کا نہیں پتہ “کچھ شرم ہوتی ہے, کچھ حیا ہوتی ہے”-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply