اپنے خاوند کو کہو مجھے اکیلا چھوڑ دے

” کیرن لوشنر “

ایک عورت کی کہانی جسے احساس ہو گیا کہ اندر کی بیوفائی انسان کو عفوو درگزر کرنے والا بنا دیتی ہے۔

ایک فیس بک میسج جو مجھے اپنے پارٹنر  ڈیوڈ  اور نوجوان بیٹے کے ساتھ چھٹی  مناتے وقت موصول ہوا، نے مجھے آن لائن ڈیٹنگ کی طرف  کھینچ لیا ۔ ساحل پر جاتے ہوئے ہم کار میں گیس بھروا رہے تھے جب میں نے میسج دیکھا ۔

یہ میسج ایک نا معلوم شخص کی طرف سے تھا جس میں ایک سادہ سا مطالبہ کیا گیا تھا: “اپنے شوہر سے کہو کہ مجھے اکیلا چھوڑ دے۔”

مجھے ایک عجیب سا دھچکا محسوس ہوا: میں اس شخص کے نام سے ناواقف تھی نہ ہی میں نے ڈیوڈ سے شادی کی تھی۔ کیا یہ غلطی تھی؟

پھر یہ بات میری سمجھ میں آ گئی ۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور مجھے پہلی بار زندگی کا سب سے بڑا خوف محسوس ہوا وہ بھی ایسے وقت مین جب ہم اپنے بیٹے کے ساتھ چھٹیاں منانے جا رہے تھے۔

کالج کا مضمون مقابلہ

یہ میسج ایک عورت کی طرف سے تھا  جو گھریلو نام اس نے استعمال کیا وہ  مردوں کا نام بھی ہوتا ہے، اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ڈیوڈ کے ساتھ 2 سال قبل ملاقات کے بعد سے آن لائن تعلقات قائم ہیں۔ اس کے پیغام سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ان کے رشتے  میں کوئی مشکل  پیش آ رہی تھی۔

جب ڈیوڈ گاڑی کے پیچھے آیا تو میں نے خاموشی سے اپنا فون اسے پکڑایا۔

جب اس نے میسج پڑھا تو وہ اپنی جگہ پر جم گیا۔ “یہ اتنا برا نہیں ہے جتنا دکھائی دیتا ہے،” اس نے آہستہ سے کہا۔

نہیں، یہ اس سے بھی بد تر ہے۔

میں جانتی ہوں، کیوں کہ یہی الفاظ میں نے 15 سال قبل ایک شخص سے کہے تھے جس شخص سے میری دوستی تھی۔ میں نے اسے دھوکہ دیا تھا اور پھر اس سے بھی بدتر یہ کہ اس بات سے انکار کرنے کی کوشش کی تھی۔آج کے دن تک وہ جان بوجھ کر میرے ساتھ کچھ نہیں کرنا چاہتا اور وہ ابھی تک میرے ماضی کا اہم شخص ہےجس کے ساتھ میرا کوئی رابطہ نہیں۔اگرچہ اس کا میرے بارے میں خاموش فیصلہ اس سزا کے مقابلے میں پھیکا پڑ جاتا ہے جو میں نے خود غرض اور کمزور انسان جو دوسروں کو تکلیف پہنچاتا ہے بنتے ہوئے خودکو دی۔ مجھے خود کو معاف کرنے میں عرصہ لگ گیا۔

ڈیوڈ اور میں نے مشورہ کرنے کی کوشش کی لیکن میرے لیے ہمارے درمیان رشتے کی مضبوطی اس دن ختم ہو گئی۔ ایک پختہ احساس کے بعد کہ ہماری کوششیں بے کار تھیں، میں نے ایک ساتھ رہنے کے لیے اس افسانے کو  بھولنے کا فیصلہ کر لیا کہ  ہمیں اپنے بچے کی خاطر اکٹھا رہنا چاہیے۔ اور اس کے بجائے میں نے ہمارے رشتے کو ختم کرنے کے منصوبے پر توجہ دی۔

ڈیوڈ میرے فیصلوں کو واپس لینے کے انکار کی وجہ سے پریشان دکھائی دیتا تھا۔ پھر اس نے انتقام کے طور پر ڈیٹنگ شروع کر دی جیسے متبادل حل اس کا واحد ہدف ہو۔ ایک ماہ کے اندر وہ باقاعدگی کے ساتھ  کسی اور کے ساتھ ڈیٹنگ کرنے لگا تھا ۔

اس کے تھوڑے عرصہ بعد میں نے 11 سال کی لا تعلقی کے بعد دوبارہ سے ڈیٹنگ کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیکنالوجی نے  بہت کچھ بدل دیا تھا ، اور میں حیران تھی کہ سمارٹ فون سے صرف ایک سوائپ سے بندہ میسجز کر سکتا تھا۔ لیکن معاملہ وہی تھا کہ انسانوں کو کتاب کے کور کی طرح اوپر سے دیکھ کر اندازے لگائے جاتے تھے۔

میں نے فیصلہ کیا کہ میرا مقصد صرف نئے لوگوں سے ملنا ہے۔  میری لمبے عرصے کے ساتھی کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ میں تفریح چاہتی تھی اور میں توجہ چاہتی تھی، مرد کی توجہ، جنسی توجہ، جو اس وقت سے مجھے میسر نہیں تھی جب سے ہمارا بیٹا پیدا ہوا تھا۔

جلد ہی میں ایک مرد کے ساتھ منسلک ہو گئی اور ہمارا رابطہ جلد ہی جنسی نوعیت تک پہنچ گیا باوجود اس کے کہ میں نے کہا تھا کہ مجھے جنسیت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

جینز نے بتایا کہ وہ ناروے میں رہتا تھا، 6 ماہ سے  اپنی بیوی سے علیحدہ ہو چکا تھا ۔ کام کے لیے اسے بہت سفر کرنا پڑتا  اور ہر دو ماہ کے دوران اسے  میرے علاقے میں  آنا پڑتا تھا ۔ اصل میں وہ اس وقت یہاں تھا، اور وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ لیکن میں موجود نہیں تھی اور اس نے جہاز پر چلے جانا تھا۔

ہم رابطے میں رہے اور جلد ہی تصویروں  اور محبت کے پیغامات کا تبادلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ میں خوبصورت، پر کشش اور  پسندیدہ تھی، یہ ایسی باتیں تھیں جو میں نے سالوں تک نہیں سنی تھیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ ہم واقعی 4000 میل ایک دوسرے سے دور تھے، فاصلے اور توقع نے ہماری خواہش کو مزید ہوا دی۔

اکثر میری ڈنر کے وقت میں اس سے بات ہوتی،اور یہ اس کے آرام کرنے کا وقت ہوتا تھا۔ ایک سے زیادہ مرتبہ میں نے برتن چوہلے پر چڑہا کر اسے میسج کرنے شروع کیے۔  ہر دو ماہ میں اس کا سفر کرنا ہمارے لیے ایک  مذاق بن گیا تھا ۔ یہ دورانیہ دو سے تین ماہ تک ہو گیا اور پھر  4 ماہ ۔ پھر ایک دن اس نے میسج کی وہ ہفتہ  بعد آنے والا ہے۔

“واقعی؟” میں نے میسج کیا۔

“واقعی، واقعی”، اس نے جواب دیا۔

اس کے پہنچنے کے بعد اس کی قربت نے جنسی خواہش کو بھڑکایا۔ اس نے تین راتوں تک قصبے میںر ہنا تھا۔ پہلی رات اس نے کام پر ساتھیوں کے ساتھ ڈنر کیا، دوسری رات ہمیں ساتھ رہنا تھا لیکن اس نے بغیر کسی وجہ کے اسے منسوخ کر دیا، اور تیسری رات بھی اس نے اس پروگرام کو منسوخ کر دیا بغیر کسی بہانے کے: “میں معافی چاہتا ہوں، لیکن میں تمہیں ملنے نہیں آ سکتا۔ میں یہ وضاحت نہیں کر سکتا کہ کیوں، میں بہت معافی چاہتا ہوں۔”

میں پریشان تھی اور حیران بھی کہ میں محسوس کر سکتی تھی کہ کسی نے مجھے کچل دیا ہو جس سے کبھی میں جسمانی طور پر نہ ملی ہوں۔ جب تم نے آن لائن اس حد تک قربت ظاہر کی  توکیا جسمانی موجودگی کوئی معنی نہیں رکھتی؟

ایک دوست کے ساتھ  یہ حالات  بیان کرتے ہوئے  ہم اس کی بیوی کی طرف جھکے کہ جان سکیں ان کا کیا اندازہ ہے۔

“شاید اس نے طلاق کے بارے میں جھوٹ بولا ہو،” اس نے کہا۔ “تم جانتی ہو زیادہ تر آن لائن مرد شادی شدہ ہوتے ہیں۔”

“ممکن ہے، ” میں نے کہا۔ میں نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ میں مردوں کی بات پر اس وقت تک  یقین کروں گی جب تک اسے مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو۔ اس کے بدلے یہ سوچ لینا کہ ہر کوئی جھوٹ بول رہا ہے، ایک مثبت رویہ نہیں لگتا خاص طور پر جب ذاتی زندگی کا نیا سفر شروع کر نا ہو۔

“اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں تو یہ ان کا انتخاب ہے،” میں نے اپنی دوست سے کہا۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے سوچا میں بیوقوف ہوں، لیکن وہ یہ بات کہنے سے باز رہی۔

جینز کے ساتھ بات چیت کچھ حاصل ہوئے بغیر ہی ختم ہو گئی۔ ایک دو مرتبہ “کیسے ہو؟” کے میسج ہفتوں کی خاموشی  توڑتے۔ ان میں سے کسی ایک کا میں نے جواب دیا، “تم کہاں ہو؟”

“یو ایس میں”، اس نے کہا۔

“واقعی”۔

“واقعی،”واقعی”۔

“کیا تم مجھے اپنے ساتھ باہر جانے کا کہو گے؟”

“ہاں، کہوں گا”، اس نے کہا۔

“کیا تم مجھے بتانے کے لیے تیار ہو کہ کیا ہوا تھا؟”

“ابھی نہیں”۔

لیکن اس نے مجھے اپنے ساتھ باہر جانے کے لیے نہیں کہا۔ ہم نے میسج پر بات کی لیکن میں نے  ایک حد لگائے رکھی تا کہ بات جنسی تعلقات تک نہ پہنچے۔ میں نے مارک نامی ایک پیارے مرد کے ساتھ 2 مرتبہ ڈیٹنگ کی تھی، لیکن یہ ایک معمولی اور جوش سے خالی  تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ جینز کے پاس قابلیت تھی کہ وہ اسے مجھ سے دور کر دے، اور میں مارک کو ایک موقع دینا چاہتی تھی۔ جینز ہمیں ملے بغیر علاقے سے چلا گیا تھا۔

اس نے ایک ماہ بعد مجھے یہ بتانے کے لیے میسج کیا کہ وہ جلد ہی واپس آئے گا اور یہ اس کا یونائیٹڈ سٹٰیٹس کا لمبے عرصے بعد آخری دورہ ہو گا، اس کی کمپنی دوسری مارکیٹوں پر توجہ دے رہی تھی۔ اور وہ اس بارے میں وضاحت کرنے کے لیے تیار تھا کہ اس نے مجھ سے ملنا کینسل کیوں کیا تھا۔

وہ یقینا اب تک شادی شدہ تھا، اور اس کی بیوی کو اسی دوران جب ہم ملنے والے تھے اس کی آن لائن حرکتوں کے بارے میں پتہ چل گیا تھا، لہٰذا ملاقات منسوخ کرنا پڑی۔  انہوں نے مشاورت کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

“یہ کوئی حیرانی کی بات تو نہیں ہے ،” میں نے کہا۔ “یہ حقیقت کہ تم میرے ساتھ اب بھی بات کر رہے تھے یہ ظاہر کرتی ہے تمہارا دل  اپنی بیوی سے جڑا ہوا نہیں تھا۔”

شاید نہیں، اس نے تسلیم کیا، لیکن اب وہ آزاد تھا۔ اور  مجھ سے ملنے کے لیے تیار تھا۔

میں تشویش میں تھی۔ میں اب بھی مارک کو دیکھ رہی تھی، خوشی سے، لیکن مجھے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ اس سب کا رخ کس طرف جا رہا ہے۔ میرے دوست نہیں سمجھ سکے کہ میں اس شخص سے ملنے کا تصور بھی کیسے کرتی تھی جنہوں نے مجھ سے جھوٹ بولا ہو، جس نے میرے ساتھ رہتے ہوئے اپنی بیوی کو دھوکا دیا ہو۔

“مجھے لگتا ہے جیسے ہمارا کام ایک نہ ختم ہونے والا کام ہو”، میں نے کہا۔ 8 ماہ گزر چکے تھے جب میں نے اور جینز نے پہلی دفع میسجز پر بات کی تھی۔ میں جانتی تھی کہ یہ کہیں نہیں جا سکتا تھا، لیکن میں ایسے شخص سے ملنے کے لیے متجسس تھی جس نے مشکل وقت میں مجھ سے التفات کیا تھا۔

زیادہ اہم یہ کہ میں نے محسوس کیا کہ جب میں نے خود کو 15 سال قبل ایک شخص کو دھوکہ دینے کے لیے خود کو  معاف کرنے کا فیصلہ کیا تو اس معافی  سے میرے اوپر ایک اضافی ذمہ داری  عائد ہو گئی ۔ مجھے ہر اس انسان کو معاف کرنا چاہیے جس نے بے وفائی کی ہو، کیوں کہ کسی کے خلاف فیصلہ کرنا اس بات پر جس پر میں نے خود کو معاف کر دیا ہو  منافقت کی انتہا تھی۔

یہی وجہ تھی کہ میں نے ڈیوڈ کو بھی معاف کر دیا تھا۔ میں جانتی ہوں کہ اس نے دوسری عورت کی توجہ کیوں حاصل کی کیوں کہ میں وہاں تھی، ویسی ہی جگہ، پریشان، ایسا محسوس کرتے ہوئے جیسے زندہ رہنے کا کوئی اور راستہ نہ ہو۔ میں نے سوچا میں ایسی خوشی چاہتی تھی جو مجھے نہیں مل رہی تھی۔ میں اسے سمجھتی ہوں۔ ڈر، جذبہ، خطرہ اور جوش۔ میں یہ سب سمجھتی ہوں۔

کسی کا برا رویہ سمجھ لینا ایک رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ رحمت اس لیےکہ سمجھ جانے کے بعد اندازے لگانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ برا پہلو یہ ہے کہ میں کئی بار ایسے لوگوں کا دفاع کرنے لگتی ہوں جن کا رویہ کسی طرح بھی درست نہیں ہوتا۔ لیکن دوسروں سے ناراضگی برقرار رکھنا زیادہ قوت کا محتاج ہے اور روح کو کوئی سکون نہیں دیتا اور میں اتنی بڑی قیمت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری ٹرپ پر میں جینز سے نہیں ملی۔ مارک اور میرے تعلقات میں ایک نئی تبدیلی آ چکی تھی۔ ہم اکثر ایک دوسرے کو ملتے تھے۔ پھر اس نے میری وجہ سے اپنی ٹنڈر پروفائل ہی ڈیلیٹ کر دی۔ یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے میرے لیے جینز سے ملنا ایک بے حرمتی محسوس ہوتا۔ مارک اس بات کا حقدار تھا کہ اسے میری بہترین شخصیت کا ساتھ ملے۔ اس لیے میں نے جینز کو آخری بار میسج کر کے خدا حافظ کہا اور پھر انگلی کے ایک ہی جھٹکے سے اپنی گفتگو کی ساری ہسٹری ڈیلیٹ کر دی۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply